اداروں کی دن رات تضحیک اگر کوئی اور کرے تو غداری لیکن اس سے بھی زیا دہ شدت سے مسلم لیگ نواز کے وزراء کریں تو جائز کیوں؟۔ ایم کیو ایم لندن نے کہا ہم جرنیلوں کا پاکستان نہیں مانتے۔۔ وزیر اعظم آزاد کشمیرراجہ فاروق حیدر اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہم عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ نہ ہی کبھی مانیں گے۔۔۔۔فرض کیجئے یہی بات کل کو کراچی یا کسی اور حصے سے اٹھنے لگے کہ فلاں کے پاکستان کو نہیں مانتے تو بات کہاں تک جائے گی؟۔ پاکستان پاکستان ہی ہے چاہے وہ نواز شریف کا ہو یا شہباز شریف اور عمران خان کا یا فاروق ستار کا؟۔ میاں نواز شریف اقتدار سے علیحدگی کے بعد بار بار سانحہ مشرقی پاکستان کی دھمکی کیوں دے رہے ہیں۔۔۔ کل تک بے نظیر ان کے نزدیک سکیورٹی رسک تھیں اور اب اگر وہ یا ان کے خاندان کا کوئی فرد وزیر اعظم نہ ہو تو وہ پاکستان توڑنے کی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں؟۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کا خاندان اقتدار میں ہو تو پاکستان قبول ورنہ نہیں؟۔ فوج دشمن بیانات پر ملکی قانون نے الطاف حسین کے بیانات تصویر اور تقریر پر پابندی لگا دی اور اس کے مقابلے میں فوج اور عدلیہ دشمن بیانات کی بھر مار کرنے والوں پر انتہائی حساس اور منا فع بخش وزارتیں بطور انعام تقسیم کر دی گئیں ہیں۔۔۔یہ تضاد کیوں ؟۔ راجہ فاروق حیدر اور گلگت کے وزیر اعلیٰ کا نواز شریف کی نا اہلی پر پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات کے متعلق اگر کوئی سوچتا ہے کہ ایسے ہی ان کے منہ سے نکل گئے تھے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ سب با قاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں اور ان کی ادائیگی سے پہلے توتا کہانی کو اس کے ٹیکسٹ لکھوا دیئے گئے تھے۔
آزاد کشمیر سمیت گلگت کے حکمرانوں کے بیانات کو نریندر مودی کی اس تقریر سے ملا کر دیکھنا ہو گا کہ گلگت اور آزاد کشمیر کے لوگ مجھ
سے رابطہ کر رہے ہیں وہ گھبرائیں نہیں میں جلد ہی ان کی مدد کو آئوں گا۔۔۔ ذہن میں رکھئے کہ'' عمران کے پاکستان‘‘ کو نہ ماننے کا پیغام دینے والے ان حصوں میں حکمران ہیںجہاں سے نریندر مودی سی پیک روٹ کو کاٹنا چاہتا ہے۔ یہ بیانات کسی نتھو پھتو نے نہیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے حساس ترین حصوں کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے دیئے گئے ہیں اور جب وہ یہ سب کہہ رہے تھے تو انہیں بخوبی علم تھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور کس کے کہنے پر کہا ہے۔ 1971 کے سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر اورآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی نوازلیگی قیا دت نے جو کچھ کہا ۔۔۔کابینہ میں افواج پاکستان دشمن بیانات کی بھر مار کرنے والوں کی خصوصی شمولیت کو سلیگ ہیریسن کی لکھی اس رپورٹ سے ملاتے ہوئے دیکھنا ہو گا۔۔۔۔ سلیگ ہیریسن کی یہ رپورٹ جب شائع ہوئی تھی تو اس وقت کسی دیوانے کا خواب لگتی تھی لیکن ایک سال بعد ہی یہ سچ ثابت ہو گئی۔۔ 1964 میں امریکن سینیٹر برائے انٹر نیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے سلیگ ایس ہیریسن نے پیش گوئی کر دی تھی کہ اگلے سال ستمبر 1965میں پاک بھارت جنگ ہو گی جو حقیقت بن کر ہم سب کے سامنے ہے۔۔۔۔اور پھر فارن پالیسی میگزین میں افغانستان میںروسی فوجوں کے قبضے کی خبر بھی اسی سینیٹرنے ایک سال قبل دی تھی۔ نیو یارک ٹائمز میں اس کے لکھے ہوئے مضمون کے یہ الفاظ ''Likely break up of Pakistan along ethnic lines as result of''ethnic difference'' must be viewed in the wider context of geopolitical ambitions''. نظر انداز کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر قوموں اور ملکوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے کے ذمہ داروں کی طرف
دیکھیں تو یہ رپورٹ آج سے17 برس قبل دسمبر2000 میں امریکن سی آئی اے کے توسط سے باہر آئی جس میں2016 تک دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی متوقع تبدیلیوں اورپاکستان کو پیش آنے والے واقعات کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ 2015 تک پاکستان آپس کی لڑائی سے لاوارث اور مکمل طور پر دنیا بھر کے عالمی مالیاتی اداروں کا باجگزار بن کر رہ جائے گا اور پاکستان کی سلامتی کا انحصار اس کے قومی اداروں پر نہیں بلکہ اسے قرض اور امداد دینے والے ممالک کی صوابدید پر ہو گا ۔۔۔۔۔اور نواز حکومت کے صرف چار سالوں میں پاکستان پر 35 ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سے جاری سیا سی اور مالی بد انتظامیوں ، سیا سی جھگڑوں، لاقانونیت، کرپشن، لسانی اور مذہبی فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کے طوفان سے پاکستان بمشکل سنبھل پائے گا اس کے دیگر صوبوں میں دن بدن بڑھتے ہوئے داخلی خلفشار اس حد تک پہنچ جائیں گے کہ لوگوں کا اپنی اور خاندان کی پر امن زندگیاں گزارنے کیلئے پنجاب کی طرف بہائو تیزتر ہو جائے گا اور پورے پاکستان میں صرف کراچی اور پنجاب ہی معاشی حب بن کر رہ جائیں گے ا ور باقی حصے کاروباری نشو ونما کیلئے عضو معطل بن جائیں گے آج کراچی سمیت لاہور پنجاب بھر کی مارکیٹیں اس سچائی کی گواہی دے رہی ہیں۔ اس رپورٹ میںپاکستان اور بھارت کے متعلق سی آئی اے کے ایک پیرا گراف کے مطا بق2015 سے اگلے پندرہ سالوں میں ان دونوں ممالک کے باہمی جھگڑے اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والے دیگرتمام واقعات کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جائے گا بلکہ دنیا دیکھے گی کہ افغانستان اور پاکستان میں پھیلی ہوئی تباہی اور انارکی کا رخ کشمیر اور بلوچستان کے کچھ دوسرے حصوں کی طرف ہو جائے گا اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ کنونشنل جنگ میں بھارت کو حاصل نفسیاتی برتری نئی دہلی کو پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کیلئے اکسانا شروع ہو جائے گی۔
2005 میں بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ کا سی آئی اے کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے ''YUGOSLAVIA-LIKE FATE'' کے عنوان سے پاکستان بارے لکھا تھا پاکستان ایک نا کام ریا ست میں تبدیل ہو جائے گا خانہ جنگی کی وجہ سے خون ریزی بڑھ جائے گی صوبائی تعصب قابو سے باہر ہو جائے گا اور پاکستان کی تمام تر توجہ اور وسائل طالبان سے خود کو بچانے اور اپنا ایٹمی پروگرام بچانے کی طرف مرکوز ہو کر رہ جائے گی ۔ ٹائمز آف انڈیا کی اس رپورٹ کے بعد نومبر2008 میں امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے''GLOBAL TRENDS 2025'' کے عنوان سے امریکی سی آئی اے کے حوالے سے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ ہر کوئی ان کے نتیجے میںخطے میں جنگ کے حالات جیسی سنگینی کا اندازہ کرنے لگے گا۔۔۔۔اور پھر اچانک ایک دن ایسا آئے گا کہ افغانستان اور پاکستان کے مغربی حصے کی طرف سے افغانستان اور خیبر پختونخوا کے پشتونوں پر مشتمل ایک نئے ملک کی بنیاد رکھنے کی ڈیمانڈ سامنے آ جائے گی اور۔۔۔۔چھ ماہ قبل محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر بلوچستان کے پشون علا قوں، اٹک، میانوالی اور جلال آباد فاٹا اور کے پی کے سمیت افغانیہ نام کی نئی آزاد پشتون ریا ست بنانے کااعلان کر دیا ۔۔۔۔سوچئے ان کے ساز سے نکلنے والی ''لے ‘‘ ایک جیسی کیوں ہے؟!