تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-09-2017

جاہل کا جہاد کیا ؟

ایک خیال و خواب کی دنیا ہے اور ایک عمل کی۔ برما کے مسلمانوں کی حالت زار پہ آنسوئوں کے دریا ‘ ہم اہل پاکستان نے بہا دیئے ہیں ۔اس سے مگر حاصل کیا ؟۔
جو آگ لگائی تھی تم نے ‘ اس کو تو بجھایا اشکوں نے 
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے ‘ اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
بالکل برعکس‘ ترکی نے بنگلہ دیش کو ‘ مہاجرین کا بوجھ بٹانے کی پیشکش کی۔ ترکیہ کی خاتون اوّل میانمار گئیں۔ ان کے درد نے ‘ ساری دنیا کو متوجہ کیا۔ صرف اپنی قوم ہی نہیں تمام عالم اسلام اور کل عالم کو ۔اس لئے کہ محض فریاد نہیں ‘ جستجو اس میں شامل تھی۔ غم اگر اپنی جان ہی میں سلگتا رہے تو زیادہ سے زیادہ شاعری میں ڈھل سکتا ہے یا رلا دینے والی داستانوں میں۔ رنج و الم میں فکر و خیال اگر ہم سفر نہ ہوں۔ ہمت ہی اگر ٹوٹ جائے ‘ دانش ہی آنسوئوں میں بہہ جائے تو درماندہ بستیوں میں بروئے کار آنے کے لئے کیا باقی بچے گا۔
ایک خیال ہے اور اس سے بہتر خیال اہل نظر پیش کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ‘ اگر کچھ ممتاز لیڈروں کو یکجا کیا ہوتا ۔ شور شرابا کئے بغیر ‘زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے سے درد مندوں کی اعانت کے لئے ایک قومی محاذ اگر قائم کیا جاتا؟۔ اکتوبر 2005 ء میں پختون خوا اور آزاد کشمیر کے زلزلے میں اربوں روپے کا ایثار قوم نے کیا تھا۔ اب بھی شاید ‘ زخموں پر ہم مرہم رکھنے کے قابل ہوتے ۔ اس گریہ وزاری سے ‘ احساس بیچارگی کے سوا کیا ملا؟
ٹوٹے ہوئے پر دیکھ کے رو دیتا ہوں
انجام ِسفر دیکھ کے رو دیتا ہوں 
روتا ہوں کہ آہوں میں اثر ہو لیکن
آہوں کا اثر دیکھ کے رو دیتا ہوں 
سوشل میڈیا پر ‘ درد ناک مناظر ہیں۔ ٹوٹی ہوئی کشتیاں اور ان میں بہتے ہوئے کمسن بچے۔ خون آلود لاشیں اور ان پر ماتم کناںاعزّہ و اقارب۔ گولیاں برساتی افواج اور جنگلوں کے پس منظر میں خس و خاشاک ہوتی آبادیاں ۔ پھر غیظ و غضب سے بھرے ہوئے '' مجاہدین ‘‘ ہیں کہ عالم تصور میں ‘ مسلم افواج کو شمشیر بکف دیکھتے ہیں۔ برما کی لیڈر کا سر اٹھائے ‘ طیب اردوان ‘ میدان جنگ سے شادماںلوٹ رہے ہیں۔ جمعہ کے خطبات میں جہاد کے ‘ کائنات کو زیر و زبر کرنے والے واقعات سننے والوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی بہادر افواج ‘ بنگلہ دیش سے پرے ‘ مون سون سے پرورش پانے والے جنگلوں میں جا اتریں ۔غنیم کے لہو سے ‘ زمین کو سرخ کر دیں۔ اس طرح کے معجزات ‘ کہانیوں ‘ فلموں اور ناولوں میں رونما ہوا کرتے ہیں‘ حقیقی زندگی میں کبھی نہیں۔
مدینہ منورہ سے رسول اللہ ﷺنے مکہّ مکرمہ کی پہاڑیوں کا رخ کیا۔ تاریخ اس کی تفصیل مہیا نہیں کرتی کہ کس طرح صحرا کی راتوںکو سفر کرتے اور دنوں کے اجالے میں جلتے ہوئے ریگ زارمیں ‘ہمہ وقت خود کو وہ پوشید رکھتے ۔ دس ہزار لشکری ‘ ان کا خورو نوش۔ شبوں کی خاموشی میں ‘ آگ کس طرح جلایا کرتے کہ بھولا بھٹکا کوئی مسافر ‘ کوئی کارواں یا نیل گائے کا کوئی شکاری ‘ دریافت نہ کرلے۔ ریگستانی قبائل سے ہم آہنگی کے لئے ‘ سالہا سال پیغمبرِ آخر الزمان ؐنے ریاضت کی تھی۔ کتنے ہی اقدامات ہیں ‘ صفحہ قرطاس تو کیا ‘ مسجد نبوی ؐکے آس پاس بھی ‘ جن کی آہٹ کبھی سنائی نہ دی۔ جنگ دھوکہ دہی ہے ‘ منصوبہ بندی ہے ‘ ریاضت ہے ‘ تربیت اور استواری ہے۔ سالہا سال کی عرق ریزی اور جاں فشانی سے ‘ ایک مرد سپاہی بنتا ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے ‘ جب آرکسٹرا کے سازوں کی طرح ‘ ایک بسیط فوج کو ہم آ ہنگ کرنا ہوتا ہے۔ 
سراج الدولہ کی پینتالیس ہزار سپاہ ‘ انگریز کی تین ہزار فوج کے مقابل کھیت رہی تھی ۔ برصغیر کا مورٔخ ‘جزئیات سے گریز کرتا ہے۔ بس ‘ ایک شعر اس کی یادگار رہ گیا ہے ۔ درماندہ ہیرو کی شہادت کے بعد ‘ روتی پیٹتی ہوائوں کی بازگشت ۔
غزالاں تم تو واقف ہو ‘ کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوا نہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
ویرانوں پر کبھی کچھ نہیں گزرتی ۔ ازل سے اس طرح کے تماشے وہ دیکھتے آئے ہیں۔ ہر زمانے میں قافلے لٹتے ہیں ‘ ہر دور میں زمین لہو کا ذائقہ چکھتی ہے۔
آگ بجھی ہوئی ادھر ‘ ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں 
سینہ کوبی کا اگر کوئی ثمر ہوتا تو کربلا کے پاک باز شہید ضرور زندہ ہو جاتے۔ آنے والے سب زمانوں میں ان سا اُجلا کوئی نہ تھا۔ ان سے بڑھ کر کسی کو رویا نہیں گیا ۔ ان ایسی محبتوں کا مستحق کون تھا؟۔
ہر سانحے کا ایک سبق ہوتا ہے۔ کربلا کے المیے کا سبق یہ تھا کہ اقتدار ادنیٰ ہاتھوں کو سونپنے کا نتیجہ اُجالے کی موت ہوتا ہے۔ امام عالی مقام ؓ نے کہا تھا : روشنی بجھ گئی ‘ اب صرف تلچھٹ باقی ہے ۔ 
حادثات رونما ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ آدم کی اولاد رک جائے ۔رکے اور غور و فکر کرے ۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر ‘ زندگی کبھی سبک اور سرخرو نہیں ہوسکتی۔ طے کرنا ہوتا ہے کہ بیماری کیوں پھوٹی ہے؟ المیہ رونما کیوں ہوا؟۔
مظلوم برمی مسلمانوں کے احوال پر ہم نے سوچ بچار نہ کیا‘ بس دہائی دیتے رہے۔ کچھ تلخ حقائق ہیں توجہ سے محروم یتیم بچوں کی طرح وہ ہمارا منہ دیکھ رہے ہیں۔ انگریزی عہد میں ‘ برصغیر کے مسلمان وہاں بسائے گئے۔ مقامی آبادیوں کے ساتھ کبھی وہ ہم آہنگ نہ ہوسکے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اُٹھنے والی قوم پرستی کی تحریکوں نے وطن کو معبود بنا دیا ہے۔ انسانیت ٹکڑوں میں بٹی اور دیواروں میں قید ہوگئی۔ برما کا کیا ذکر ‘ بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟۔ چیخنے چلانے والے اخبار نویس اور سیاست کار ‘اندرا گاندھی ‘ شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان میں الجھ کر رہ گئے ۔ بنگالی قوم پرستی کے بھوت کا کبھی کسی نے پوسٹ مارٹم ہی نہ کیا‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ جو بچے جنتا رہا۔
بنگلہ دیش میں بہاریوں کے المیے کا اگر مکمل تجزیہ ہم نے کیا ہوتا تو شاید زیادہ گہری ‘ زیادہ بہتر سطح پر ‘ برمی مسلمانوں کے المیے کا ادراک کرسکتے ۔ بر محل اور بروقت احتیاطی تدابیر کرسکتے۔ میانمار کے خون آشام جنرلوں کے مقابل ، جنہوں نے اپنے ہم وطنوں پہ کبھی رحم نہ کیا، ان محدود اور مجبور مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے کا مشورہ کس نے دیا تھا ؟ ایک آدھ واقعے کا یہ ناچیز عینی شاہد ہے۔
سویت یونین کی سرخ سفاک سپاہ نے ‘ پانی کی طرح جو لہوپیا کرتے ‘ افغان عوام کو جہاد کے لئے جگاناہی تھا۔
کسی نے مگر انہیں کتاب نہ پڑھائی ۔ کسی نے مگر یہ نہ بتایا کہ قرآن کریم میں جہاد کی 28 آیات میں سے ‘ صرف آٹھ 8 آیات کا تعلق قتال سے ہے ‘ باقی سب کا موضوع تزکیۂ نفس ہے۔ آدمی کے اندر چھپے ہوئے وحشی جانور کو لگام کرنے سے ۔ افغانستان سے ایک لہر اٹھی اور پھیلتی چلی گئی۔ جہاد سے بڑی کوئی فضیلت نہیں۔ فرمایا : جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ مگر جاہل کا جہاد کیا ؟ جہاد تو اہل ایمان ‘ اہل ایثار اور ان کا تھا، شاعر شاہ حسین نے جن کے بارے میں کہا تھا ۔ ع
راہ عشق دا سوئی دا نکہّ دھاگا ہوویں تاں جاویں 
ہم عجیب لوگ ہیں ‘ اللہ کی کتاب سے بیگانہ ‘ سرور عالم ؐ کے انوار سے بے خبر۔ جہاد اصغر پہ تلے ہوئے مگر جہاد اکبر کے تقاضوں سے مکمل طور پہ نا آشنا ۔
علم اور ادراک کے بغیر ‘ حکمت و تدبیر اور مسلسل حکمت و تدبیر کے بغیر کبھی کوئی سرخرو ہوا تھا نہ ہوگا۔ یہ اس خون آلود باب کا سبق ہے ۔ رہا وحشت کا ثمر تو وہ ہم کاٹ رہے ہیں۔
ایک خیال و خواب کی دنیا ہے اور ایک عمل کی۔ برما کے مسلمانوں کی حالت زار پہ آنسوئوں کے دریا ‘ ہم اہل پاکستان نے بہا دیئے ہیں۔ اس سے مگر حاصل کیا ؟۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved