تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-09-2017

روہنگیا مسلمان

برما کا انسانی المیہ، ظلم اور بے حسی کی ایک الم ناک داستان ہے۔ظلم غیروں کا ،بے حسی اپنوں کی۔ 
بیسویں صدی میں ،اُس وقت کی سامراجی قوتوںنے اس زمین کا جو نیا نقشہ ترتیب دیا،اس کی بنیادوںمیں دانستہ فسادکے بیج بو دیے ۔برسرِ زمین جس طرح لکیریںکھینچی گئیں، ان میں انصاف کو نظر انداز کیا گیا۔مشرقِ وسطیٰ،افریقہ اور جنوبی ایشیامیں کتنے مقامات ہیں جہاں یہ بیج تناوردرخت بن چکے۔ان پر ہر سال فساد کا پھل لگتا ہے اور انہیں انسانی لہو سے سینچا جا تا ہے۔فلسطین، کشمیر ،سوڈان اورافریقہ کے کئی علاقے مسلسل بد امنی اور ظلم کی لپیٹ میں ہیں۔اس ظلم میں سب سے زیادہ حصہ بر طانیہ کا ہے۔ جرمنی والوں نے تو ہولوکاسٹ پہ معافی مانگ لی۔انگریزوں کو تو یہ توفیق بھی نہ مل سکی۔ان کی مکاری ٹونی بلیئر تک زندہ و پائندہ ہے۔ 
اراکان بھی ایسا ہی ایک المیہ ہے۔انگریزوں نے یہاں بھی ایک لکیر کھینچی۔اراکان کو بر ما کا حصہ بنایا۔یہاں کی بدھ اکثریت نے مان کر نہ دیا۔روہنگیا مسلمانوں میں ایک گروہ نے اپنی شناخت پر اصرار کیا جو انہیں انگریزوں کی آمد سے پہلے اس خطے میں حاصل تھی۔تصادم کے اسباب پیدا ہوگئے جنہوں نے ویراتھو جیسے کرداروں کو جنم دیا۔یہ وہی وراتھو ہے جسے کچھ عرصہ سال پہلے 'ٹائم‘ کا سرورق بنایاگیااور اسے 'بدھ دہشت گردی کاچہرہ‘ قرار دیاگیا۔ اسے میانمار کا اسامہ بن لادن بھی کہا گیا۔اس کی قیادت میں عام مسلم شہریوں کے قتلِ عام کا آغاز ہوا۔
یہ المیہ اب کیا شکل اختیار کر چکا،بی بی سی کے رپورٹر نے اس کی چشم دید روداد لکھ دی ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ یک طرفہ ظلم کی ایک افسوس ناک داستان ہے جو ریاست کی طرف سے روا رکھا گیا ہے۔رپورٹر نے بتایا ہے کہ اِسے کذب بیانی سے دو طرفہ عمل ثابت کر نے کی ایسی بھونڈی کوشش کی گئی جو اخبار نویسوں کی نظر سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔وحشت و بربریت کے ان واقعات میں بدھ مت کے پیروکار ملوث ہیں جسے دنیا کا سب سے پرامن مذہب مانا جا تا ہے۔معلوم ہوا کہ مذہب اب ہر جگہ شناخت اور عصبیت کا عنوان ہے،تزکیہ نفس سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ 
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ کشمیرسے مختلف ہے مگر فلسطین سے قدرے مماثلت رکھتا ہے۔اہلِ کشمیر کو بھارت اپنا شہری بنانا چاہتا ہے اور وہ اس پر آمادہ نہیں۔اہلِ فلسطین کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ہی گھر سے بے دخل کیا گیا ہے۔اسرائیل کی ناجائز آباد کاریوں پر اقوامِ متحدہ کی بہت سی قراردادیں مو جود ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ انہیں اپنی ہی سرزمین میں اجنبی بنا دیا گیا۔فلسطین کے برخلاف یہاں علیحدگی یا تشخص کی کوئی عوامی تحریک مو جود نہیں۔بعض تشدد پسند عناصر نے یہاں بھی فساد کے بیج بودیے جس کی قیمت عام لوگوں کو ادا کر نا پڑی۔تاہم عام آ دمی کا مسئلہ سیاسی نہیں ہے۔اس کا بنیادی مطالبہ ہے کہ اسے برما کا شہری مانتے ہوئے اس کے قانونی حقوق کا احترام کیا جا ئے۔ 
یہ عالمی قوتوں کی ذمہ داری تھی کہ بیسویں صدی کے اس درو بست کی حفاظت کرتیں جو ان کااپناتشکیل کردہ تھا۔ اقوامِ متحدہ کا فورم لوگوں کے حقوق کا دفاع کرتا۔ایسا نہیں ہو سکا۔بہت سے معاملات میںاقوام متحدہ کا ایک مثبت کردار رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ سیاسی تنازعات کے حل میں اس نے ہمیشہ عالمی قوتوں ہی کی طرف دیکھا ہے۔اس باب میں ان قوتوں کی اخلاقی بے حسی دورِ جدید کا سب سے بڑا اخلاقی المیہ ہے۔سیاست اخلاق سے جدا ہوتی ہے تو پھر اسی طرح کے المیے وجود میں آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس ظلم کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ بطور مسلمان ہم اس دکھ کو اگر محسوس کرتے ہیں تو یہ فطری ہے۔مذہب کا رشتہ بھی معمولی نہیں ہو تا۔ہم مذہبوں سے محبت بھی ایسے ہی حقیقی ہے جیسے ہم نسل یا ہم وطنوں سے۔سوال یہ ہے کہ بطور مسلمان ہم کیا کر سکتے ہیں؟یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ہمیں اکثر اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔فلسطین سے کشمیر تک پھیلی ظلم کی داستانیں ہمیں پریشان کرتی ہیں۔ہم مظلوموں کی مدد کے لیے کچھ کر نا چاہتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ یہ کیسے ممکن ہو گا۔
ہم ہمیشہ ایسے مسائل کا سیاسی حل تجویز کرتے ہیں اورمسلمان ملکوں کی سیاسی قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مل کر مظلوموں کی مد د کے لیے اپنی فوجیں میدان میں اتاریں؟اس مطالبے کی اساس یہ مفروضہ ہے کہ امتِ مسلمہ کسی سیاسی وجود کا نام ہے۔یہ چونکہ ایک مفروضہ ہی ہے اس لیے اس مطالبے کا کوئی جواب نہیں آتا۔ اس کے نتیجے میں حکمران طبقے کے خلاف اضطراب اور غصہ پیدا ہو تا ہے۔اس لیے سب سے پہلے تو ہمیں اس نفسیات سے نکلنا ہوگا۔اگر ہم قوت کے ساتھ کوئی مسئلہ حل کر سکتے ہیں تو اس کی و احد صورت یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں وہ حیثیت حاصل ہو جا ئے جو کل بر طانیہ اورآج امریکہ کو حاصل ہے۔ آج مسلمانوں کا باہمی رشتہ روحانی ہے سیاسی نہیں۔اس امرِ واقعہ کے اعتراف کے ساتھ ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
اس وقت دو کام ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ مسلمان ممالک اپنے سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے عالمی قوتوں کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ برما کی حکومت کو انصاف پر مبنی رویہ اپنانے پر مجبور کریں۔یہاں بھی معاملہ یہ ہے کہ چین برما کے ساتھ کھڑا ہے۔اگر سلامتی کونسل نے کوئی قدم اٹھایا تو چین ویٹو کر دے گا جیسے امریکہ اسرائیل کے خلاف اپنا یہ (غیر منصفانہ)حق استعمال کر تا ہے۔تاہم اس باب میں سفارتی کوشش ضرور کر نی چاہیے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسے غیر سیاسی اور غیر مذہبی سطح پر انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔سول سو سائٹی کی عالمی تنظیموں اور سیاسی قوتوں کومتحرک کیا جائے کہ وہ اس انسانی المیے کو ختم کر نے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ترکی کی قیادت بھی اسی میدان میں متحرک ہوئی ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ ایسے مسائل میں ترک قیادت نے ہمیشہ جواں مردی اور زود حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔اگر دیگر مسلم قیادتیں اتنا ہی کر سکیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ روحانی تعلق کے تقاضے نبھانے پر بھی آمادہ نہیں۔ 
اس وقت بڑا مسئلہ ان چار لاکھ لوگوں کو بچانا ہے جو ہجرت پر مجبور ہوئے اور بنگلہ دیش جنہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگر سب مل کر ان کا معاشی بوجھ اٹھا لیں تو میرا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی مزاحمت کم ہو سکتی ہے۔اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی اپنے ملک میں باعزت واپسی ہو اور ان کی جان و مال کو تحفظ ملے۔عسکریت پسند اگر مہربانی فرمائیں اور ان سے دور رہیں تو یہ ان کی نیکی ہوگی۔ان لوگوں نے مسلم آبادیوں کو جس عذاب میں ڈالا ہے ،پورے عالمِ اسلام میں اس کے شواہد بکھرے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ شاید کافی نہ ہو لیکن اس کے سواکچھ ممکن نہیں دکھائی دیتا۔سب سے اہم سوال لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔دیگر مسائل اس کے بعد اہمیت رکھتے ہیں۔ہم عالمِ امکانات میں زندہ ہیں۔یہاں ظلم بھی ہے اور خیر بھی۔یہ دنیا شاید اسی طرح چلتی رہے گی۔خیر وشر معرکہ آرا رہیں گے یہاں تک کہ عالم کا پروردگار زمین و آسمان کی طنابیں کھینچ دے اوراپنا فیصلہ نافذ کردے۔پھر عالمِ انسانیت وہ انصاف ہوتا دیکھے جس کی ہم آرزو کرتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved