تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-09-2017

سُرخیاں‘ متن اور نظم کا بقیہ

سپریم کورٹ کے فیصلے سے انتشار نہ ہونا 
جمہوریت کی فتح ہے :شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''سپریم کورٹ کے فیصلے سے انتشار نہ ہونا جمہوریت کی فتح ہے‘‘ لیکن یہ فتح عارضی ہی لگتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے سے اس انتشار کو روکا نہیں جا سکے گا کیونکہ یار لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ شریف فیملی اپنی ریویو درخواستوں کے فیصلے کے بعد دیکھے گی کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے یا نہیں‘ اور فیصلہ وہی ہو گا جو دیوار پر نہایت جلی حروف میں تحریر ہے اور جو اندھوں کو بھی صاف نظر آ رہا ہے‘ چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ فیصلہ انتشار کا باعث ہو گا کیونکہ پھر نوازشریف ہوں گے اور جی ٹی روڈ یا کوئی اور سڑک‘ اول تو صاحب موصوف کی لندن سے واپسی ہی کافی مشکوک ہو چکی ہے‘ بلکہ یہ بھی سُنا ہے کہ وہ تبدیلی آب و ہوا کے لیے امریکہ چلے جائیں گے‘ کر لو جو کرنا ہے‘ تاہم نوازشریف کی غیر حاضری میں بھی تحریک زوروں سے چلے گی جس کی قیادت رانا ثناء فرمائیں گے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ بگٹی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں‘ پارلیمنٹ
میں ہوتے ہیں: شہبازشریف
میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں‘ پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں‘‘ البتہ بھائی صاحب سمیت ہم سب کا فیصلہ سڑکوں پر ہی ہو گا جس کا نظارہ قوم پہلے بھی دیکھ چکی ہے کیونکہ نوازشریف تو احتیاطاً پارلیمنٹ میں جاتے ہی نہیں تاکہ ان کی سڑک ڈپلومیسی مخدوش نہ ہو جائے‘ علاوہ ازیں اگر ہم نے اپنے فیصلے سڑکوں پر نہیں منوانے تو موٹروے سمیت اتنی سڑکیں بنانے کی کیا ضرورت تھی‘ اگرچہ موٹروے ملتان کے حوالے سے کچھ ملی جلی خبریں ابھی تک چل رہی ہیں حالانکہ میں نے اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے جس کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''حلقہ 120 میں جیت کی خوشی میں فائرنگ برداشت نہیں کرونگا‘‘ جبکہ تحریک انصاف والے جیت کی خوشی مٹھائیاں وغیرہ تقسیم کر کے بھی منا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ووٹر بتا دیں گے نوازشریف صادق بھی اور امین بھی : مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ووٹر بتا دیں گے کہ نوازشریف صادق بھی ہیں اور امین بھی‘ اگرچہ ہم پر یہ الزام بھی ہے کہ ہم نے حلقے میں دس ہزار روپے فی ووٹ کی بولی لگا دی ہے جو کہ صرف اور صرف مبالغہ ہے کیونکہ چار پانچ ہزار تک تو بات مانی جا سکتی ہے‘ دس ہزار تو بہت زیادہ ہے اور ووٹرز کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیے۔ نیز ہم نے پیسہ اس طرح ضائع کرنے کے لیے تھوڑی بنایا ہے لہٰذا ہم اس کی بے حرمتی نہیں کریں گے ‘ویسے بھی‘ اگر ووٹ اس قدر خرچ کرنے کے بعد بھی بے حُرمت ہونا ہے تو اس سے زیادہ قابل افسوس بات اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ ابا جان نے بھائی جان کی ملازمت سے تنخواہ بھی نہیں لی جبکہ وسیم سجاد نے یہ نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ تنخواہ اگر وصول نہ بھی کی جائے تو حساب میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ لگتا ہے یہ بھی ہمارے مخالف ہیں۔ آپ اگلے روز حلقے میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہی تھیں۔
اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر پوری طرح قائم ہوں : خواجہ آصف
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر پوری طرح قائم ہوں‘‘ اور یہ کام ہم نے شروع کر بھی دیا ہے اور نوازشریف صاحب نے اداروں کو ٹھیک کرنے کی جس مہم کا آغاز کیا ہے اس کے مثبت نتائج نکلنے ہی کی توقع ہے ۔پاناما کیس کے فیصلے کے بعد جو تحریک چلنے والی ہے اس کے دوران ہی اُمید ہے کہ سارا گھر ٹھیک ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ''سویلین اداروں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ کیا اس کے بعد گھر ٹھیک ہوا؟‘‘ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گھر کی ساری خرابی کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ سے کہا ہے کہ وہ اپنا طریق کار تبدیل کرے‘‘ اور اس نے ٹھیک کرنا شروع بھی کر دیا ہے‘ باقی کسر میں امریکہ پہنچ کر نکال لوں گا کیونکہ میرا کسی سکینڈل میں کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے عدالت جانے اور نوازشریف فیملی۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو دے رہے تھے۔
اور‘ اب کل شائع ہونے والی اقتدار جاوید کی نظم کا باقی حصہ :
مرا باپ لاوقت کی اصل؍ بنیادی پانی کا ٹھہرائو؍ میں اس کی صفوپوش پیشانی کو دیکھتا دیکھتا؍ دن بدن اس کا پھیلائو؍ حرفوں میں‘ بچوں میں‘ بچوں کے بڑھنے میں؍ دیکھااسے آسمانی پروں کی طرح؍ خود کو 
پھیلاتے ؍ بچوں کو اپنے پروں میں چھپاتے؍ زمانے کو نیچے ہٹاتے ؍ مرا باپ ؍ خود اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے غار میں؍ روز اُترتا الہ دین بنتا ؍ ہزاروں چراغ اس کے ہاتھوں میں آتے ؍مگر اِن سے ہٹتا‘ پلٹتا؍ دہانے پہ جب نام اپنا مرا باپ لیتا؍ چٹانیں ہوائوں میں اُڑتیں؍ دہانے لرزتے؍ میں جب باپ کے ساتھ؍ زینے سے عمروں سے لمبے کڑے کوس والے؍ سینہ رنگ زینے ملاتا ہُوا؍ باپ کے سائے میں؍ اپنا نادیدہ بے شخص سایہ چھپاتا ہُوا؍ نیچے اُترا؍ وہاں پر اندھیری تہوں پر تہیں تھیں ؍ وہاں...ایک عرصے سے چُپ باپ بولا؍ یہاں پر کوئی اور بھی ہے ؍ جو ہم دونوں کی سانسیں گنتا ہے۔ تب کان کن دیکھتا؍ ان سرنگوں کا سینہ؍ ان سرنگوں کا سینہ؍ سیہ رنگ مٹی کے نیچے تڑپتا ہے؍ نیچے دھڑکتی ہے دل سی کوئی چیز؍ جیسے کوئی چیز باہر نکلنے کو بے تاب ہے؍ کان کن جانتا ؍ اُس کی آنکھوں کے حوضوں میں پانی نہیں؍ دودھیا خواب ہے؍ خواب جس پر کوئی دودھیا تھال ہے ؍ تھال میں اُس کے بیٹے کا بستہ ہے؍ بستے میں اس کی کتابیں نہیں؍اُس کی ماں کے لیے ؍ سات رنگوں بھری شال ہے (باپ کے لیے لکھی گئی طویل نظم کے چند ٹکڑے)
آج کا مقطع
عزت اگر ملی تو اُسی سے ملی‘ ظفرؔ
بے غیرتی کے ساتھ جو پیسہ بنایا ہے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved