تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-09-2017

Survival of the fittest

میرے گزشتہ کالم ''امتیں ‘‘ ، میں یہ لکھا تھا کہ چالیس پچاس ہزار سال پہلے جب انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ، تب اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ وہ جانوروں سے گوشت اور دودھ حاصل کرتا لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ ان کی زندگیوں پر تحقیق کر سکتا۔ آج اس کے پاس بہت وقت ہے ، توانائی ہے ،بجلی ہے ، کیمرے ، دوربینیں اور وہ دوسرے آلات ہیں ، جو کہ جانوروں پر تحقیق کے لیے درکار ہیں۔ اس نے شیروں اور بھیڑیوں کے گلے میں کیمرے باندھ کر پورے پورے گروہ کا جائزہ لیا۔ ان میں سے کون غالب (dominant) ہے اور کون مغلوب (submissive)۔ ان میں سے ہر گروہ اس قدر مکمل اصولوں پر زندگی گزار رہا ہے کہ جسے دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے ۔ غالب نر اور مادہ کے علاوہ دوسروں کو اولاد پیدا کرنے کا حق نہ بھی دیا جائے تو انہیں اعتراض نہیں ہوتا۔ 
دنیا بھر میں ہر کہیں جانداروں کے گروہ سختی سے ان اصولوں کی پابندی کر رہے ہیں ۔ کرّہ ء ارض کے چپے چپے پر زندگی پھیلی ہوئی ہے ۔نیشنل جیو گرافک کی ایک دستاویزی فلم میںدنیا کے تیسرے بڑے جزیرے ''بورنیو ‘‘ کے حالات دیکھیں تو اور حیرت ہوتی ہے ۔ وہاں بہت بڑے بڑے ایسے غار ہیں ، جہاں سورج کی روشنی کبھی نہیں پہنچی۔ اس کے باوجود وہاں بے شمار قسم کے جاندار اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ غاروں کی دیواروں پر چمگادڑ نما جاندار اپنے گھونسلے بناتے ہیں ۔ مکڑی کی طرح ، وہ اپنے تھوک سے یہ گھونسلے بناتے ہیں ۔ یہ تھوک ہوا لگنے سے خشک ہو کر پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔ غاروں کے فرش پر لال بیگوں کی پوری آبادیاں قائم ہیں۔ یہ چمگادڑوں سے نیچے گرنے والی چیزوں پر زندگی گزارتے ہیں ۔جب کوئی چمگادڑ مردہ حالت میں نیچے گرتی ہے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے پر، خون ، گندگی اور دوسری ہر چیز ان کے لیے خوراک کا کام کرتی ہے ۔چمگادڑیں آواز کی لہروں کی مدد سے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتی ہیں ۔ وہ منہ سے آواز نکالتی ہیں اور جب آواز پلٹ کر ان کے کانوں میں آتی ہے تو ان کے دماغ انہیں تصویر بنا کر دکھا دیتے ہیں کہ سامنے کون کون سی رکاوٹیں ہیں ۔ اسی کی مدد سے وہ اپنی خوراک ڈھونڈتی ہیں اور اسی کی مدد سے واپس اپنے گھونسلے تک پہنچتی ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کہیں پانی پہنچتا ہے ، خواہ روشنی نہ بھی پہنچتی ہو، وہاں وہاں کرّہ ء ارض کے ہر چپّے پر زندگی موجود ہے ۔ 
ان غاروں اور سمندروں کی گہرائیوں میں ، آپ آگے بڑھتے چلے جائیں ، آپ کو ایسی ایسی خوفناک اور بھیانک مخلوقات ملیں گی کہ آپ حیران وپریشان رہ جائیں گے ۔ نیشنل جیو گرافک ہی کے اعداد و شمار کے مطابق اگر آج 87لاکھ مخلوقات (species) اس زمین پر زندگی گزار رہی ہیں تو ان میں سے بمشکل 14فیصد کو انسان ابھی تک کوئی نام دے سکا ہے ۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ انسان نام دینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ تو اپنے منہ سے نکلنے والی ہر آواز کو بھی ایک نام دیتا ہے اور مٹی پر پڑے ایک نشان کوبھی ایک نام دیتاہے ۔ اس نے زبانی اور تحریری زبانیں ایجاد کی ہیں ۔ اس قدر تیز رفتار ترقی اور سپر کمپیوٹرز کے باوجود صرف چودہ فیصدمخلوق کا ہم نام جانتے ہیں ۔ باقیوں کو ابھی تک ہم شناخت بھی نہیں کر سکے۔ یہ حیرت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی ابتدا سے لے کر انسان کے وجود میں آنے تک جن پانچ ارب مخلوقات نے زمین پر زندگی گزاری، آج ان میں سے صرف 1فیصد باقی ہیں ۔ باقی 99فیصد ختم ہو چکی ہیں ، extinctہو چکی ہیں ۔ ان 1فیصد کو دوبارہ اگر 100مان لیا جائے تو پھر اس میں چودہ فیصد کو ہم نے نام دیا ہے اور باقی 86فیصد کو نہیں دے سکے ۔ 
ایک محترمہ نے لکھا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ انسان نے چالیس پچاس ہزار سال پہلے شعور کی آنکھ کھولی۔ جب کہ ہومو سیپین(ہم انسانوں کا سائنسی نام) کی تاریخ دو لاکھ سال پرانی ہے ۔یہ چالیس پچاس ہزار سال کی تاریخ آپ نے کہاں سے لی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ انسان کو یہ سب کس نے سکھایا، جو وہ آج کر رہا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کئی ملین سال کے ارتقا کا نتیجہ ہے اور اس کے بنیادی اصول survival of the fittestکی وجہ سے ہی ہم اس قابل ہوئے ہیں ۔ اس اصول survival of the fittestکے مطابق صرف وہی جاندار باقی رہتے ہیں ، جو زمین کے بدلتے ہوئے حالات سے خود کو تیزی کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتے ہیں ۔ باقی ختم ہو جاتے ہیں ۔ 
جواب یہ ہے کہ survival of the fittestایک حقیقت ہے لیکن پھر بھی یہ انسانی عقل کی وضاحت نہیں کرتا۔ survival of the fittestمیں سے سب جاندار گزرے ۔ کروڑوں سال تک زندہ رہے ۔ ہماری عمر صرف دو لاکھ سال ہے (حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے نئے فاسلز کے مطابق دو لاکھ سال نہیں بلکہ تین لاکھ سال)۔ اب اگر کروڑوں سال تک زندہ رہنے والی مخلوقات تو صرف خوراک اور نسل بڑھانے تک ہی محدود رہیں اور تین لاکھ سال میں ایک مخلوق اس قابل ہو جائے کہ وہ وائی فائی سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے لگے ۔ مریخ ، زحل، اور دیگر سیاروں پر مشینری اتار دے ۔ چاند پر قدر رکھ دے؛اور حتیٰ کہ اپنے ایک مشن (وائیجیر ون ) کو نظامِ شمسی کی حدود سے باہر بھیج دے ۔ زمین کے نیچے سے سب مفید دھاتیں برآمد کرے اور ان کی تجارت کرے ۔ صرف یہی نہیں کہ بلکہ اس کی اکثریت کسی نہ کسی مذہب سے منسلک ہو جائے۔ عبادت کرنے لگے ۔ لباس پہننے لگے ۔ لوہے سے انجن بنا کر، اس میں تیل جلا کر ہوا میں اڑنے اور زمین میں بھاگنے لگے تو اس کا مطلب صرف اور صرف ایک ہے ۔ اس کی عقل اس زمین پر ارتقا پذیر نہیں ہوئی بلکہ اس پرآسمان سے کچھ نازل ہوا ہے ۔ اگر یہ عظیم الشان انسانی عقل زمین میں قدرتی طور پر ارتقا پذیر ہوئی ہوتی تو پھر لازماً پانچ ارب میں سے کسی اور جاندار میں بھی اس کے کچھ آثار ملتے لیکن کروڑوں اربوں سال میں ، وہ سب کے سب صرف خوراک، زندگی کی حفاظت اور افزائشِ نسل تک محدود رہے ۔ ان میں سے بہت سوں کو انسان کے ہاتھوں اپنے اختتام (extinction)کی طرف بڑھنا پڑا۔ شدید دبائو کے باوجود ان کی عقل ارتقا نہ کر سکی۔ وہ صرف حسیات سے ملنے والے ڈیٹا پر اپنا ردّعمل دے سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کسی چیز کو کوئی نام دینا، آپس میں ایک دوسرے تک وہ علم پہنچانا، لمبی منصوبہ بندی کرنا ، اس سب میں سے وہ کچھ بھی نہ کر سکے ۔ ہاں ، یہ بات ہے کہ وہ سب کبھی کنفیوژ نہیں ہوتے ۔ زندگی میں جو کچھ انہیں کرنا ہوتا ہے ، وہ جنیاتی (Genetically) طور پر انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے ۔ انسان کو چونکہ اختیار دیا گیا ہے ، اس لیے اکثر وہ کنفیوژ بھی ہوتا ہے کہ اب اس موقعے پر کیا کرنا چاہئے ۔ عقل اور جبلت کی ایک جنگ چلتی رہتی ہے ۔جیسے survival of the fittestایک حقیقت ہے ، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی عقل زمین پر ارتقا پذیر نہیں ہوئی بلکہ اس پر نازل ہوئی ہے ۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved