شاعری وہ ہوتی ہے جس کا کوئی جواز بھی ہو اور جس شاعری سے میںآپ کو متعارف کرانے جا رہا ہوں وہ باقاعدہ ایک جواز رکھتی ہے۔ لہٰذا اس کے شاعر ی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا اور شاعری کسی کا اجارہ بھی نہیں ،یہ کسی پر بھی مہربان ہوسکتی ہے۔ سو کتاب کا نام ہے '' بادل جھکتے پانی پر ‘‘ اور شا عر ہیں ناصر محمود ملک ۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ جو شاعر کے اپنے ہی مو قلم کا مرہون منت ہے۔ اسے زاویہ پبلیشنرز ‘ دربار مارکیٹ لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 400روپے رکھی ہے۔ کتاب کسی انتساب کے بغیر ہے۔ پس سر ورق تحریر کرنے والے ہیں۔ منیر نیازی ‘ نذیر قیصر اور شکیل عادل زادہ ۔ منیر نیازی کہتے ہیں کہ '' اردو شاعری کی روایت کو کسی طرح بھی تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی پسند ادب یا کچھ اور نام دینا بھی میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ میں تو ایک ایسی شاعری پڑھنا چاہتا ہوں جس میں روایت اور اپنے عصر کی خوشبو ہو۔ ناصرمحمود ملک کی شاعری مجھے انتہائی پسند ہے کہ یہ خواب و خیال کے ساتھ ایک جمال کو اپنے اندر سموتی ہے۔ ان کی نظم اور غزل یکساں خوبی کی حامل ہیں، مجھے ان کے ہاں تازگی اور ندرت دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا دریچہ جووا ہوتا ہے تو کسی خوبرو تصور کو افشا کردیتا ہے۔ ناصر محمود ملک شاعری کو ہفت آسماں کی داستان نہیں بناتے، چھوٹی بحر کی غزلیں بہت متاثر کن ہیں اور نظمیں کسی ان سنی کہانی جیسی ہیں۔ مجھے ناصر محمود ملک کی شاعری پڑھتے ہوئے مسرت ہوتی ہے‘‘۔
نذیر قیصر جو خود بھی ایک صاحب طرز شاعر ہیں۔ رقمطراز ہیں کہ '' بیداری کے اُفق پر خواب کی طرح طلوع ہونے والی اس طلسمی کتاب کے لئے ہم ناصر محمود ملک کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس خوبصورت شعری کائنات میں داخل ہونے کی اجازت دی (دیباچے سے اقتباس ) شکیل عادل زادہ کے مطابق ''اوزان و بحور ‘ قواعد و ضوابط اور فنی محاسن کی بات تو ناقدان سخن جانیں۔ یہ ترازو کی بات ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ میرا معاملہ تو بیشتر بیرون ترازو سے ہے۔ مجھے تو یہ سب کچھ دیکھ کر کسی تازگی کا احساس ہوا ہے۔ تازگی اور لطافت کار اس کتاب میں پھول کھلے ہوئے ہیں۔ اسے پڑھ کر کوئی خوشبو سی رگ وریشہ میں سما جاتی ہے اور رنگ آنکھوں کے آگے لہرانے لگتے ہیں۔ اس شاعری سے قنوطیت طاری نہیں ہوتی۔ اُمید کی تحریک ملتی ہے۔ انتظار میں لطف آنے لگتا ہے۔ یہ نو بہ نو کیفیات سے لبریز تصویریں ہیں۔ کوئی شاعر اس قدر بیکل کر دیتا ہے تو آسمان نے ضرور اس کا حوصلہ آزمایا ہے ‘‘
آیئے اس گل و گلزار میں داخل ہو کر دیکھتے ہیں۔ پہلے غزلوں میں سے کچھ اشعار
یقیں آتا نہیں مجھ کو، گُماں بھی تو نہیں جاتا
ترے میرے بدن میں یہ کہاں کی خاک اُڑتی ہے
وہ سارے شہر میں اک کم سخن ہے
اُسی سے گفتگو کے سلسلے ہیں
جس سے آگے تیرے گھر کے رستے تھے
اُس دریا کا ایک کنارہ مجھ سے تھا
بنائیں گے کوئی اب اور ہی صورت تعلق کی
یہ وصل و ہجر اپنے درمیاں رہنے نہیں دیں گے
گُھٹن ہر روز بڑھتی جارہی ہے
ہوا سے دُور ہوتے جارہے ہیں
گو محبت ایک پل میں کھو گئی
دل کو سمجھانے میں اک عرصہ لگا
ہم ہیں خواب سنانے والے
اے تعبیر بتانے والے
یاں ہوا تو چلتی ہے
بادباں نہیں کھلتے
ابھی مُٹھی میں تھوڑا آسماں ہے
ابھی قدموں کے نیچے کچھ زمین ہے
اور اب ان کی کچھ نظمیں
دھوپ ہے میرے دل کا موسم
دھوپ ہے میرے دل کا موسم / بارش میری آنکھوں کا پت جھڑ / میری چُپ کا موسم / چُپ میں کتنا شور / لفظ میری پوروں کے موسم / پوروں میں کچھ راز / راز کُھلے تو گیت بنیں گے / گیت مرے ہونٹوں کے موسم / چاہیں سُر کا ساتھ / سُر ہیں تیرے اندر / برسوں تیری خاطر جاگے / اب تو جاگ سمندر
یہی دن تھے
ہوائیں مہرباں تھیں / اور ایک موسم کی شفقت بھی / جزیرے بادبانوں کو بُلاتے تھے / یہی دن تھے تمہارے درد کے اشجار دو رویہ/ اور ان پر میں تمہارا نام لکھتا تھا / مرے خوابوں کی رنگت کتنی گہری تھی / یہی دن تھے / تمہاری آنکھ میں پہلی محبت کی گلابی کھل رہی تھی / تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ پر / خوشبو کا ایک بوسہ بنا تھا / یہی دن تھے / کہ جن میں ہار آیا تھا زمانے / تمہارے درد کی خوشبو کو چھو ا ٓیا / یہی دن تھے / تمہارے خواب کی مٹی کو میں بھی اوڑھ کر سویا / یہ آنکھیں پھر نہیں کھولیں
اور اب آخر میں انجم سلیمی کا شعر
لوگوں نے مجھ کو مالِ غنیمت سمجھ لیا
جتنا بھی جس کے ہاتھ لگا لے اُڑا مُجھے
آج کا مقطع
اور کیا چاہیے کہ اب بھی ،ظفر
بھوک لگتی ہے ،نیند آتی ہے