تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-09-2017

شوقِ بے لگام کی بند گلی

اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ انسان نے ڈیڑھ دو ہزار سال کے دوران جہل کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بے بنیاد نظریات و عقائد کے بُت گرائے ہیں اور علم و عمل کی نئی راہیں تلاش کرکے نئی اور پرکشش منزلوں کی طرف سفر تیز کرنے پر توجہ دی ہے۔ اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی نے انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا خاصا تیز عمل دیکھا اور اِس کے نتائج سے بہرہ مند بھی ہوئی۔ بیسویں صدی ہر اعتبار سے انقلاب آور ثابت ہوئی۔ اِس ایک صدی نے پوری دنیا کو (تاریخ کے حقائق اور مستقبل کے امکانات سمیت) یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ڈیڑھ دو ہزار سالہ مدت میں انسان نے جو کچھ سوچا اور چاہا وہ سب کچھ ہمارے سامنے آچکا ہے۔ 
آج تک انسان نے جو کچھ سوچا ہے اُس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اور یہ کوشش زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کے مقصد کے تحت کی جاتی رہی ہے۔ مگر یہ کیا؟ ترقی کے اس سفر نے تو زندگی کو مزید مشکل، بلکہ پیچیدہ تر بنادیا ہے۔ ایسا کیوں یا کیونکر ہوا ہے، یہ سمجھنا مشکل بھی ہے اور ضروری بھی۔ 
فطری علوم و فنون کے شعبے میں واقع اور رونما ہونے والی ترقی نے انسان کو جس قدر آسانیاں بخشی ہیں اُس سے کہیں زیادہ مشکلات سے بھی نوازا ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں بکھری ہوئی ہیں۔ جس طور کانٹوں بھری راہ پر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے بالکل اُسی طور جدید ترین سہولتوں کے ضمنی یا ذیلی اثرات سے بچنے کے لیے بھی انسان کو بہت تگ و دَو کرنا پڑ رہی ہے۔ 
ٹیکنالوجی کی غیر معمولی پیش رفت نے دنیا کو فنگر ٹپس پر تو لا کھڑا کیا ہے مگر معاملات کی کجی دور ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن انسان کے لیے مشکلات اور پیچیدگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کل تک جن پریشانیوں کے بارے میں صرف سوچا جارہا تھا اور جن کے حوالے سے خدشات اور وسوسے ذہنوں میں پل رہے تھے وہ تمام پریشانیاں اب ہماری زندگی کا حصہ ہیںاور حصہ بھی ایسا جسے الگ کرنے میں باقی زندگی لگ جائے۔ 
آسانیوں نے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں اور پہلے سے موجود مشکلات کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ یہ سب کچھ محسوس اور غیر محسوس دونوں سطحوں پر ہو رہا ہے۔ چند ایک مشکلات ایسی ہیں جو ہمیں ابھرتی اور پنپتی دکھائی دے رہی ہیں اور اُن سے بچاؤ کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر مشکلات اور الجھنیں ایسی ہیں جن کا معرض وجود میں آنا، ابھرنا اور پنپنا ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی ہم اُن کا بروقت ادراک کرنے میں یکسر یا بہت حد تک ناکام رہتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم کسی بھی پیچیدہ معاملے کو سمجھنے کے لیے درکار ذہنی سطح پیدا کرنے یا پروان چڑھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو خاصے نیم دِلانہ انداز سے، نچلی سطح کے ولولے کے ساتھ۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مشکلات پنپتی جاتی ہیں اور پھر اچانک ابھر کر سامنے آتی ہیں اور ہمیں ورطۂ حیرت و حسرت میں ڈال دیتی ہیں۔ 
زندگی کے بیشتر انتہائی پیچیدہ معاملات اب فنگر ٹپس پر آگئے ہیں۔ ہم چاہیں تو زندگی کو زیادہ آسانیوں کی طرف لے جائیں، مزے سے جئیں اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں،مگر ایسا ہوتا نہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ نئے دور کے نئے ماحول میں ابھرنے والی نئی زندگی کے تقاضے نبھانے کے لیے جو ذہن درکار ہے وہ ہم نے پیدا ہی نہیں کیا، بلکہ یوں کہیے کہ پیدا ہونے ہی نہیں دیا۔ قدم قدم پر نئی سوچ درکار ہے۔ ہر نئی صدی نئے تقاضوں کے ساتھ نمودار ہوتی رہی ہے اور اکیسویں صدی کو تو اب تک کی معلوم تاریخ کا عرق کہیے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ایسے میں اِس صدی کے تقاضے بھی زیادہ اور عجیب ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنے پر متوجہ نہیں۔ یہ اہلیت اس وقت پیدا ہوگی جب ہم اس اہلیت کے پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھیں گے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اکیسویں صدی ہم سے کچھ خصوصی تقاضے کرتی ہے تب تک ہم کوئی بھی ایسا قدم ڈھنگ سے اٹھا نہیں سکیں گے جو منزل ِمقصود کی طرف لے جاتا ہو یا متعلقہ راہ پر ڈالتا ہو۔ 
ٹیکنالوجی کے فوائد سے کماحقہ مستفید ہونا سب کا حق ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش ہم سب پر فرض ہے۔ مگر اور بہت کچھ بھی تو ہم پر فرض ہے۔ مثلاً آسانیوں کی کوکھ سے جنم لینے والی مشکلات کو سمجھنے اور ان سے بہ طریق احسن نپٹنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا بھی تو ہم پر فرض ہے۔ مشکلات کو سمجھنے اور زیادہ سے زیادہ کارگر طرزِ زندگی اپناکر اُن سے گلو خلاصی کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ ہم نہیں کر پارہے یا نہیں کر رہے۔ 
آسانیوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ کل تک جو اخلاقی خرابیاں بمشکل پنپ پاتی تھیں وہ اب راتوں رات پروان چڑھ رہی ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار ہوتی جارہی ہے۔ اکیسویں صدی ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے، بہت سے معاملات میں غیر معمولی توجہ کا تقاضا کرتی ہے مگر ہم اب تک متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ ہمیں صرف آسانیاں دکھائی دے رہی ہیں، اُن کے پہلو سے ہویدا ہونے والی مشکلات پر ہماری نظر نہیں۔ 
بیسیوں سہولتیں سمٹ کر اسمارٹ فون میں سماگئی ہیں۔ اور اسمارٹ فون زندگی کے ہر اہم معاملے میں ہمیں ''آؤٹ اسمارٹ‘‘ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ ایسے میں ذمہ داریاں دوچند ہوگئی ہیں مگر ہم اِس طرف متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ آن لائن کھیلے جانے والے بلیو وھیل گیم ہی کو لیجیے۔ روس کے فلپ بوڈکن کے تیار کردہ اس آن لائن گیم نے اب تک 300 سے زائد جانیں لی ہیں۔ اس پچاس روزہ گیم کے ہر پلیئر کو ٹاسک ملتے جاتے ہیں اور وہ ٹاسک پورا کرکے ٹریک ریکارڈ اس گیم کے ایڈمن ڈپارٹمنٹ کو دیتا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں نوجوان اس گیم کا شکار ہوئے ہیں یعنی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس گیم کا شکار ہونے والے نوجوان سامنے آئے ہیں۔ پشاور میں ایک لڑکی سمیت پانچ نوجوانوں کا علاج ہو رہا ہے۔ بلیو وھیل کے کھلاڑیوں کو انتہائی خطرناک ٹاسک دیئے جاتے ہیں۔ خود کو جری اور ذہین ثابت کرنے کے لیے نوجوان ہر ٹاسک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں کھانے اور پینے کی بہت سی چیزیں ہیں مگر تمام چیزیں ہر انسان کے لیے نہیں ہوا کرتیں۔ یہی حال انٹرنیٹ کا ہے۔ انٹرنیٹ پر بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ اُس سے بچنا لازم ہے۔ اِس کے لیے نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ مگر ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب والدین اور دیگر بزرگ اپنا قبلہ درست کرچکے ہوں! اگر وہ خود بھی انٹرنیٹ اور آن لائن کلچر میں گم ہوں تو نئی نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آسانیوں نے ہر معاملے میں شوق کو یکسر بے لگام کرکے ہمیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ اس بند گلی سے نکلنا لازم ہے ورنہ مکمل تباہی سے کچھ بھی نہ بچ پائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved