کبھی کبھی یوں ہی جی چاہتا ہے‘ پرانے راستوں کا سفر پھر سے کیا جائے۔ یہ خواہش دراصل گزرے دنوں کو پھر سے بِتانے کی آرزوہوتی ہے۔ کسی پرانے دوست سے ملنا، کسی پرانی کتاب کا مطالعہ، کوئی پرانی فلم دیکھنا، کسی پرانے دیار میں جانا‘ دراصل ان لمحوں کو زندہ کرنے کی تمنا ہوتی ہے‘ جو ریت کی صورت ہماری مٹھی سے پھسل چکے ہوتے ہیں۔ یہی خواہش مجھے بھی چار دہائیوں بعد اپنی کھوئی ہوئی جنت گورڈن کالج لے گئی۔ کالج کی دہلیز پار کرتے ہی سرخ اینٹوں کی جانی پہچانی عمارت نظر آئی جہاں کالج کی لائبریری، ہمارا کمرہء جماعت اور جوبلی ہال تھا۔ میں نے جوبلی ہال کی دیوار پر ہاتھ رکھا تو بیتے ہوئے لمحے جیسے پھر سے دھڑکنے لگے۔ اس ہال میں مجھے کتنے ہی مباحثوں، تقریری مقابلوں اور مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ اسی ہال میں ایک بار ہم نے اردوکی معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کو مدعو کیا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ مانوس آوازوں کی بازگشت سنائی دینے لگی اور ان آوازوں کے ہمراہ وہی دلدار، دھوپ جیسے روشن چہرے ماضی کی چلمن سے جھانکنے لگے۔ صدائوں اور منظروں کا بھی عجیب رشتہ ہے۔ اردو کے بے بدل شاعر ظفراقبال کاایک خوبصورت شعر ہے:
آئینۂ آواز میں چمکا کوئی منظر
تصویر سا اک شور مرے کان میں آیا
ان چہروں میں سب سے روشن چہرہ خواجہ مسعود صاحب کا ہے۔ وہ ہمارے زمانے میں کالج کے پرنسپل تھے۔ بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، ہر دم متحرک، ایک سیمابی شخصیت۔ تاریخ، فلسفہ، ادب، سیاست ہر موضوع پر ان کو دسترس حاصل تھی اور ریاضی تو تھا ہی ان کا اپنا مضمون۔ وہ آخر دم تک اخبارات میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے رہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک Dynamic Leader تھے۔
جوبلی ہال سے جُڑا ہوا ایک اور روشن چہرہ پروفیسر نصراللہ ملک کا ہے۔ ملک صاحب کتابوں کے عاشق اور دلچسپ گفتگو کے رسیا تھے۔ ان کا مضمون تو تاریخ تھا لیکن ان کی دلچسپی کا ایک میدان ڈرامہ بھی تھا۔ ڈرامہ اور فلم کے چند اہم ناموں راحت کاظمی، شجاعت ہاشمی اور نیر کمال کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ وفات سے کچھ پیشتر میں ان سے ملنے ہسپتال گیا تو انہیں دیکھ کر جی دھک سے رہ گیا۔ شدید کمزوری ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ دھیرے سے مسکرائے‘ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انگریزی میں بولے ینگ مین زندگی میں کچھ مختلف، کچھ نیا کرنا۔ زندگی صرف بسر نہیں کرنا اس کو Live کرنا۔ کاش میں ان کی آخری خواہش پوری کر سکوں۔
جوبلی ہال کے اوپر ہماری ایم اے انگلش کی کلاسز ہوتی تھیں۔ انگریزی کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر سجاد شیخ صاحب تھے۔ شیخ صاحب بہت مخلص اور بہت محنتی استاد تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی چھٹی کی ہو۔ ایک روز طوفانی بارش ہو رہی تھی۔ شیخ صاحب نے سیٹلائیٹ ٹائون سے آنا ہوتا تھا۔ ہم سب دعا کر رہے تھے کہ آج شیخ صاحب نہ آئیں۔ کلاس کا وقت ہو رہا تھا۔ آسمان سے چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔ لیکن اس روز بھی ہماری دعائیں کام نہ آئیں۔ ہم نے دیکھا شیخ صاحب چھتری تانے آڑی ترچھی بارش میں بھیگتے آرہے تھے۔
گورڈن کالج کا خاص امتیاز اس کی غیرنصابی سرگرمیاں تھیں جو طلباء کی شخصیت کو ابھارنے اور نکھارنے میں خاص کردار ادا کرتیں۔ کالج میں بار اور منروا کے ناموں سے دوکلب تھے۔ طلباء اور اساتذہ کو ان دو کلبوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور زوروں کے مباحثے، تحریری اور تقریری مقابلے ہوتے۔ اسی تربیت کی بدولت یہاں کے فارغ التحصیل طلبا زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ کالج کے میگزین گورڈونین کا اجراء 1915ء میں ہوا۔ اس کے ایڈیٹرز کی فہرست میں کتنے ہی معروف نام آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نام اردو کے نامور ادیب جگن ناتھ آزاد کا ہے‘ جو گورڈن کالج کے طالب علم رہے۔ ان کے والد تلوک چند محروم‘ جو اردو کے معروف شاعرہیں‘ گورڈن کالج میں اردو اورفارسی کے استاد رہے۔ مجھے بھی یہ اعزازحاصل ہے کہ میں بھی گورڈونین کا ایڈیٹر رہا۔
جوبلی ہال سے اگلی عمارت کالج کی سب سے پرانی اورخوبصورت عمارت ہے جس کی پیشانی پرگورڈن کالج کا نام کندہ ہے۔ کالج کایہ نام مشنری انتظامیہ کے ایک سینئر رکن اینڈریو گورڈن کے نام پررکھاگیا۔ ساتھ ہی1893ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب مشن سکول راولپنڈی میںکالج کی کلاسز کااجراء کیاگیا۔کالج کی موجودہ عمارت کاافتتاح 20مارچ 1903ء کو ہواتھا۔ ذرا آگے آئیں تو سائنس بلاک آتا ہے۔ سائنس بلاک سے کالج کی پرانی عمارت کو ایک خوبصورت پُل سے جوڑاگیا ہے۔ اس سے آگے بائیں طرف ایڈمن بلاک ہے اسی بلاک میں پرنسپل آفس بھی ہے۔ کیاکیا ستارے تھے جواس کہکشاں کاحصہ رہے۔ ان میں ڈاکٹرمورٹن، رالف سٹیورٹ، اے کیو ڈسکوی، پروفیسر زیویر اور پروفیسر خواجہ مسعودشامل ہیں۔
ایڈمن بلاک کے بالکل سامنے لیڈیزگارڈن ہواکرتاتھا جو صرف طالبات کے لئے مختص تھا۔ ایک زمانے میں گورڈن کالج میں اردو، انگریزی اورتاریخ میں ایم اے کی مخلوط کلاسیں ہواکرتی تھیں۔ اب لیڈیز گارڈن کی خوبصورت باڑکٹ چکی ہے اور وہاں کسی نئے بلاک کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ یہاں سے ذرا آگے دائیں طرف کالج کے گرائونڈز ہیں۔ کالج میں کھیلوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ کالج کی ہاکی، فٹ بال ،کرکٹ، اتھلیٹکس، باسکٹ بال اور والی بال کی ٹیمیں تھیں۔
بائیں جانب مورٹن ہال میں ہاسٹل کے کمرے ہیں۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے۔ ہاسٹل کاایک اہم کرداریہاں کاملازم غنی کاکا تھا جس نے طویل عرصہ یہاں پر ملازمت کی۔ وہ علی الصبح ہرکمرے کے دروازے پر اپنے ڈنڈے سے دستک دیتا۔ سارے کمروں پردستک دے کے جگانا، اچھا خاصا مشکل کام تھا لیکن غنی کاکا بڑے شوق سے اپنی ذمہ داری پوری کرتا۔ اب بھی کمروں کے دروازوں پر اسکی دستک کے نشان باقی ہیں۔ سنا ہے کچھ ماہ پہلے غنی کاکا وفات پاگیا۔ رہے نام اللہ کا۔
اس سے آگے کا منظر میرے لئے اجنبی تھا۔ سب کچھ بدل گیاتھا۔ سٹوڈنٹس کینٹین بند ہو چکی تھی۔ اسی طرح پروفیسر ٹی ہائوس بھی ختم ہوچکاتھا۔ اس ٹی ہائوس میںکیسی کیسی محفلیں سجا کرتی تھیں‘ چائے کے دور چلتے اور ایک کونے میں شطرنج کی محفل جمتی تھی۔ ٹی ہائوس کے سامنے لان میں پروفیسرز مِل کر بیٹھتے۔ ایم اے کے طالبعلم ہونے کے ناتے ہمیں بھی ان محفلوں میںجگہ مل جاتی اور سچی بات تویہ ہے کہ ہم نے ان محفلوں سے بہت کچھ سیکھا۔
یہاں گورڈن کالج کی عمارت ختم ہوجاتی ہے۔ باہر جانے کے لئے کالج کاچھوٹا گیٹ ہے۔ اس گیٹ سے نکل کر میں کالج روڈپرآگیا ہوں۔ کالج روڈ کانام گورڈن کالج کی نسبت سے رکھاگیاہے۔ گیٹ سے نکل کربائیں طرف مڑیں تو زم زم کیفے آتاتھا۔ گورڈن کالج کاذکر زم زم کیفے کے بغیر نامکمل ہے۔ زم زم کیفے کے اندراورباہرکھلی جگہ بیٹھنے کاانتظام تھا۔ یہاں چائے چھوٹے گلاسوں میں دی جاتی تھی۔ چائے کے ہمراہ فرمائش پر پسند کے گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ زم زم کی جگہ اب فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھل چکی ہیں۔آج اتوار کادن ہے اورصبح کاوقت، آسمان پربادل گھرِ کر آئے ہیں۔ ٹھنڈی ہواکے جھونکوں سے یوں لگتا ہے جیسے کہیں گردونواح میںبارش ہورہی ہے۔ آج سڑک پربھیڑبہت کم ہے۔ چلتے چلتے میرے قدم رک گئے مجھے یوں لگازم زم کیفے اسی جگہ پرواپس آگیا ہے۔ کیفے کے اندر چہل پہل ہے۔ کیفے کامالک مطلوب بٹ چائے کے آرڈر لینے کے ساتھ گانوں کی فرمائشیں بھی وصول کررہاہے۔ کیفے سے باہر شہتوت کے درخت کے نیچے بچھی کرسیوں پرہم کالج کے دوست بیٹھے ہیں۔ میز پر چھوٹے گلاسوں میںچائے رکھی ہے۔ شہتوت کی ٹہنیاں تیزہوامیں جھول رہی ہیں۔ مطلوب بٹ نے گراموفون پر نیاریکارڈ چلادیا ہے گانے کے بول ہواکے دوش پرتیررہے ہیں۔ ''زندگی کے سفرمیں گزرجاتے ہیں جومقام... وہ پھر نہیںآتے‘‘
ٹھنڈی ہوا،خوبصورت شاعری اور مدھر آواز۔ میں آنکھیںبندکرلیتا ہوں اورگیت کے بول مجھے ایک ایسی دنیامیں لے جاتے ہیں جہاں چیزیں اتنی بے ثبات نہیں ہوتیں۔