تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     19-09-2017

برصغیر کا جمہوری سفر

جو جمہوری سفر 70 برس پہلے شروع ہوا وہ ہمارے اور پیارے فیض صاحب کو کیسے نظر آیا؟ اُفق پر داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر۔ ہندو پاک کی آزادی کو 70 برس ہوئے تو برطانیہ کے روزنامہ گارڈین نے اپنی 15 اگست کی اشاعت میں دونوں ممالک کے جنم دن پر اتنا متوازن اور فکر انگیز اداریہ لکھا کہ میں نے (کافی تذبذب کے بعد) فیصلہ کیا کہ اس کی تلخیص اور ترجمہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ کالم نگار کا گارڈین کے تبصرہ اور تجزیہ سے متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ اپنی ذاتی رائے (چاہے وہ کتنی ہی متنازعہ ہو) کے اظہار کو محفوظ رکھتے ہوئے میں مندرجہ ذیل سطور (مذکورہ بالا اداریہ کا ترجمہ) لکھنے کا کام شروع کروں تو آپ میری لمبی تمہید پڑھنے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔
اداریہ کا عنوان ہے: Democracy is a work in progress and regress مطلب یہ ہے کہ جمہوریت ایک عمل کا نام ہے۔ دونوں ممالک میں یہ عمل جاری و ساری ہے مگر کئی رُکاوٹیں حائل ہوئیں اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ یہ عمل آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف گیا۔ ڈرائیونگ کی زبان میں Reverse Gear بھی لگا۔ مگر ان تمام رُکاوٹوں‘ آزمائشوں‘ ٹھوکروں اور صدموں کے باوجود جمہوریت کی گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ جمہوریت کی ندی بہتی رہی۔ جمہوری پودا پھلتا پھولتا رہا۔ یہ ہے سنگِ میل نمبر70 تک گرتے اور پھر اُٹھتے ہوئے پہنچ جانے والے دونوں ممالک کے بارے میں گارڈین کے تبصرے کا خلاصہ۔ عنوان تو آپ نے پڑھ لیا۔ اب اداریہ بھی پڑھیں اور پھر اُس پر غور و فکر کریں کہ ''کفار‘‘ (بعض حلقوں کی نظر میں) ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں اور اُن کا استدلال کیا ہے؟ گارڈین کا اداریہ اُس جملہ سے شروع ہوا جو 1947ء میں برطانیہ واپس چلے جانے والے انگریز افسرِ اعلیٰ کو اُس کے بھارتی ہم منصب نے کہا‘ ''آپ نے سو سال پہلے ہندوستان کو جس حالتِ انتشار‘ افراتفری اور بدنظمی کی حالت میں پایا اور اُس پر قبضہ جمایا‘ آپ آج اُسے اسی حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘ تقسیم کے وقت ہندوستان پر جو قیامت ٹوٹی اُس کے نتیجہ میں لاکھوں بے گناہ (جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے) مارے گئے۔ بدترین جرائم کا بڑے وسیع پیمانے پر ارتکاب کیا گیا۔ تاریخ انسانی میں اتنی بڑی نقل مکانی اور ہجرت پہلے دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ صرف دو مذکورہ بالا ممالک نہیں بلکہ پانچ سو سے زیادہ ریاستیں بھی‘ جو رقبہ کے اعتبار سے کئی یورپی ممالک جتنی بڑی تھیں یا صرف ایک گائوں میں ایک سردار کی جاگیر تک محدود تھیں۔ غیر ملکی راج کی آہنی گرفت نے تو ان تمام ریاستوں کو ایک شکنجہ میں جکڑے رکھا‘ مگر ہمالیہ جتنا بڑا سوال یہ تھا کہ برصغیر میں عوام کا نمائندہ جو جمہوری نظام غیر ملکی راج کی جگہ لے گا‘ اُس میں یہ ریاستیں کس طرح مدغم ہوں گی؟ ریشم میں ٹاٹ کا پیوند کس طرح لگے گا؟
دو سو سال کے برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد سفید حاکم اپنا سامان باندھ کر واپسی کے سفر کی تیاری کرنے لگے تو جاتے جاتے ہمیں یہ تحفہ بھی دے گئے کہ نہ صرف ہندوستان کو ایک سیاسی وحدت بنایا بلکہ اسے بطور ہندوستان ایک واضح شناخت دی۔ سفید حکمران وثوق سے کہتے تھے کہ راج ختم ہوگا تو پھر شیرازہ بکھر جائے گا۔ ہر طرف افراتفری‘ بدنظمی اور طوائف الملوکی ہوگی ۔ ہر قومیت اپنا اپنا پرچم بلند کرے گی۔ تحریک آزادی کی بدولت ہر مذہب‘ ہر نسل اور ہر زبان بولنے والے لوگ ایک جاندار اور تابندہ لڑی میں پروئے ہوئے تھے اور اپنے ایک مشترکہ دُشمن کے خلاف لڑ رہے تھے۔ دُشمن ہزاروں میل دُور اپنے دیس چلا گیا تو یہی لوگ آپس میں دست و گریباں ہوں گے۔ پارلیمانی آداب کے مطابق نہیں بلکہ تشدد کا بے دریغ استعمال کر کے۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ بالکل یہی ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ مشرقی پنجاب میں خالصتان کی زبردست تحریک چلی۔ کشمیری عوام کی بھارتی تسلط کے خلاف تحریک آزادی۔ بھارت میں نکسل باری تحریک کی مسلح جدوجہد۔ 
پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل زبان کے جھگڑے سے شروع ہوا۔ مشرقی پاکستان کی زبان (بنگالی) کو دُوسری قومی زبان تسلیم کرنے کی بجائے وہاں کی آبادی (جو مغربی پاکستان سے بھی زیادہ تھی) کو اُردو بطور واحد قومی زبان مان لینے کا حکم دینا قومی وحدت میں پہلی دراڑ ڈالنے کا عمل تھا۔ گارڈین کی رائے میں بھارت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد وہاں رہنے والے (جو دُنیا کی کل آبادی کا چھٹا حصہ ہیں) آزادانہ اور منصفانہ (Fair and Free) انتخابات میں حصہ لے کر ووٹ دینے کاحق استعمال کرتے ہیں‘ جو جمہوری نظام کی شرطِ اولین ہے۔ بھارتی فوج جتنی بھی بڑی سہی وہ اپنی بیرکوں میں اور ایوان اقتدار سے محفوظ فاصلہ پر رہتی ہے۔ بھارت کی لبرل جمہوریت یقینا قابل تعریف ہے مگر اس کے چہرے پر کئی بدنما دھبے ہیں۔ فرسودہ اور عوام دُشمن نظام انصاف۔ سرکاری عدالتوں میں سیاسی مداخلت۔ کرپشن (اور وہ بھی بڑے پیمانہ پر ہونے والی کرپشن) کے خاتمہ میں ناکامی۔ بنیادی انسانی حقوق (خصوصاً اظہارِ رائے کی آزادی) کی نہ ختم ہونے والی خلاف ورزی۔ بھارت بہت سی مکروہات (Taboos) کا مرکز بن گیا ہے۔ بنیاد پرست۔ تنگ نظر۔ فسطائی اور فرقہ وارانہ ذہن رکھنے والے لوگ (جن کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے) اُن کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگوا سکتے ہیں‘ جن میں اُن کے نظریات اور خیالات سے مختلف بیانیہ (Narrative) لکھا گیا ہو۔ یورپ کے دانشور حلقے برصغیر میں رہنے والوں کو ایک زمانہ میں ایک لقب سے پکارتے تھے‘ جس کا ترجمہ ممکن نہیں اس لئے انگریزی میں لکھنے پر مجبور ہوں (اور معافی چاہتا ہوں) لقب ہے Homo Hierarchicus مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کا وہ حصہ جن کا سماج سب سے زیادہ غیر مساوی ہے اور رہے گا۔ اپنی مخصوص سرشت‘ ترکیب اور ساخت کی وجہ سے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بھارت میں اُس کی آدھی آبادی (جو عورتوں پر مشتمل ہے) اور دو کروڑ اُچھوت (Dalits) سماجی ناانصافی‘ تعصب اور غیر مساوی سلوک (اس سے زیادہ نرم الفاظ استعمال نہیں کئے جا سکتے) کا شکار ہیں۔ نہ مساوات اور نہ انصاف۔ صرف استحصال اور بدترین امتیازی رشتوں کی ادارہ جاتی پشت پناہی۔
روزنامہ گارڈین نے لگی پیٹی رکھے بغیر لکھا کہ آج دُنیا میں سب سے زیادہ غلام بھارت میں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کو وہ برابری اور خصوصی توجہ نہیں ملی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ بھارتی آئین نے اچھوتوں اور عورتوں کو دُوسری ذات کے لوگوں اور مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں مگر یہ مساوات صرف آئین کے کاغذوں تک محدود ہے۔ عملی زندگی میں اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ برطانوی اخبار گارڈین کو یہ لکھنے میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ امریکہ اور یورپ کی نظر میں چین کے Authoritarian (آپ ترجمہ بتائیں) نظام کا مقابلہ اور موازنہ بھارت کا لبرل اور جمہوری نظام سے کیا جائے تو اہل مغرب بھارت کو ترجیح دیتے ہیں اور اسے زیادہ پائیدار سمجھتے ہیں۔ گزشتہ برس (2016ء) بھارتی معیشت ترقی میں چین سے آگے نکل گئی‘ مگر بھارت کو شدید فضائی اور آبی آلودگی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ یورپ کی طرح یہ بھی ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں کئی رنگوں کے پھول ہیں۔ اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت (بھارتیہ جنتا پارٹی) پھولوں کی کثرت کو ختم کر کے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جو Pluralistic (میں اس کا ترجمہ نہ کر سکا) نہ ہو تو یہ بھارت کی بدقسمتی ہوگی۔ گارڈین نے جو کچھ بھارت کے بارے میں لکھا منطقی اعتبار سے درست ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ اس کالم کے قارئین مندرجہ بالا سطور کو ایک بار پھر دھیان سے پڑھیںاور اُن پر غور کریں اور اپنا احتساب خود کریں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ انجیل مقدس کے مطابق اُن لوگوں کو اپنے پڑوسیوں کی آنکھ میں پڑا ہوا تنکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنا اور پھر اس کی کوٹھوں پر چڑھ کر تشہیر کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا جو اپنی آنکھ کا شہتیر نہ دیکھ سکتے ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved