تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     19-09-2017

مسئلہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے حکمران

پچھلے کچھ عرصے میں شام، عراق، یمن اور مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں جاری درندگی، معاشی زوال‘ عرب حکمرانوں کی لڑائیوں، خلیج فارس میں تنائو اور مختلف بحرانوں کے ہنگام کارپوریٹ میڈیا، اقوام متحدہ اور حکمرانوں کے گماشتہ اداروں اور نام نہاد ''عالمی کمیونٹی‘‘ نے مسئلہ فلسطین کو بڑی بے نیازی سے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ لیکن ٹیلی ویژن سکرینوں سے مقبوضہ فلسطین کے باسیوں کے دکھوں اور عذابوں کو غائب کر دینے سے یہ اذیتیں اور بربادیاں کم تو نہیں ہو جاتیں‘ الٹا ہر نیا دن پہلے سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیلی براہِ راست بمباری اور ریاستی دہشت گردی میں کوئی وقفہ آتا ہے تو ان کے اپنے حکمرانوں کا جبر برس پڑتا ہے۔ بھوک ننگ اور افلاس کے ساتھ ساتھ زمینوں اور دیہاتوں پر بڑھتے ہوئے اسرائیلی قبضے ان کی زندگیوں کا دائرہ کار محدود اور جینا دوبھر کرتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بعض حکمران مل کر ''فلسطین کے مسئلے‘‘ کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے‘ اپنے ملکوں میں بیرونِ ملک سے آئے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے‘ اور اپنی حاکمیت کو طول دیتے تھے۔ اب ان کی باہمی پھوٹ فلسطین میں ان کے حمایت یافتہ گروہوں میں مختلف انداز میں سرایت کر رہی ہے۔
پچھلے ہفتے حکمران جماعت ''حماس‘‘ کے نئے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے قاہرہ کا دورہ کیا۔ اس دورے سے واپسی پر حماس نے 17 ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ اپنی مدِمقابل فلسطینی پارٹی الفتح اور اس کے لیڈر محمود عباس سے نہ صرف مذاکرات کے لیے تیار ہے‘ بلکہ وہ تمام فلسطینی علاقوں میں نئے انتخابات کروانے پر بھی رضامند ہے۔ یہ دورہ مشرقِ وسطیٰ اور عرب ممالک کی سیاست اور سفارتکاری میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں اور بدلتی وفاداریوں کی غمازی کرتا ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں پر محمود عباس کی ''فلسطینی اتھارٹی‘‘ کے نام سے چلائی جانے والی حکومت اور غزہ میں ''حماس‘‘ کی حاکمیت کے درمیان تنائو بہت شدت اختیار کر چکا تھا۔ حماس کی حکومت کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے لئے ''فلسطینی اتھارٹی‘‘ کی انتظامیہ نے غزہ میں رہنے والے اپنے فلسطینی ملازمین کی اجرتوں میں کٹوتیاں کر دیں اور غزہ کی پٹی کی بجلی کی سپلائی بہت کم کر دی۔ 2007ء میں الفتح اور حماس کے درمیان مسلح لڑائی بھی ہو چکی ہے۔ پچھلے سال غزہ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس نے الفتح کو شکست دی‘ لیکن محمود عباس کی انتظامیہ نے ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صلح کا یہ اعلان بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ حماس اور الفتح کے متحارب و فلسطینی گروپوں کے درمیان صلح کی کئی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ اس سے پیشتر 2014ء میں بھی دونوں گروپوں کی ''متحدہ حکومت‘‘ بنی تھی۔ حماس کے مصالحتی بیان کو الفتح کے ایک سینئر رہنما نے خوش آئند قرار دیا‘ لیکن ساتھ ہی ان خدشات کا اظہار کیا کہ ان کو ان وعدوں پرعمل درآمد مطلوب ہے‘ ورنہ یہ بے معنی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ مصر کے دور ے کے دوران سیسی آمریت کے سائے تلے الفتح اور حماس کے نمائندوں کے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ حماس کے نمائندوں نے واپسی پر یہ بیان دیا کہ ''مصر کی فراخ دلانہ پیش کش اس (فلسطینی گروہوں کے درمیان) پھوٹ کو ختم کرنے کی مصرکی خواہش کوظاہرکرتی ہے‘ اوراس بنیادپرہماری ''قومی یکجہتی‘‘ کی خواہش سے مطابقت رکھتی ہے‘‘۔ حماس کایہ موقف‘ اس کے پرانے موقف میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔ لگتاہے کہ مصراورحماس کے درمیان تنائو اس وقت سے ختم ہونا شروع ہوا جب امسال مئی میں حماس نے مصر کی بنیاد پرست پارٹی ''اخوان المسلمین‘‘ سے ناتے توڑنے کا بالواسطہ اعلان کیا تھا۔ 
پچھلے چند سالوں میں حماس انتظامیہ‘ غزہ کی پٹی میں مصراوراسرائیل کی پابندیوں اور سپلائی کے راستوں کی بندش سے بہت کمزور ہو چکی ہے‘ لیکن تنازعات اتنے گہرے اور خونریز ہیں کہ اس مصالحت کوبہت سی مشکلات اورمزاحمتوں کاسامناکرناپڑے گا۔ اگرحماس نے غزہ کی عبوری انتظامیہ کی کمیٹی کوالفتح کے دبائو کے تحت تحلیل کر بھی دیا تو غزہ میں حاکمیت حماس کی ہی رہے گی۔ اسی قسم کی ایک ڈیل 2011ء میں قاہرہ میں ہوئی تھی لیکن حاکمیت کو قائم رکھنے
کے تنازعے میں یہ ٹوٹ گئی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ رکاوٹ بننے والا عنصر حماس کااپنی مسلح قوتوں اورسکیورٹی کے اداروں کو محمود عباس کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت کے سپرد کرنے سے گریزاں ہونا تھا۔ اس مرتبہ پھر یہ مسئلہ ابھرے گا۔ مسلح طاقت کو الفتح کی کمان میں منتقل کرنے پر حماس کے اپنے اندر سے سخت مزاحمت پیدا ہوگی۔ 
غزہ کی پٹی کی بیس لاکھ کی آبادی‘ کھلے آسمان تلے دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں بدترین اقتصادی، سیاسی اور ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی خونریز جارحیت کا شکار ہے اور مصر کی سرنگوں کو بند کئے جانے سے بنیادی ضروریات سے محرومی کی اذیتوں میں بھی مبتلا ہے۔ معیشت زوال کا شکار ہے اور دنیا کی سب سے بڑی بیروزگاری کی شرح بھی غزہ میں ہی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار فلسطینی مقبوضہ غزہ سے ''بارڈر‘‘ پار کر اسرائیل میں جا کر ملازمت کرتے تھے۔ آج پابندیوں اور سزاؤں کی سختی کی وجہ سے ایک فلسطینی بھی نہیں جا سکتا۔ پہلے ہر گھر میں 4 گھنٹے بجلی آتی تھی‘ اب اس کو دو گھنٹے کردیا گیا ہے۔ ہسپتال، سیوریج، ٹیلی کمیونیکیشن اور پانی کو نمک سے صاف کرنے کے ادارے‘ جو پہلے سے ہی خستہ حال تھے‘ اب مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ان کاموں کے لیے جنریٹر موجود ہیں لیکن ان کے لئے درکار تیل مصر کے ذریعے آتا تھا‘ جو کئی مہینوں سے بند ہے۔ باقی تمام زمینی اور سمندری راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں اور وہ غزہ میں بندرگاہ بننے نہیں دیتا۔ 
فلسطینی پورے خطے میں بکھیر دیئے گئے ہیں۔ ان کے علاقوں کو کاٹ کاٹ کر علیحدہ کیا گیا ہے۔ مغربی کنارے کی نام نہاد ''خود مختار‘‘ پٹیوں میں 30 لاکھ فلسطینی ہیں جن کے درمیان 3,85,000 یہودی آبادکاروں کی کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ مشرقی بیت المقدس میں 3,20,000 فلسطینی اور 2,10,000 یہودی ہیں۔ اگر غزہ میں محرومی اور دہشت کی انتہا ہے تو الفتح کے زیرِ انتظام مشرقی کنارے میں عباس کی ''حکومت‘‘ شدید کرپشن اور مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔ یہ سارا علاقہ براہِ راست یا بالواسطہ اسرائیل کی صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔ فلسطین کے باسیوں کی آج جو عملی رہائش اور آبادکاری کی صورتحال ہے‘ اس کو زمینی حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو 'دو ریاستی حل‘ عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہے۔ عرب حکمرانوں کے سامراجی مقاصد کے دبائو نے حماس کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے‘ لیکن اس سے بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مروجہ سفارتکاری پہلے فلسطینی متحارب گروہوں کے درمیان صلح کروا کر‘ پھر فلسطینیوں اور قابض اسرائیلی صہیونیت کے درمیان مذاکرات سے حل حاصل کرنے کا پرچارکرتی ہے‘ لیکن حماس اور الفتح کے درمیان پہلے بھی ایسے کئی معاہدے ٹوٹ چکے ہیں۔ آج 70 سال بعد فلسطین کی آزادی کی منزل پہلے سے بھی دور محسوس ہوتی ہے‘ لیکن 2011ء کے عرب انقلابی طوفان کے دوران جو ایک اہم واقعہ سامنے آیا تھا‘ وہ اسرائیل، مصر اور فلسطین کے عام انسانوں کا مشترکہ مطالبات لے کر تحریک میں اترنا تھا۔ عوام کی انقلابی بغاوت کو جمہوریت کے نام پر کچل کر مشرقِ وسطیٰ میں آگ اور خون کا بازار گرم کرایا گیا۔ صہیونی ریاست کے ظلم وجبر کی بھی انتہا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ علاقے کے حکمرانوں کی ریاکاری بھی بدترین ہے۔ اپنے حواری گروہوں کو تھوڑے پیسے دے کر وہ فلسطینیوں میں پھوٹ ڈلوا کر ان کے نئے انقلابی انتفادہ کو روکنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی آمرانہ حاکمیتوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ لیکن طبقاتی بنیادوں پرایک نیا انتفادہ‘ جس کی منزل انقلابی فتح ہو‘ کے بغیر آزاد فلسطین کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے ایک سابقہ فوجی جرنیل نوام تیبون نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ''لوگوں سے ان کی آخری امید بھی نہیں چھین لینی چاہیے۔ جب کسی کو دیوار سے لگا دیا جائے تو پھر اس کے خلاف بغاوت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کا معاشی طور پر دم گھونٹ دینا اس کی اپنی بربادی کا باعث بن سکتا ہے‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved