کبھی کوئی ایسا شعر دیکھنے‘ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کو پکڑ کر بٹھا لیتا ہے اور جسم میں ایک طرح کی سنسنی سی دوڑ جاتی ہے اور‘ حیرت ہوتی ہے کہ شعر اس طرح بھی کہا جاتا ہے‘ اور یہ ہے علی ارمان کا بھیجا ہوا وہ شعر ؎
حُجرے پہ میرے عشق نے آ کر کہا کہ اُٹھ
دروازہ کھول تیری گرفتاری آئی ہے
سبحان اللہ! مضمون کتنا پرانا ہے اور اس کی کیسے کایا پلٹ دی گئی ہے یعنی عشق میں گرفتار ہونا تو شروع ہی سے سنتے آئے ہیں لیکن علی ارمان نے اس نہایت پرانے مضمون کو کس قدر تروتازہ کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ شاعر اور کچھ بھی نہ کہے تو اسے زندہ رکھنے کے لیے یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔ اس شعر کے لیے شکریہ علی ارمان!
بہت کم اور بھی ایسے لوگ ہیں جن کا ایک شعر کئی دیوانوں پر بھاری ہے۔ مثلاً ہمارے دوست شعیب بن عزیز کا یہ مشہور زمانہ شعر ؎
اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے‘ اس طرح کے کاموں میں
مذکورہ بالا موضوع پر اُستاد انجم رومانی کا یہ شعر دیکھیے ؎
انجم غریبِ شہر ہیں‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیئے گئے
اور‘ تقریباً اسی موضوع پر ہمارے (ناراض دوست احمد مشتاق کا یہ لاجواب شعر) ؎
ہوتی ہے شام‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
چنانچہ شعر محض قافیے ردیف کا کھیل نہیں ہے‘ اسے شعر بنانا پڑتا ہے۔ بات وہی ہوتی ہے لیکن اسے ذرا سا گھما پھرا کر کیا سے کیا کر دیا جاتا ہے اور یہ ایک طرح سے مُردے میں جان ڈالنے کے برابر ہے اور مضمون کا تھوڑا سا زاویہ بدلنے سے ہی ایک پرانا مضمون جیسے نیا نکور ہو جاتا ہے ورنہ یہ مضامین غیب سے ہرگز نہیں آتے‘ یہ آپ کے اردگرد ہی بکھرے پڑے ہوتے ہیں‘ آپ کے دست ہُنر کے منتظر کہ کب ایک گرے پڑے موضوع کو شاعر چار چاند لگا دے اور ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نبخشد خدائے بخشندہ
سو‘ بات کا اہم ہونا ضروری نہیں‘ دیکھا یہ جاتا ہے کہ بات کہی کسی طرح گئی ہے۔ اشعار ضرب المثل کوئی مفت میں نہیں ہو جاتے۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں کوئی بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہوتی ہے اور کچھ محض اپنے طرز اظہاری کی بنا پرشہرت کے آسمان کی بلندیوں کو چھوڑنے لگتے ہیں‘ حتیٰ کہ بڑی حقیقت والا شعر بھی ایک عمدہ طرز اظہار کے بغیر نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو شعر میں کچھ بھی نہیں ہوتا ماسوائے ایک اچھوتے طرز اظہار کے حتیٰ کہ کبھی ایک لفظ ہی شعر کو شعر بنا دیتا ہے‘ مثلاً اسی شعر میں گرفتاری آئی ہے‘ کا پُرلطف استعمال اور‘ اس طرح شعر میں ایک ڈرامائی کیفیت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ پھر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خوشخبری ہے یا کوئی بُری خبر جبکہ یہ دونوں بھی ہو سکتے ہیں۔ بلکہ یہ محض شعر نہیں‘ اسے ایک پورا واقعہ بنا دیا گیا ہے اور‘ یہ محض توفیق کی بات ہے۔ پھر یہ بھی کہ میں نے اس شعر کو دوبارہ نہیں پڑھا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ یہ پڑھتے ہی جیسے دل پر نقش ہو کر رہ گیا۔ کیا بات ہے۔ آغاز عشق کو اس سے زیادہ خوبصورت انداز میں شاید ہی بیان کیا جا سکتا ہو۔
آپ نے دیکھا کہ شعر میں استعمال ہونے والے کم و بیش ہر لفظ نے اس میں تاثیر اور خاص طور پر نُدرت پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یعنی عشق‘ حجرہ اور اُٹھ دروازہ کھول‘ وغیرہ۔ ایسا شعر وہی شاعر کہہ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہو کیونکہ یہ سعادت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ بات کہی ہی اس طرح سے جائے کہ وہ کیا سے کیا ہو جائے اور یہی ایک شاعر کا کمال بھی ہے۔ اور‘ جو شاعر ہوتا ہے‘ بتاتا ہے کہ وہ شاعر ہے‘ ورنہ قافیہ پیمائی تو ہم جیسے کرتے ہی رہتے ہیں۔
مختلف طبائع پر شعر کا اثر مختلف ہوتا ہے۔ اکثر اشعار اگر مسرت بخش ہوتے ہیں تو کئی ایسے بھی کہ آپ کو اُداس کر دیتے ہیں یا حیرت میں مبتلا کرنے کا یارا رکھتے ہیں۔ اسی لیے شعر کا پُرلطف یا پُرتاثیر ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسی طرح‘ حیرت میں مبتلا کر دینے والا شعر بھی اپنی ایک الگ شان رکھتا ہے اور اس طرح کا شعر قاری کو کئی کئی طریقوں سے اپنی گرفت میں لینے کی قدرت رکھتا ہے ورنہ عام طور پر تو شعر آپ کے سر سے ہی گزر جاتا ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی شعر تھا بھی کہ نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ اس شعر میں کسی طرح کی جدت‘ تجریہ یا لمبے چوڑے کنائے اشارے یا استعارے وغیرہ سے کام نہیں لیا گیا اور محض اپنے حُسن بیان کے ذریعے شعر کا یہ پھُول کھلا دیا ہے۔
ویسے تو عام طور پر ہر شاعر اپنے آپ کو تیس مار خاں سے کم نہیں سمجھتا لیکن ایک جینوئن شاعر کو اپنے حدود و قیود کا پتا ہوتا ہے اور‘ عمدہ شعر کوئی حادثتاً یا اپنے آپ ہی نہیں ہو جاتا‘ اس میں شاعر کی پوری ذات شامل ہوتی ہے۔ اُسے پتا ہوتا کہ جو کچھ اُس نے کہا ہے وہ دوسروں سے کتنا مختلف ہے کیونکہ مختلف ہوئے بغیر تو بات بنتی ہی نہیں اور یہ شعر قاری سے یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ؎
دروازہ کھول‘ تیری گرفتاری آئی ہے
اس شعر نے کم از کم مجھے تو گرفتار کر ہی لیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ علی ارمان ابھی اور بھی اچھے اچھے شعر کہے گا‘ اور ہو سکتا ہے کہ اُس نے کہہ بھی رکھے ہوں ۔اُس کی زنبیل میں اور بھی بہت کچھ ہو گا۔ اس شاعر سے مجھے تعارف حاصل نہیں تھا۔ اور‘ اب ہوا ہے تو کیسا زبردست ہوا ہے۔ سو‘ اب آخر میں اس شعر کے لیے علی ارمان کا دوبارہ شکریہ ع
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
آج کا مقطع
گزرا تھا اِک سوار اِدھر سے کبھی‘ ظفرؔ
آنکھوں میں ہے غُبار ابھی رہگزار کا