تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-09-2017

کیا ہم رہ گئے؟

(قسط :1 )
سابق وزیراعظم‘ میاں نوازشریف نے‘ لاہورکے حلقہ این اے120کے ضمنی الیکشن میں‘ جس ذہانت سے عدالتوں اور حریفوں کو'' شکست ‘‘دی ‘ اس کی جتنی بھی داد دی جائے‘ کم ہے۔ان کے سیاست میں آنے سے پہلے‘ ملک کا انتخابی ماحول بالکل مختلف تھا۔قومی ‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے‘ حلقوںمیں جیت ہار کے جتنے بھی طور طریقے تھے‘ان سب میں امیدواروں کے خاندان ‘انفرادی حیثیت‘ تعلیمی و ذہنی قابلیت ‘شہر یا گائوںمیں عوام کے ساتھ‘ ان کا حسن سلوک اور خدمت خلق کی جزوی شہرت کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر زرعی تھا لیکن وقت کے ساتھ تاجر‘ صنعت کار ‘ جاگیر داراور ساہو کار‘ انتخابی مقابلہ آرائی میں شریک ہونے لگے تو انتخابی کلچر بھی بدلتا گیا۔معاشرے کے انداز‘ تیز رفتاری سے بدلے۔دیہی حلقوں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں‘زرعی شعبے سے بتدریج‘ صنعتی اور تجارتی اجارہ داروں کی طرف منتقل ہوتی گئیں۔میں نے سیاست کو‘سرمایہ دار طبقوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتے دیکھا ہے۔ موجودہ پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ‘ زرعی شعبے سے‘ صنعت کاروں کی طرف منتقل ہوتا گیا۔سرمایہ داری کی طاقت‘ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوںمیں مرتکز ہوتی چلی گئی۔زرعی شعبے سے وابستہ بڑے بڑے لوگ ‘بتدریج صنعت و تجارت کی طرف متوجہ ہوتے رہے۔
ایوب خان کے دورمیں عالمی منڈیوں کے اثرات‘ جدید صنعت و تجارت کے شعبوں پر پڑنے لگے۔ ابتدا میںہماری مصنوعات ‘زرعی پیداوار کی شکل میں برآمد ہوا کرتیں جیسے مشرقی اور مغربی پاکستان سے پٹ سن برآمد کی جاتی۔ مغربی پاکستان سے کاٹن‘چاول اور گھریلو صنعتوں میں تیار کردہ مال‘ ہمارے لئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بن گیا۔ لیکن ہم صنعت کاری کے شعبے میں قابل ذکر ترقی نہیں کر پائے۔ہم اپنے خام مال سے ابتدائی نوعیت کی‘ جو اشیاء تیار کرتے‘ وہ عالمی مارکیٹ میں خاص جگہ حاصل نہ کر سکیں۔جو سرمایہ کار عالمی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کے لئے جگہ حاصل کر پائے ‘انہیں دوسروں کی نسبت زیادہ نفع ہونے لگا لیکن جو مقامی مارکیٹ تک محدود رہے‘ وہ سرمائے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ۔دنیا نئی ٹیکنالوجی میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔مہارتوں اور ٹیکنالوجی میں‘ زرعی اور معدنی اشیا سے نئی نئی مصنوعات بنا کر روزمرہ زندگی میں‘ آسانیاں پیدا ہوئیں جس سے صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اور ہوتا جا رہا ہے۔عالمی صنعت کار‘ نئی نئی مصنوعات تیار کر کے‘ اپنی منڈیوں میں اضافہ کرتے گئے‘ جیسے ملائشیا‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور‘ چین اور جاپان ۔دست کاری اور اشیائے صرف سے مذکورہ پسماندہ ممالک دیکھتے ہی دیکھتے پرآسائش زندگی اختیار کرنے لگے۔ آج ٹیکنالوجی اور ایجادات سے یہ ممالک عالمی منڈیوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد ‘جاپان نے اپنی مصنوعات کو ازسر نو بنانا شروع کیا۔ چھوٹی چھوٹی اشیا کی برآمدات سے زرمبادلہ کما کر‘ اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں‘ حیرت انگیز رفتار سے‘ ترقی یافتہ دنیا سے عالمی منڈیوں میں اپنی معیاری مصنوعات کی الگ پہچان کروا ئی۔ جاپانیوں کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے تخلیقی استعداد اور ایجادات میں‘ اتنی حیرت انگیز رفتار سے اضافہ کیا ۔آج ترقی یافتہ دنیا بھی‘ جاپان کی صنعتی پیداوار سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے۔امریکہ اور یورپ کے باورچی خانوں میں‘جاپان کی بنی ہوئی اشیاء کثرت سے دکھائی دینے لگی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب بجلی کا سارا گھریلو سامان‘ جاپانیوں کا مرہون منت ہو گا۔
چین خانہ جنگی اور بیرونی جارحیتوں کی وجہ سے‘ پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھنس گیا تھا۔ جاپان اور مغرب کے صنعت کار‘ غریب چینیوں کو اپنا غیر معیاری اورسستا مال‘ مہنگے داموں بیچ کر سرمایہ دار بلاک کی طاقت میں اضافہ کرتے رہے۔ لیکن آزادی کے بعد‘ چینیوں نے جاپانیوں سے بھی زیادہ ‘تیز رفتاری کے ساتھ جدید دور کی ترقی سے استفادہ کرنا شروع کیا اور اتنی برق رفتار ی سے آگے بڑھے کہ آج وہ دنیا بھر کی منڈیوں کی ضروریات پوری کرتا ہوا‘ ترقی یافتہ ملکوں کے کندھے سے کندھا ملا کر‘ آگے بڑھ رہا ہے۔ مرحوم الطاف گوہر گفتگو کے دوران‘ مجھے بتایا کرتے تھے کہ انقلاب چین سے پہلے‘ شنگھائی کے بازاروں میں‘ انسانی گوشت فروخت ہوا کرتا تھا۔ جس کا مشاہدہ انہوں نے خود کر رکھا تھا۔مفلسی اور بے چارگی کا یہ عالم ‘دنیا میں شاید ہی کسی قوم نے دیکھا ہو۔آج وہی چین اور وہی جاپان‘ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر‘عالمی منڈیوں کے ساتھ‘ مقابلہ کرتے نظر آرہے ہیں اور بعض معاملات میں تو صنعتی ترقی میں آگے نکل جانے والے ملک بھی‘ چین کی صنعت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہیں۔وہ خلائوں میں سیارے چھوڑتے ہیں۔موسموں کو بدلنے کے تجربات کر تے ہیں۔ چینی‘ خدا کی تخلیق کردہ دنیا میں‘ ترقی و ایجادات سے فوائد حاصل کرنے کی دوڑ میں‘ اپنا ایک خاص مقام بنا رہے ہیں۔آج حالت یہ ہے کہ امریکہ میں عام ضرورت کی اشیا ‘بنانے والی کمپنیاں‘ اب چین سے استفادہ کر رہی ہیں۔امریکہ کمپیوٹر سے عالمی مواصلات میں مقابلے کے نئے نئے ذرائع تلاش کررہا ہے۔عام ضروریات زندگی کا سامان امریکہ‘ چین کی فیکٹریوں سے بنوارہا ہے۔ موبائل فون جو دنیا بھر میںامریکی کمپنیوں کے برانڈ سے فروخت ہوتے ہیں وہ دراصل ‘ چین میں تیار ہوتے ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved