پل پل صورتِ حال بدل رہی ہے۔ مستقبل سبھی کا معلق ہے۔ تاریخی قوتیں بے لگام ہو جائیں تو فیصلہ افراد نہیں‘ حالات کیا کرتے ہیں۔کسی بھی ہوش مند کو پیش گوئی سے گریز کرنا چاہیے۔
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟
جیتنے کو حکمران پارٹی جیت گئی۔ وہ مگر سیلِ رہِ گزرِ بے پناہ میں ہے۔اپنا محاسبہ تحریک انصاف کو بھی کرنا چاہیے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ الیکشن کی مہم تاخیر سے شروع کرنے پہ خرابی پیدا ہوئی۔ کیوں تاخیر سے شروع کی؟۔
دونوں بڑی پارٹیاں کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ میاں محمد شہبازشریف نے مبارک باد کا جو پیغام دیا‘ بڑے بھائی کا مگر نام لیا اور نہ بھتیجی کا۔ لندن چلے گئے اوروہاں سے پھر ترکی۔ الیکشن میں وہ شریک نہ ہو سکتے تھے۔ بجا ارشاد مگر قاعدے قانون کے ایسے تقویٰ شعار پاسدار وہ کب سے ہوگئے۔ لاہور کارپوریشن‘ ایل ڈی اے اور دوسرے سرکاری اداروں کے ملازم بروئے کار رہے۔ لاہور میں موجود ہوتے تو نسخے بتاتے‘ گر سکھاتے ۔ بھتیجی کو مگر گوارا نہ تھے ۔
ہمیشہ سے باہم وہ انحصار کرتے آئے ہیں۔ یہ مگر آشکار ہے کہ اب بڑے بھائی کی راہ چلنے پر وہ آمادہ ہیں۔ عدلیہ اور افواج سے تصادم کے حق میں نہیں۔ پاناما کیس سامنے آیا تو تین دن تک وہ خاموش رہے تھے۔ صاحبزادے سلیمان شہباز نے بعض اخبار نویسوں سے کہا کہ ان کے گھرانے کا کوئی فرد ملوث نہیں۔
محترمہ مریم نواز نے‘ حمزہ شہباز کو چلتا کیا۔ بعدازاں محترمہ نے یہ کہا کہ اپنے سگے بھائیوں حسن اور حسین سے بڑھ کر وہ ان کا لحاظ کرتی ہیں۔ ان کے بقول شاید کسی ذاتی کام سے لندن میں وہ مصروف رہے۔ ایسا کون سا ذاتی کام آن پڑا تھا؟۔ وضاحت کی ہوتی۔ کم از کم اشارہ ہی کیا جاتا۔
نون لیگ سے ہمدردی رکھنے والے ایک اخبار نویس نے لکھا ہے کہ پارٹی کے شریف النفس چیف وہپ ارکان اسمبلی کی منت سماجت کرتے نڈھال ہوگئے۔ کورم پورا نہ ہو سکا۔ نازک اور فیصلہ کن مراحل میں لیڈروں کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے‘ کم نہیں ہوتی۔ کیا وہ منتظر ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
چوہدری نثار علی خان اور وزراء کرام کی محاذ آرائی الگ ہے۔ اس بیان پر کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کیجئے‘خواجہ آصف کو انہوں نے لتاڑا ‘یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ان کی موجودگی میں دشمن کی ضرورت نہیں۔ پھر ان کی تائید کرنے پر احسن اقبال کو۔ دور کی کوڑی لانے میں جو اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جن کا ارشاد یہ ہے کہ وزیراعظم کو نااہل کرنے سے چودہ بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ آئندہ ‘ ہر عدالت کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کسی مجرم کو سزا دینے کے معاشی اثرات کیا ہوں گے۔ بجلی چوری کرنے والا صنعت کار پکڑا جائے تو کنکشن کاٹنے کا حکم صادر کرنے سے پہلے دیکھا جائے کہ کتنے چولہے بجھ جائیں گے۔ایسا فلسفہ آنجناب نے پیش کیا ہے کہ دستور اور قوانین کے ماہرین کو ‘ وکلاء کو ملک گیر کانفرنسیں منعقد کرنی چاہئیں۔ ممکن ہو تو دنیا بھر سے ماہرین کو مدعو کرنا چاہیے۔
احسن اقبال بے پر کی اڑاتے ہیں مگر چوہدری نثار تو سنجیدہ آدمی ہیں۔ جس طرح تن کر وہ کھڑے ہیں‘ جس طرح عدلیہ اور فوج کو پامال کرنے کی آرزومند محترمہ مریم نواز سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ بار بار دہرایا کہ قومی اداروں سے تصادم کا نتیجہ خطرناک ہو گا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟۔ نون لیگ کے اخبار نویس اور لیڈر کچھ ہی کہیں‘واضح یہ ہے کہ شریف خاندان اگراعتدال اختیار نہیں کرتا‘ تو چوہدری اپنا راستہ الگ کر لے گا۔ شاید کچھ اور بھی‘ خواہ ان کی قیادت میں ہوں یا اپنے طور پر۔
اور ہاں! اپنے زاہد و متقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار صاحب۔ اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی۔ کچھ فائلیں وہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دفتر لے کر گئے کہ سابق وزیراعظم نے توثیق ان کی فرما دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انکار کردیا۔ کہا کہ اپنے اختیار سے فیصلہ کیجئے۔ میری مہر درکار ہے تو دستاویزات دیکھ کر رائے دوں گا۔ حالت جناب ڈار کی خراب ہے‘ چہرہ اترا ہوا‘ تیور بدلتے ہوئے۔ چمک دمک جاتی رہی‘ جیسے کلف لگا ملبوس‘ کلف کے بغیر۔ کہاں وہ شورا شوری اور کہاں یہ بے نمکی۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ان کے مشہور عالم اعترافی بیان کو سپریم کورٹ اگر موثر قرار دیتی ہے تو شریف خاندان کا کیا ہوگا؟۔ پولیس نہیں یہ بیان مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا۔ سرکاری دبائو کا دعویٰ ہے۔ اس کے مندرجات کی لیکن کبھی تردید نہ کی۔ قاضی خاندان اور دوسروں کے نام سے بینکوں کے جعلی کھاتے اور رقوم کی منتقلی۔ اس آدمی کا کیا ہوگا جو کبھی برق کی طرح چمکتا تھا اور اب راکھ کی طرح بجھ گیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کا طرزِ عمل اور بھی دلچسپ ہے۔ عدلیہ اور افواجِ پاکستان کو شدومد سے مطعون کرتے رہے۔ اب مگر پہلو بدل کے بات کرتے ہیں۔ کہا کہ جنرل باجوہ بھلے آدمی ہیں‘ ممکن ہے کہ کچھ دوسرے لوگوں نے شرارت کی ہو۔ ساتھ ہی مریم نواز کو نصیحت کی کہ لہجہ دھیما رکھیں۔ چوہدری نثار پر تنقید سے گریز کیا۔ چند برس میں ارب پتی ہو جانے والا سیاستدان‘ کیا کسی درمیانی راہ کی تلاش میں ہے؟۔ ایک فوجی افسر سے ذکر کیا تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر‘ اس نے کہا: خواجہ صاحب کیا یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اپنے سربراہ کو نظرانداز کرکے‘فوجی افسر من مانی کے مرتکب ہیں؟۔
وزیراعظم عباسی کو کیا سوجھی کہ گھر ٹھیک کرنے کی بحث میں خواجہ آصف کی تائید کردی۔ بولے: تنے ہوئے رسے پر وہ چل رہے ہیں۔ اپنے وزرا اور سابق وزیراعظم کی انہیں دلجوئی کرنا پڑتی ہے۔ سرکاری افسروں سے سلیقہ مندی کے ساتھ وہ کام لے رہے ہیں۔ ہمہ وقت جو ان سے مل سکتے ہیں۔ اپنی افادیت اور اہلیت وزیراعظم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور وزرا بھی۔ اس بیان کو ایک وسیع تناظر اور اس شریف آدمی کی مجبوریوں کے پس منظر میں دیکھئے۔ کچھ فیصلے انہوں نے بالکل آزادانہ طور پر کئے ہیں۔ مثلاً چیئرمین کی عدم موجودگی میں نیب کے ڈپٹی چیئرمین کو مکمل اختیارات سونپنے کا حکم۔ نوازشریف اس پہ ناخوش ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ محترمہ کلثوم نواز کو وزیراعظم نہیں بنایا جا رہا۔ زیادہ اہم وہی بات‘ حکمران پارٹی میں ایک نہیں‘ طاقت کے کئی مرکز ابھر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں‘ جن کے اندر ہم آہنگی کا امکان زیادہ نہیں۔
پل پل صورتِ حال بدل رہی ہے۔ مستقبل سبھی کا معلق ہے۔ تاریخی قوتیں بے لگام ہو جائیں تو فیصلہ افراد نہیں‘ حالات کیا کرتے ہیں۔کسی بھی ہوش مند کو پیش گوئی سے گریز کرنا چاہیے۔
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟
پس تحریر:انتہاپسند مذہبی گروہوں کو جن لوگوں نے مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا‘ ان کی ناعاقبت اندیشی کو داد دینی چاہیے۔ (2) نون لیگ کا واویلا یہ ہے کہ ان کے کارکن اغوا کر لیے گئے۔ وہ ان لوگوں کا نام کیوں نہیں لیتے‘ مقدمات کیوں درج نہیں کراتے؟۔ عجیب لوگ ہیں‘ پیشہ ور رونے پیٹنے والے۔ اتنا مجبور تو بھکاری بھی نہیں ہوتا۔