شریف فیملی کی آج احتساب عدالت میں پیشی تھی جہاں سینیٹر آصف کرمانی نے حاضر ہو کر بتایا کہ سب لوگ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں ہیں اس لیے پیش نہیں ہو سکے۔ حتیٰ کہ مریم نواز بھی جنہیں پیشی کا علم تھا‘ اپنے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ لندن جا چکی ہیں حالانکہ وہ طلبی کے سمن وصول کر چکی تھیں۔ کرمانی صاحب نے عدالت کو بتایا کہ جملہ مسئو علیہان کو آئندہ پیشی کے لیے مطلع کر دیا جائے گا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ پیش ہوں گے یا نہیں۔ ادھر اطلاعات ہیں کہ بیگم کلثوم نواز کے ابھی اور بھی آپریشن ہوں گے اور میاں نوازشریف بھی ابھی لندن ہی میں قیام کریں گے۔ ہماری چشم تصور دیکھ رہی ہے کہ یہ جملہ معززین ازخود کبھی پیش نہیں ہوں گے اور ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ان کی ملکی و بیرون ملکی جملہ جائیدادیں اور اثاثے بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں گے اور انہیں ریڈ وارنٹس ہی کے ذریعے واپس لایا جائے گا ۔ جبکہ اس دوران میاں نوازشریف کے خلاف ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست بھی سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے اور مسئول علیہ کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں خود بیگم کلثوم نواز بھی ایک بیرون ملک کمپنی کی ڈائریکٹر نکل آئی ہیں اور اس خاندان کی بادشاہت اور سیاست کا خاتمہ ہونے کے قریب ہے جبکہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کے کھلنے سے میاں شہبازشریف اور حمزہ شریف بھی اسی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اسحاق ڈار کے معاملات بھی کافی سنگین ہیں اور راوی کسی طرح سے بھی چین نہیں لکھتا۔
سرور سکھیرا کی آمد
اگلے روز مشہور زمانہ ''دھنک‘‘ کے ایڈیٹر اورکالم نگار سرور سکھیرا تشریف لائے بتا رہے تھے کہ ''دھنک‘‘ کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے‘ غالباً دھنک رنگ کے نام سے۔ ہم نے اس کے تمام قلمکاروں کی یادوں کو تازہ کیا جن میں حسن نثار سمیت کئی حضرات حیات ہیں۔ زیادہ تر ہماری اجتماعی قومی اخلاقی گراوٹ ہی موضوع سخن رہی۔ اُسی دن نذیر قیصر کی بھی آمد ہوئی‘ بیگم کے ہمراہ اُن کا خیال تھا کہ ہمارے اکثر شعراء کرام بلال گنج سے پرانے پرزے خرید کر اپنی شاعری کی گاڑی کو جُوں تُوں کر کے چلا رہے ہیں۔ آفتاب احمد شاہ نے آج سالگرہ پر نیٹ کے ذریعے وِش کیا۔تاہم میری تاریخ پیدائش 27ستمبر ہے 19 نہیں۔
انجمن تحسین باہمی وغیرہ
اقتدار جاوید میری غزل کی تعریف کر دیتے ہیں اور میں ان کی نظم اپنے کالم میں چھاپ دیتا ہوں۔ تعریف تو ہر ایک کو پسند ہوتی ہے۔ میں اس لیے ذرا مختلف ہوں کہ میں تعریف کے علاوہ تنقید و تنقیص دونوں خوشی سے سنتا اور برداشت کرتا ہوں۔ اسی حوالے سے ایک شعر بھی ہے ؎
ہوں اُس کا سب سے زیادہ نیاز مند ظفرؔ
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے
کرامت بخاری صاحب کا فون آیا تھا کہ شہر میں ان کے ساتھ ایک شام منانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ اگر آپ اس میں شرکت فرما سکیں...لیکن میں نے معذرت کر دی کیونکہ اس روز ہمارا ایک فیملی فنکشن تھا اور سارا خاندان اس میں شریک تھا۔
اِردگرد کی صورتِ حال
سِٹرس کے پھل اپنا اپنا سائز تقریباً پورا کر چکے ہیں۔ جلد ہی ان کی رنگت بھی زردی مائل ہونا شروع ہو جائے گی‘ چاروں مور قضائے الٰہی سے وفات پا چکے ہیں۔ ڈفی کے بارے میں بھی شاید بتا چکا ہوں کہ بیچارہ بالآخر کُتے کی موت مر گیا۔ چاردیواری سے بانسوں کی باڑ کٹوا دی ہے کہ ان میں کئی سانپوں نے رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ چیف ڈرائیور اعلیٰ حضرت جناب محمد قاسم عرف لڈو نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں باقاعدہ ملازمت اختیار کر لی ہے‘ بطور پروفیسر نہیں بلکہ بطور ڈرائیور فارغ وقت میں اپنی صحبت سے ہمیں فیضاب فرمائیں گے۔
''لوح‘‘ ''تسطیر‘‘ اور انور شعور
''تسطیر‘‘ کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ''لوح‘‘ کا ایک گرانڈیل افسانہ نمبر اور انور شعور کا تازہ مجموعہ کلام موصول ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں بہت جلد آپ کو مطلع کروں گا۔ ان کے علاوہ بھی کتابیں اور رسالے پہنچ چکے ہیں‘ ان کی باری بھی انشاء اللہ جلد ہی آئے گی۔
اور‘ اب امجد بابر کی یہ نظم بعنوان ''میں نے نظم تخلیق کی‘‘
بانو قدسیہ نے راجہ گدھ لکھا
منٹو نے افسانے
میں نے نظم تخلیق کی
جاوید چوہدری نے کالم تحریر کیے
مستنصر نے سفرنامے
میں نے نظم تخلیق کی
ظفر اقبال تک آتے آتے
غزل کو پر لگ گئے
اور وہ ہوا میں اُڑنے لگی
میں نے نظم تخلیق کی
وزیر آغا نے
اُردو تنقید کو نیا باب دیا
جیسے پطرس بخاری نے
طنزومزاح کی تاریخ کو
امجد اسلام امجد ڈرامے لکھتے رہے
میں نے نظم تخلیق کی
آج کا مطلع
نئی سحر ہے‘ سفینے خطر سے نکلے ہیں
ہزار خوابِ سفر بام و در سے نکلے ہیں