تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-09-2017

عوامی عدالت کے فیصلے

جس طرح سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ سے نا اہل کئے گئے ہیں اسی طرح پی پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ سے نا اہل کیا گیا تھا اور جس طرح کل میاں نواز شریف کے نا اہل ہونے پر بیگم کلثوم نواز ان کی خالی ہونے والی نشست سے کامیاب ہوئی ہیں اسی طرح یوسف رضا گیلانی کے نا اہل ہونے سے ان کی خالی نشست سے ان کا بیٹا بھی قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔2008 کے عام انتخابات میں یوسف رضا گیلانیNA-151 ملتان سے77 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے لیکن ان کا بیٹا ان کی خالی ہونے والی نشست کے ضمنی الیکشن میں تمام حکومتی وسائل رکھنے کے با وجود64 ہزار ووٹوں سے منتخب ہوا۔۔ ۔۔اس وقت کہا گیا کہ یہ ہے عوامی فیصلہ یہ ہے وہ عوامی عدالت جس نے فیصلہ دے کر بتا دیا ہے کہ یوسف رضاگیلانی نا اہل نہیں ہوا بلکہ آج بھی وہ ان کے وزیر اعظم ہیں بے شک انہیں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا ہے لیکن ملتان میں لگی عوامی عدالت نے ان کو ہر طرح کے الزامات سے مکمل طور پر بری کر دیا ہے۔۔۔۔ ۔اور پھر سب نے دیکھا کہ چند ماہ بعد جب ملک بھر میں 2013 کے عام انتخابات ہو ئے تو یوسف رضا گیلانی کے یہی فرزند اسی نشست سے بری طرح شکست کھا گئے۔۔۔۔پھر بتائیں کہ عوامی فیصلہ کون سا ہوا؟۔ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں قومی خزانے کی بوریاں تھام کر عدالت لگانے کا یا قانون کا؟۔ 
مسلم لیگ نواز کی جانب سے سترہ ستمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کے کامیاب ہونے پر کہا جا رہا ہے کہ یہ ہے عوامی عدالت کا فیصلہ جس نے کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف آج بھی ان کے وزیر اعظم ہیںذرا تھوڑا سا پیچھے کی جانب مڑ دیکھتے ہوئے یہ الفاظ کہنے والے ذرا اپنے بیانات دیکھیں جو چھ بجے کے بعد اس ضمنی الیکشن کے سامنے آنے والے نتائج سننے کے بعد گلے پھاڑ پھاڑ کر دیئے جا رہے تھے۔ ایک جانب پنجاب کا وزیر صحت کہہ رہا تھا ہمارے ساتھ زیا دتی ہو رہی ہے تو دوسری طرف وزیر ریلوے کہہ رہا تھا کہ ہمارے ووٹر تو اب آرہے ہیں پولنگ کا وقت بڑھایا جائے کیونکہ ہمارے ساتھ دھاندلی کی جا ہی ہے۔۔۔جناب والا آپ نے چن چن کر اچھی طرح سکریننگ کرنے کے بعد اپنے خاص لوگ پریزائڈنگ افسر مقرر کرائے تھے ریٹرننگ افسر آپ کا تھا پھر آپ سے دھاندلی کس نے کی؟۔ اور تو اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ابتدائی نتائج دیکھنے کے بعد لندن سے بول اٹھے کہ این اے 120 سے ہمارے لوگ غائب کر دیئے گئے ہیں اور ہمارے ووٹروں کو اٹھا اٹھا کر لے جا رہے ہیں ہمارے ساتھ دھاندلی ہو رہی ہے ۔
جناب والامرکز اور پنجاب کا وزیر داخلہ آپ کا، چیف سیکرٹری سے اسسٹنٹ کمشنر تک سب آپ کے، لاہور کا سی سی پی او آپ کا ایک ادنیٰ سا ورکر، لیسکو کے تمام لوگ چوبیس گھنٹے آپ کے احکامات پر عمل کرنے کیلئے صبح سے رات گئے تھے آپ کے غلام بنے رہے، سوئی ناردرن گیس آپ کے احکامات کی تعمیل کیلئے سر نگوں رہی، کسٹم آپ کی، مخالفین کو انکم ٹیکس کے نوٹس بھجوانے والے آپ کے لوگ غرض اٹک سے رحیم یار خان تک آپ کی پنجاب حکومت اور ایف آئی اے سمیت مرکز کے تمام ادارے آپ کے تابع فرمان جنہوں نے دن رات اس طرح کام کیا جیسے وہ آپ کے رائے ونڈ فارم کے ملازم ہوں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر الیکشن کمیشن آپ کے گھر کا۔۔۔۔۔ مولانا فضل الرحمان آپ کے ساتھ، ملک کی تمام مذہبی جماعتیں اور گروپ آپ کی حمایت پر کمر بستہ رہیں۔۔۔۔آپ کی چالاکی اور ملی بھگت سے ایم کیو ایم کے انار کلی اور پرانی انارکلی سمیت لیک روڈ سمیت گوالمنڈی کے ووٹ خصوصی ہدایت پر آپ کے حق میں کاسٹ کرائے گئے، اب اگر ا س کے با وجود آپ کو جان کے لالے پڑ رہے تھے تواس پر یہی کہا جا سکتا کہ۔۔۔۔ ڈرو اس وقت سے جب نادرا تمہارے ماتحت نہیں ہو گا جب نادرا میں آپ کے بٹھائے گئے وہ پچاس سے زائد افسران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے جو ہر ضمنی الیکشن میں آپ کے '' گردشی ووٹ‘‘ الیکشن والے حلقوں میں منتقل کراتے رہے ہیں اور آپ کے مخالفین کے وہ ووٹ جن کے بارے میں پنجاب کی سپیشل برانچ رپورٹ دیتی تھی انہیں الیکشن فہرست سے نکال کر دوسرے حلقوں میں در بدر کرتے رہے اور جس کے منا ظر ٹی وی سکرینوں پر الیکشن ڈے کو سب کو نظر آتے رہے تو حضور ذرا سوچئے کہ جب ۔۔۔۔نہ تو نگران وزیر اعظم آپ کی ہاتھ کی چھڑی ہو گا۔۔۔ نہ ہی پنجاب کا وزیر اعلیٰ آپ کی جیب کی گھڑی ہو گا۔۔۔چیف سیکرٹری کوئی انسان ہو گا، ملک بھر کے پولیس افسران آج کی طرح آپ کے غلام نہیں ہوں گے بلکہ ایمان کی طاقت سے لبریز اور غیر جانبدار ہوں گے۔۔ بے درد ی سے ووٹر گھرانوں کوبانٹنے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کا120 ارب روپیہ آپ کی جیب میں نہیں ہو گا۔۔۔ایل ڈی اے اور واسا والے آپ کی مرضی سے نہیں چلیں گے نہ کسی کو دکان اور گھر گرانے کی دھمکی دیں گے اور نہ ہی کسی کے پانی کے کنکشن ناجائز کاٹے جائیں گے، اور نہ ہی دھڑا دھڑ گیس اور پانی کے کنکشن لگائے جائیں گے اور نہ ہی مرکز اور پنجاب کی حکومتوں میں اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں کے تقرر نامے بانٹے جا سکیں گے؟۔اور نہ ہی پاکستان کا سرکاری ٹی وی آپ کی ملکیت ہو گا اور نہ ہی اس پر ہر ماہ اپنے من پسند لوگوں کو سرکاری سکرپٹ بولنے پر معاوضے کے طور پر ان کے گھروں میں ایک سے دو لاکھ روپے کے چیک بھیجے جا سکیں گے، حضور والا ۔۔۔۔عوامی عدالت کا اصل فیصلہ وہ ہو گا یہ نہیں جو آج رنجیت سنگھ سٹائل حکومت کی نگرانی میں ہوا ہے۔
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جیسے ہی ٹی وی چینلز پر این اے120 کے ضمنی الیکشن کے نتائج سنائے جانے لگے تو چاروں طرف ایک بھونچال سا آ گیا مسلم لیگ نواز کے چھوٹے بڑے سب چیخ اٹھے کہ دھاندلی ہو گئی ہے ہمارے ساتھ نظر نہ آنے والوں نے ہاتھ کر دیا ہے۔۔۔اور یہ نتائج ان 34 پولنگ اسٹیشنز کے تھے جہاں '' بائیو میٹرک سسٹم‘‘ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کئے گئے تھے۔۔آج پی ٹی آئی کے لوگ جن29 ہزار ووٹوں کا رونا رو رہے ہیں ان کی سب سے پہلے میں نے نشاندہی کرتے ہوئے اپنے مضمون میں کہا تھا کہ ایک جانب یہ29 ہزار ووٹ ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے وہ ووٹ جن کے بارے میں سپیشل برانچ پنجاب اور اس حلقے کی یونین کونسل سے منتخب نواز لیگ کے کونسلر نشاندہی کرتے تھے، اس گھرانے کے تمام ووٹ لاہور کے دوسرے مختلف حلقوں میں منتقل کر دیئے گئے ہیں جیسا کہ ایاز صادق کو ضمنی الیکشن میں علیم خان کے مقابلے میں جتوانے کیلئے نادرا سے کامیاب کرایا گیا تھا۔۔۔ذرا سوچئے وہ عوامی عدالت کسی ہو گی جب آپ ایک عام سیاسی جماعت کی طرح اور بغیر حکومتی مشینری کے انتخابات لڑیں گے؟!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved