اے این پی اور جے یو آئی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنسوں میں صرف ایک فرق تھا ۔ وہ ہے مولانا فضل الرحمن۔وہ سیاسی قدوقامت میں ہی نمایاں نہیں‘ دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلقات برقرار رکھنے میں بھی خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ نوازشریف کو اس کانفرنس میں شریک کر لینا بہت بڑی بات تھی۔ ہرچند طالبان نے جن تین پاکستانی سیاستدانوں کو ضامن بنانے کی تجویز دی ہے‘ ان میں نوازشریف بھی شامل ہیں اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کی موجودگی خاص معنی رکھتی ہے۔ اب دائیں اور بائیں کا فرق محض ایک رسم رہ گیا ہے۔ حقیقت میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ہم کسی کو بھی دایاں یا بایاں بازو قرار نہیں دے سکتے۔ ماضی کی وہ نظریاتی تقسیم ختم ہو گئی۔ اس کی جگہ فرقہ ورانہ تقسیم لیتی جا رہی ہے اور یہ عمل تب تک جاری رہے گا‘ جب تک فرقہ پرستی کا عفریت خون کا خراج لے کر اپنی پیاس نہیں مٹا لیتا۔ اے پی سی کا اعلامیہ قابل غور ہے کیونکہ جو پانچ نکات پیش کئے گئے‘ ان میں ساری ذمہ داریاں پاکستان کو دی گئی ہیں۔ میں طویل حوالے بہت کم دیا کرتا ہوں۔ پانچ نکات اتنے مختصر ہیں کہ ان کامطالعہ قارئین کا زیادہ وقت نہیں لے گا۔ نکات ملاحظہ فرمایئے۔ -1 پہلے سے تشکیل شدہ گرینڈ جرگہ کو مزید وسعت دی جائے اور تمام مکاتب فکر کی جماعتوں کو اس میں نمائندگی دی جائے۔(یہ مطالبہ کس سے ہے؟) -2 شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کی فلاح و بہبود کے لئے ٹرسٹ قائم کیا جائے۔ -3 اے پی سی میں شامل تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی رہنمائی میں گرینڈ جرگہ فریقین سے مذاکرات شروع کرے۔ -4 پاکستان کے اندر بدامنی کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کیے جائیں‘ اے پی سی میں شامل جماعتیں مذاکرات کے ہر اس عمل کی حمایت کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں آئین اور قانون کی عملداری مستحکم ہو۔ -5 اے پی سی میں موجود تمام سیاسی و دینی جماعتیں اور عمائدین فاٹا یہ اعلان کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت‘ عبوری یا نگران حکومت اور انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت اور اپوزیشن طے شدہ تجاویز پر عمل کرنے کی پابند ہوں گی۔ پہلے تین نکات میں صرف یہ حصہ قابلِ توجہ ہے کہ اے پی سی میں شامل تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی رہنمائی میں گرینڈ جرگہ فریقین سے مذاکرات شروع کرے۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گرینڈ جرگہ طالبان کے ساتھ کس حیثیت میں بات کرے گا؟اگر اس کا کردار ثالثی ہو گا‘ توجنگ لڑنے والے فریقین کا اس پر نہ صرف اعتماد ہونا ضروری ہے بلکہ دونوں فریقوں نے اسے اپنی طرف سے کوئی اتھارٹی بھی دی ہو۔اس مفروضہ جرگے کو نہ طالبان نے کوئی اختیار دیا ہے اور نہ ہی پاک فوج نے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چند روز پہلے مولانا فضل الرحمن قطر گئے‘ تو ان کی جماعت کے لوگوں نے خبر پھیلا دی کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے گئے ہیں۔ جس پر طالبان کی طرف سے واضح تردید آ گئی کہ نہ تو مولانا کو طالبان کے کسی نمائندے نے دعوت دے کر بلایا تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات ہوئے۔ اس پس منظر میں یہ کانفرنس خفّت دور کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ چلو مٹی پائو۔ اس حوالے سے تو کانفرنس بہرحال کامیاب رہی۔ لیکن دہشت گردی اور جارحیت‘ جس کا نشانہ پاکستان کی فوج اور عوام ہیں‘ انہیں بطور فریق کسی مرحلے پر بھی شامل نہیں کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ جرگہ پاکستانی عوام اور فوج کی طرف سے مذاکرات کرے گا۔ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے ‘ جرگے کو کسی کی طرف سے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ پاکستانی عوام اور فوج کی طرف سے مذاکرات کرے۔ کیا طالبان کو معلوم نہیں کہ جو جرگہ ان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کر رہا ہے‘ وہ کسی سے بھی اختیار لے کر نہیں جائے گا؟ وہ ایسے جرگے سے مذاکرات کیوں کریں گے؟ اے پی سی میں قبائلی نمائندوں کی شرکت بہرحال اچھی بات ہے۔ لیکن قبائلی نمائندوں نے اب تک جتنی مرتبہ بھی مذاکرات کیے ہیں‘ ان میں ہونے والے معاہدوں کا نتیجہ صرف نکلا ہے۔ ایک عرصہ ہوا طالبان کے سامنے جرگوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی اور نہ ہی قبائل ان کے لیے کوئی مسئلہ ہیں۔دونوں کے درمیان غیرتحریر شدہ رسمی انتظام ہو چکا ہے۔ طالبان انہیں کچھ نہیں کہہ رہے اور وہ طالبان کو۔ عملاً طالبان جن علاقوں پر قابض ہیں‘ انہیں وہاں پر جو کچھ چاہیے‘ وہ لے چکے ہیں۔ اے پی سی نے جو کام گرینڈ جرگے کے سپرد کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر بدامنی کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ اے پی سی میں شامل جماعتیں اس عمل کی حمایت کرتی ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک میں آئین اور قانون کی عملداری مستحکم ہو۔پتہ نہیں عملداری کو مستحکم کرنے کا فرض کون انجام دے گا؟ اگر یہ حکومت کا کام ہے‘ تو اسے پہلے سے یہ معلوم ہے کہ آئین اور قانون کی عملداری مستحکم کرنا‘ اس کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اسے کسی گرینڈ جرگے کی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ لیکن آخری نکتہ تو کمال کا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت ‘ عبوری یا نگران حکومت اور انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت اور اپوزیشن طے شدہ تجاویز پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہوں گی۔ مجھے تو پُورے اعلامیے میں کہیں یہ نظر نہیں آیا کہ اس سارے عمل میں موجودہ حکومت شامل ہو گی اور نہ ہی اس نے اے پی سی میں حصّہ لیا۔ صرف ایک وزیرمخدوم امین فہیم ضرور آئے تھے۔ مگر وہ پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرین کے صدر کی حیثیت میں تھے ‘ حکومت کی طرف سے نہیں۔ یہ تمام عمائدین ‘ پاکستانی لیڈرشپ میں بلندترین مقام رکھتے ہیں۔کیا وہ نہیں جانتے؟ کہ جس مذاکراتی ٹیم کے پاس کوئی اتھارٹی نہ ہو یا جسے حکومت نے مذاکرات کا اختیار نہ دیا ہو‘ وہ دوسرے فریق کو کسی بھی طرح کی رعایات دینا منظور کر لے‘ حکومت کے لئے اس کی کوئی وقعت نہیں ہو گی۔ اے پی سی نے مزید کمال یہ دکھایا ہے کہ اے پی سی کا گرینڈ جرگہ مذاکرات کے بعد جو تجاویز پیش کرے گا‘ اس پر عملدرآمد کی ذمہ دار ‘موجودہ حکومت‘ عبوری یا نگران حکومت اور انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت ہو گی۔ فرض کریںموجودہ حکومت ان تجاویز کو مان بھی لیتی ہے‘ جن کا ابھی تک کوئی وجود ہی نہیں ‘ تو عبوری‘ نگران حکومت‘ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی ضمانتیں کیسے دے سکتی ہے کہ وہ بھی طے شدہ تجاویز پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی؟ انتخابات کے بعد اگر عمران خان حکومت بنا لیتے ہیں‘ توانہیں کانفرنس کے فیصلوں کا پابند کیسے کیا جا سکے گا؟ وہ تو اے پی سی میں آئے ہی نہیں اور ان کی جماعت کی طرف سے اے پی سی کے مقاصد پر بھی تنقید کی جا چکی ہے۔ اے پی سی میں شریک ہونے والے قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کا مقابلہ ہماری فوج کر رہی ہے‘ جو اس وقت میدان جنگ میں ہے اور جس کے دفاتر‘ اسلحہ خانے اور فوجی تنصیبات‘ ہر وقت دہشت گردوں کی زد میں رہتے ہیں اور وہ متعدد مرتبہ ہمارے قیمتی اسلحہ کو تباہ بھی کر چکے ہیں ۔ طالبان نے ہمارے پانچ ہزار سے زیادہ فوجیوں کو زندگی سے محروم کیا ۔ ان کی انتہائی توہین ہی نہیں بلکہ ان کے بے جان جسموں کی بھی بے حرمتی کی جاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جن طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی گئی ہے‘ انہوں نے پاکستانی قوم کے جذبات کا ذرا بھی خیال نہیں کیا اور اگر میںیہی کچھ اے پی سی میں شامل ہونے والے رہنمائوں کے بارے میںکہوں تو شاید بے جا نہ ہو اور آخری بات یہ کہ مذاکرات کی تجویز دینے والے ہم سے کس حیثیت میں بات کریں گے؟ وہ ہمارے آئین کو نہیں مانتے‘ عدلیہ کو نہیں مانتے‘ ریاست کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے‘ ان کے ساتھ مذاکرات کس بات پر کیے جائیں؟ موجودہ حالات میں تو ان سے وہی سلوک کیاجا سکتا ہے‘ جو وہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ و ہ ہمارے عوام اور فوجیوں کو اپنے وطن میں امن سے نہیں رہنے دے رہے۔ وہ اپنے آپ پر پاکستانی شہری کی حیثیت میں کوئی ذمہ داری قبو ل نہیں کرتے۔ پھر وہ کون ہیں؟ ہماری مسلح افواج سے لڑنے والے باغی یا بیرونی حملہ آور؟ جنہوں نے ہم پر جنگ مسلّط کر رکھی ہے اور ہمیں کمزور کر کے ‘ ہم پر غلبہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔تو کیا ہم ان کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے سوال پر مذاکرات کریں؟ ان کے جنگلی قوانین جن کو وہ اسلامی کہتے ہیں‘ ان کے تحت زندگی گزارنا قبول کر لیں؟ پینتیس ہزار پاکستانیوں کی شہادتوں کو بھول جائیں؟ ان شہیدوں کے پسماندگان کیا اس طرح کے فیصلوں کو برداشت کر لیں گے؟ انتخابات نزدیک ہیں۔ اہلِ سیاست اپنی سیاست ضرور کریں مگر خدا کے لئے وطن کی آزادی و خودمختاری کو اپنی سیاست کا ایندھن نہ بنائیں۔ سیاستدانوںکی طرف سے اس طرح کے اعلامیے‘ دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں اور یقینا اے پی سی کے شرکا ایسا نہیں چاہتے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved