ہمارے چاروں طرف روٹین شاعری کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اچھے شعر کا کوئی جزیرہ نظر آ جائے تو حیرت بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔ اگرچہ اچھے شعر کے بارے میری رائے یہ ہے کہ اچھا شعر بُرا شعر ہوتا ہے اور اچھا شاعر ایک بُرا شاعر۔ کیونکہ شعر کو غیر معمولی اور زبردست ہونا چاہیے اور شاعر یگانہ ویکتا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ معمول کی شاعری کا سکہ بھی پورے زور و شور سے چل رہا ہے۔ ایک وجہ تو اس کی یہ ہے کہ اگر شاعری دستیاب ہی ایسی ہو رہی ہو تو قاری کیا کرے‘ اور دوسرے مجبوراً عادتاً اسی کو شاعری سمجھا جا رہا ہے۔ سو‘ میرے نزدیک شعر ہوتا ہی دو قسم کا ہے۔ عمدہ یا معمولی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عمدہ شعر کسی کا درد سر ہے ہی نہیں اور کیا شاعر کیا قاری ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں
اور‘ شاعری سے میری مراد‘ سردست غزل ہی ہے۔ اس کے خلاف تو بہت کچھ کہا اور سُنا جا رہا ہے جیسا کہ 60ء کی دہائی میں
اس کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی گئی اور نئی شاعری کا جھنڈا اٹھانے والوں نے غزل کو یکسر مسترد کر دیا۔ لیکن غزل کے حق میں شاید ہی کوئی تحریک چلائی گئی ہو‘ اور‘ اس کی شاید اسے ضرورت بھی کوئی خاص نہیں ہے‘ کیونکہ یہ اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور خاصی ڈھیٹ صنف سخن ہے‘ اور اس کی اپنی وجوہات بھی ہیں چنانچہ یہ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اپنے چولے بدلتی بھی رہتی ہے اور اس کو کبھی کوئی ایسا جینوئن شاعر میسر بھی آ جاتا ہے جو دوسروں کے لیے بھی ایک مثال اور ایک انسپریشن بنتا ہے‘ چنانچہ عمدہ شاعری کے یہ جزیرے بھی سمندر میں سے سر نکالنے لگتے ہیں‘ تاہم روٹین کی شاعری بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہے کیونکہ ہر طرح کی یعنی اچھی اور برُی شاعری کو اپنے جیسے قاری بھی دستیاب ہوتے رہتے ہیں‘ اور‘ دونوں کا کام چلتا رہتا ہے۔
اس وقت میرے سامنے سید اذلان شاہ کی چند غزلیں ہیں جو گوجرہ سے 'نزول‘ نامی ایک معیاری ادبی پرچہ نکالنے کے ساتھ ساتھ شعر بھی کہتے ہیں۔ اور یہ غزلیں کوئی خاص چونکا دینے والی نہیں ہیں لیکن یہ معمولی اور برائے نام شاعری کے چنگل سے نکلنے کی ایک کامیاب کوشش ضرور ہے جنہیں پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شاعر کے پلو میں جو کچھ بھی ہے‘ اس کا اپنا ہے جبکہ اس کا لہجہ ابھی تشکیل و تکمیل کے مرحلے میں ہے یعنی اس سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں آپ اس شاعری کے ساتھ چل سکتے ہیں کیونکہ یہ قاری کو قدم بہ قدم اپنے ساتھ چلانے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ اسے کلیشے کا شدید احساس ہے جس کی وجہ سے یہ شاعر ایک ایسے راستے پر چل نکلا ہے جو پامال راستوں سے ذرا ہٹ کر ہے اور لگے بندھے موضوعات اور لفظیات کی قید سے نکلنے کی صاف کوشش اس شاعری میں نظر آتی ہے اور کوئی عجب نہیں کہ وہ اپنا ایک راستہ بھی نکالنے میں کامیاب ہو جائے۔ چنانچہ جو کچھ میں نے اوپر عرض کیا ہے اس کے تناظر میں یہ اشعار دیکھیے جو آپ کو مایوس نہیں کریں گے بلکہ امکانات کی ایک دنیا بھی اپنے اندر رکھتے ہیں :
کچھ ایسے جھونکی گئی دُھول میری آنکھوں میں
کہ دن کو وقت مجھے رات کا دکھایا گیا
میں دوسروں کے لیے اپنے پائوں پڑتا رہا
مجھے ملی نہ محبت بھی میری مرضی کی
خُوشی منانے کہ افسوس کرنے آئے ہیں
کسی نے ہم سے نہیں پوچھا کیسے آئے ہیں
اپنے اپنے جو آئے تو کُھل کے روئیں گے
ابھی تو حوصلہ دینے پرائے آئے ہیں
بہار آئی تو کر لوں گا ہرا اِن کو دوبارہ
میں سارے خشک پتوں کو سنبھالے جا رہا ہوں
کوئی تو ڈھونڈے گا تعبیر اپنے حصے کی
ہم اپنا خواب سبھی کو بتانے والے ہیں
ہم ان کو لاتے نہیں تھے کسی بھی خاطر میں
یہ راستے تو بہت دُور جانے والے ہیں
پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا ہو گیا میں بھی
کسی نے مجھ کو بھی آواز دی تھی پیچھے سے
فرار کے تھے راستے کئی اس اندھے غار سے
جو میرے جیسے تھے سبھی اصول دیکھتے رہے
پہن کر پورے کپڑے بھی بدن ننگا ہے اِس کا
نئی دنیا ہمارے دیکھنے والی نہیں ہے
اور‘ لُطف کی بات یہ ہے کہ عشق و محبت جو کہ غزل کا اساسی موضوع ہے اور غزل گو بالعموم سہارا بھی اسی کا لیتے ہیں‘ عشقیہ اشعار اس شاعری میں شاذونادر ہی نظر آتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذلان شاہ کے ہاں موضوعات کی کمی نہیں ہے اور وہ اس روایتی سہارے کو کام میں لائے بغیر بھی شعر کہنے پر قادر ہے چنانچہ اس گھسے پٹے موضوع سے ہٹ کر چلنا بھی اس کی ایک انفرادیت ہے جو اچھی بھلی لگتی ہے اور شاعر کی خود اعتمادی کا اظہار بھی ہے۔ اس بناء پر اس سے مزید اور بہتر شاعری کی توقع کرنا ہرگز بیجا نہ ہو گا۔ اس کے مجموعہ غزل کی اشاعت کا ہمیں انتظار رہے گا !
آج کا مطلع
لفظ پتّوں کی طرح اُڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف