تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     02-03-2013

حقیقی ولن …امریکن نہیں اشرافیہ

فرمایا، ’’ہاتھ تین ہیں۔ اوّل اللہ کا ہاتھ جو سب سے بلند ہے، دوسرا دست دہندہ یعنی دینے والے کا ہاتھ، تیسرا دست گیرندہ یعنی لینے والے کا ہاتھ جو کہ پست ترین ہے‘‘۔ نیز فرمایا ’’سوال بدترین ذلت ہے خواہ باپ ہی سے کیوں نہ ہو‘‘ عائذبن عمر سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’اگر تم لوگ جانو کہ سوال کرنے کے کیا نتائج ہیں تو تم میں سے کوئی شخص سوال کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی طرف رُخ نہ کرے۔‘‘ دستِ سوال دراز کرنے کی عادت افراد اور اقوام کو اقتصادی ہی نہیں نفسیاتی اور روحانی طورپر بھی مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ ایسے لوگ بالآخر اس ہاتھ کو بھی کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں فیڈ کرتا ہے۔ گداگروں اور بھکاریوں میں اللہ کا نام تو بہت لیا جاتا ہے لیکن عملاً‘ حقیقتاً اور جوہراً ان کے اندر سے خدا پر توکل اٹھ گیا ہوتا ہے۔ ایسوں کے نزدیک خدا بھیک مانگنے کا آلہ قرار پاتا ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ ’’ملعون ہے وہ شخص جو اللہ کا نام لے کر سوال کرے۔‘‘ حضرت علیؓ کا قول ہے۔ ’’اے بنی آدم! تیرا چہرہ آبِ منجمد ہے کہ سوال اس کو ٹپکاتا ہے۔ پس دیکھ کہ اس کو کس کے پاس ٹپکاتا ہے؟‘‘ بھیک مانگنے کی جس قدرمذمت اسلام میں کی گئی، کسی اور مذہب میں اس کا عشرعشیربھی نہیں لیکن بدبختی کی انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک کی وجہ شہرت ہی بھیک اور قرضے بن گئے۔ ملک کے اندر قدم قدم پر بھکاری اور بیرون ملک خود ملک بھکاری اور اس بری طرح مقروض کہ ہروہ بچہ بھی ہزاروں روپیہ کا مقروض جوابھی پیدا بھی نہیں ہوا یعنی ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسلیں بھی رہن رکھ چکے لیکن جعلی غیرت و حمیت کے ترانے ہیں کہ رکنے تھمنے کا نام نہیں لیتے‘ حالانکہ ہمارا اصل یہ ہے کہ ہم نے اقبال کے شاہینوں کو بھی ان لالیوں اور کووں میں تبدیل کردیا جنہیں لوگ پنجروں میں ڈالے پھرتے ہیں تاکہ ثواب کا متلاشی کوئی شخص انہیں خرید کر صدقہ کے طورپر آزاد کرسکے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہماری تاریخ ’’بلنڈرز ، پلنڈرز اور سرنڈرز‘‘ کی تاریخ ہے۔ میں نے اس میں ’’بیگرز‘‘ یعنی بھیک شامل کرنے کا سوچا تو خیال آیا کہ بھیک بھی تو ’’بلنڈر‘‘ اور ’’سرنڈر‘‘ ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کے باوجود ہماری بڑھکیں، لاف زنیاں، دعوے اور اکٹرفوں ایسی جیسی دینے والے ہاتھ کو بھی زیب نہیں دیتی۔ کوئی ایسے گداگر کا کیا کرے جس نے اپنا کشکول لاٹھی کے ساتھ باندھ رکھا ہو اور توقع کرے کہ لوگ اسے چودھری مان لیں گے۔ تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی بھیانک اور ناقابل فہم ہے کہ روز اول سے جس کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، اسی کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھنا چاہتے ہیں، اسی کو گالیاں دیتے اور ہرمعاملہ میں مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور غالباً یہیں وہ قول سچا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’بھیک اقتصادی ہی نہیں نفسیاتی اور روحانی طورپر بھی مسخ کردیتی ہے۔‘‘ فرمایا ۔’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔‘‘ بھکاری کے نزدیک احسان فراموشی کیا اور احسان شناسی کیا ؟بزرگوں کا کہنا تو یہ تھا کہ …’’منہ کھائے آنکھ شرمائے ‘‘ لیکن یہاں تو آنکھ کا شرمانا کیا، آنکھیں دکھانا عام ہوگیا کہ اب اصل محاورہ یہ ہوا کہ …’’کھانا بھی غرانا بھی‘‘ یہاں تک بھی بات سمجھ میں آتی ہے کہ چلو بھائی ! کھائو بھی اور غرائو بھی لیکن اتنی گالیاں ؟اتنا غصہ ؟ اتنی برہمی ؟الزام یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے کیوں نہ روکا؟ اتنا یادرکھو کہ جب مشرقی پاکستان سے فارغ ہوکر اندرا گاندھی نے بچے کھچے پاکستان کا رخ کیا تو یہ امریکہ ہی تھا جس کی شٹ اپ کال نے اس کے قدم روک دیے ورنہ ’’جنگ کھیڈ نئیں ہُندی زنانیاں دی‘‘ جیسے ترانے اور ملی نغمہ کو نظربدلگ جاتی۔ پھر کہتے ہیں افغان جہاد کے بعد امریکہ ہمیں استعمال کرکے چھوڑ گیا تو کیا تم ٹشو پیپر کا ڈھیر تھے ؟امریکہ تمہارا جڑواں بھائی نہیں ہے اور جڑواں بھائیوں کے بھی اپنے اپنے مفادات وترجیحات ہوتی ہیں اس لیے اوروں کو الزام دشنام سے پہلے خدا کے لیے کبھی تو اپنی کھٹمل زدہ چارپائیوں کے نیچے بھی ڈانگ پھیر لو …کبھی تو اپنے اُجلے گریبانوں میں بھی جھانک لو۔ اعلیٰ علاج کے لیے …امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے …امریکہ روٹی روزگار کے لیے …امریکہ اعلیٰ اسلحہ کے لیے …امریکہ بھیک، امداد کے لیے …امریکہ تربیلا منگلا ڈیم کے لیے …امریکہ افغان جہاد میں سٹنگر اور ڈالر کے لیے …امریکہ ہمارے سب خرابیوں کی جڑ بھی …امریکہ ذرااندازہ لگائیں کہ … صرف 2002ء تا 2011ء امریکہ نے پاکستان کو 17بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد دی …یادرہے کہ یہ خطیر ترین رقم صرف ’’ایڈ‘‘ کی مد میں دی گئی۔ یادرہے کہ ہم ہرسال بیرونی قرضوں پر صرف سود کی صورت 3بلین ڈالر ادا کرنے کے پابند ہیں یعنی ہم بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ 17بلین ڈالر کا مطلب کیا ہے۔ 1953ء تا 1961ء جیسے سستے اور بھلے زمانوں میں بھی امریکہ نے پاکستان کو تقریباً 2بلین ڈالرز کی امداد دی تھی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کو ملٹری معاونت کی مد میں بھی تقریباً 8بلین ڈالر دیے گئے‘ اس کے علاوہ معاشی و سماجی ترقی کے لیے بھی 3بلین سے زیادہ رقم دی گئی۔ 2001ء سے اب تک امریکہ سے جتنی ایڈ ملی اس کا صرف دو فیصد ہم بدبختوں نے تعلیم پر خرچ کیا جس کا شرمناک مطلب یہ ہے کہ ہم نے صرف دو ڈالر سالانہ فی پاکستانی بچہ سے زیادہ خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہم ایسے اندھے کنوئیں کی مانند ہیں جس میں کوئی جتنا مرضی جوکچھ مرضی ڈال دے وہ رائیگاں ہے ۔ اک ایسے برتن کی مانند جس کو سمندر بھی نہیں بھرسکتا کیونکہ اس کا پیندا ہی موجود نہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ یہ پیندا کھا چکی ہے۔ پچاس فیصد پاکستانیوں کو آج بھی مناسب خوراک میسر نہیں جبکہ قرضے، گرانٹیں اور ایڈ گنی نہیں جاتی۔ میں نے تو انٹرنیٹ سے چند معمولی جھلکیاں اٹھائی ہیں ۔ امریکنوں کو چاہیے کہ اس حوالہ سے کوئی وائٹ پیپر ٹائپ شے شائع کردیں تاکہ اس ملک کے معصوم عوام کو علم تو ہو کہ حقائق کیا ہیں؟ اصل ولن کون ہے ؟اور پینسٹھ سال میں ہُوا کیا ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ جب عوام امریکہ سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو میں یہ سوچ کر کڑھتا ہوں کہ اس ملک کی بے حیا، بے شرف اشرافیہ اندر ہی اندر کتنا خوش ہوتی ہوگی کہ اصل ولن تو ہم ہیں لیکن ہم نے کتنی مہارت سے عوام کی نفرت کا رخ امریکہ کی طرف کررکھا ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘ کے مطابق پاکستان کو ملنے والے امریکی فنڈز کا 70فیصد جائز طورپر استعمال نہیں ہوا۔ اس کے لیے ’’نیوز ویک ‘‘ نے \"MISSPENT\"کالفظ استعمال کیا ہے تو لوگو! خدارا غورتو کرو کہ تمہارے ساتھ واردات کیا ہورہی ہے ؟ کیوں اپنی گالیاں اور غصہ غلط جگہوں پر ضائع کررہے ہو؟ اہم نوٹ: میرے بچپن کے دوست اور دوہری شہریت کے حامل ’’غدار‘‘ ’’کینیڈین‘‘ صلاح الدین درانی نے ’’اے پی سی ‘‘ کو بجاطورپر \"ALLIED PACK OF CROOKS\" قرار دیتے ہوئے ٹوئیٹر پر عوام سے پوچھا ہے کہ کیا ننگی دہشت گردی کو فقط ’’بدامنی‘‘ کہنے والوں کے سپرد کرنا اس ملک کا‘ مناسب حرکت ہوگی؟ اور کیا انہیں ابھی ابھی یہ تازہ تازہ اطلاع آئی ہے کہ … 1۔ ڈرون پاکستان کے لیے مناسب نہیں۔ 2۔ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ 3۔ ملکی خودمختاری مخدوش ہے۔ کیا یہ ساری باتیں اس ملک کا بچہ بچہ مدتوں سے نہیں جانتا؟ اگر جانتا ہے تو یہ سیاسی جوکر کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟ صلو درانی کے اس سوال پر غور کرنا ہراس شخص کا قومی فریضہ ہے جس کی کھوپڑی میں بھُس کی بجائے مغز نام کی کوئی شے موجود ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved