تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-09-2017

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!

جشن کا نہیں یہ عبرت کا مقام ہے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ عبرت حاصل کیا کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار چلے گئے۔ کم ہی امکان ہے کہ لندن سے لوٹ کر آئیں۔ شریف خاندان کا اعتماد بھی کھو چکے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں کی منظوری دینے والی اقتصادی رابطہ کمیٹی اور نجکاری کمیٹی سے پہلے ہی انہیں الگ کر چکے۔ اسحاق ڈار مستعفی ہو جائیں، جس مٹی کے بنے ہیں‘ ایسا نم اس میں نہیں ہوتا۔ وہ ایک عظیم اداکار ہیں۔ شہباز شریف کو چلے جانا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی مزاحمت مشکل ہے۔ باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانا ہو گی۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ شریف خاندان لندن میں براجمان ہے۔ واپسی کا امکان کم ہے۔
اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہاتھوں کے کنول‘ آنکھوں کے دیے
اک گونجتی آندھی وقت کی بازی جیت گئی‘ رت بیت گئی
تعجب ہے کہ اسحاق ڈار‘ نواز شریف کی ناک کا بال کیسے بن گئے۔ شاید اس لیے کہ ایک مکمل درباری ہیں۔ میاں محمد نواز شریف ایسے لیڈروں کو اس قماش کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو بھی کوئی سوال پوچھے بغیر سر جھکا دیں۔ بے پیندے کے لوٹے‘ کھوکھلے لوگ‘ جن کی کوئی رائے ہوتی ہے‘ کوئی نظریہ اور نہ مسلک اور موقف۔ محض اپنے لئے جو زندہ رہتے ہیں۔ ترقی کا زینہ طے کرنے کے لئے‘ کسی مالک‘ کسی آقا کا طوق گردن میں ڈال لیتے ہیں۔
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے‘ چلے آئیں گے
در کھلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں
بند ہو گا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
اسحاق ڈار کی برق کمزوروں اور محتاجوں پہ گرتی۔ ان کی اپنی قوت نہیں‘ یہ نواز شریف کی کمزوری تھی۔ میاں صاحب کی یادداشت متاثر ہو چکی تھی۔ قوت فیصلہ کمزور اور اعصاب مضمحل۔ عالم ان کا یہ تھا کہ جون 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تین چار ماہ تک قوم سے خطاب نہ کر سکے۔ ایجنڈا ہی سجھائی نہ دیتا تھا کہ قوم کے سامنے پیش کر سکیں۔ ایسے میں شہباز شریف یا کسی اور پر کیوں انحصار نہ کیا؛ درآں حالیکہ بڑے بھائی کی حکم عدولی کے کبھی مرتکب نہ ہوئے۔ ایک تو یہ کہ پنجاب ان کے حوالے کر رکھنے کے آرزومند تھے۔ ثانیاً عسکری قیادت سے رشتہ و تعلق کی نوعیت پر‘ اپنے بھائی سے وہ مطمئن نہیں تھے، جس طرح کہ چودھری نثار علی خان سے۔ ایک آدھ واقعے کے سوا‘ اسحاق ڈار نے اپنے آقا سے کبھی اختلاف نہ کیا۔ مثلاً جب مشہور ماہر مالیات شوکت ترین کو میاں صاحب نے وزارت خزانہ کا مشیر بنانے کا ارادہ کیا، اس قدر ڈار صاحب برہم ہوئے کہ مستعفی ہونے کی دھمکی دی۔ میاں صاحب نے ان کی بات مان لی۔کیا وہ نواز شریف کے بعض خفیہ رازوں سے آشنا تھے۔ احتمال موجود ہے۔ دنیا بھر میں میاں صاحب کے کئی کاروبار ہیں‘ کئی گمنام پوشیدہ کمپنیاں ہیں اور بیرون ملک بینکوں کے کتنے ہی کھاتے۔
ایک انتہائی اہم قومی شخصیت نے مجھے بتایا: سمندر پار‘ شریف خاندان کی کم از کم تین سو جائیدادیں ہیں۔ آٹھ برس ہوتے ہیں لاہور کے ایک ممتاز قالین فروش نے اس ناچیز کو ایک قالین دکھایا کہ اس کی مالیت ایک لاکھ ڈالر ہے۔ میاں نواز شریف ستر ہزار ڈالر ادا کرنے پر آمادہ تھے۔ بے پرکی اڑانے والا آدمی نہ تھا۔ پھر بھی یقین نہ آیا کہ نوادرات کا ذوق میاں صاحب نہیں رکھتے۔ اس نے کہا: سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک بینکر ان کے ہمراہ تھا۔ جز رسی شریف خاندان کی فطرت ہے۔ ایون فیلڈزمیں ان کی جائیدادوں کے آس پاس پاکستانی ریستورانوں کے مالک‘ خاندان کے مہمانوں اور ملاقاتیوں کی‘ ازخود تواضع کرنے کی پیشکش کیا کرتے تو میاں صاحب دل شکنی کبھی نہ کرتے۔ معلوم نہیں کہ ارشد شریف اور رئوف کلاسرا ایسی کسی ضیافت میں شریک ہوئے یا نہیں۔ جدہ میں بھی اخراجات کا بوجھ میزبان حکومت پہ تھا۔ 
شوکت ترین والے واقعے میں اسحاق ڈار کے ڈٹ جانے کی ایک اور وجہ بھی ممکن ہے۔ بندہ و آقا کے تعلق میں دلیل اس طرح کی ہوتی ہے: حضور‘ آپ کا ہر حکم بجا لانے کیلئے خادم موجود ہے تو کسی اور کو دخیل کرنے کا کیا جواز۔ بھید اس پہ کھل جائیں گے۔
دوسرے ممتاز وکلا کو نظرانداز کرکے‘ قانونی مہارت کے علاوہ جو فصاحت کا جادو بھی جگاتے‘ لاہورکے قانون دان کو پاناما کیس سونپنے کا فیصلہ بھی شاید اسی پس منظر میں ہوا۔ انعامات کی بارش کے باوجود‘ جو سینیٹ کی سیٹ کا مطالبہ کرتا رہا۔ اسحاق ڈار نے مکمل وفاداری کا یقین دلا رکھا تھا۔ بعض اوقات نازک ترین موضوعات پر وہ راز و نیاز کرتے۔ کچھ عرصہ قبل‘ کسی نے خبر دی، دونوں حضرات میں مشورہ جاری ہے کہ ایک آدھ ماہ کے لیے پاک فوج کی تنخواہ میں تاخیر کر دی جائے۔ یہ ایک بہت ہی قابل اعتماد شخصیت تھی۔ ذمہ دار‘ باخبر‘ صداقت شعار اور ذہین و فطین۔ اس خیال سے اس اطلاع کو دل میں دفن کر دیا کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔ تاخیر ہوئی تو طوفان اٹھے گا۔ فوج کو احتجاج کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔ قوم خود نمٹ لے گی۔ چند نکات اس سے آشکار ہیں۔ ایسے احمقانہ خیال پر اسحاق ڈار ایسے درباری ہی سے مشورہ ممکن ہے، شہباز شریف یا چوہدری نثار سے نہیں۔
1999ء میں ڈار صاحب نے شریف خاندان سے غدّاری کی۔ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ حرف بہ حرف منی لانڈرنگ کی ساری کہانی بیان کر دی۔ پھر مکر گئے۔ جس پہلو پر شریف خاندان نے غور نہ کیا‘ وہ یہ تھا کہ اگر یہ بیان دبائو کے تحت دیا ہوتا تو پوری صحت کے ساتھ‘ سینکڑوں واقعات کی ٹھیک ٹھیک تفصیلات نہ ہوتیں۔ بیان نہیں، یہ تو ایک تفتیشی رپورٹ ہے‘ جو کسی ماہر پولیس افسر نے برسوں کی ریاضت کے بعد لکھی ہو گی۔ ایک ایک جملہ مربوط‘ سب اعدادوشمار مصدقہ اور معتبر۔ اس کے باوجود پھر سے ان پر اعتبار کیوں کیا؟ شاید اسی ایک سوال کے جواب میں اس طلسمی داستان کا اصل راز پوشیدہ ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف خطرہ مول لینے پر آمادہ نہ تھے۔ انسانی فطرت کے اس پہلو کو بادشاہ سلامت نے بھلا دیا کہ سرشت کبھی نہیں بدلتی۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ کمزور آدمی کسی وقت بھی پھسل سکتا ہے۔ ابتلا کا نیا دور طلوع ہوا تو اسحاق ڈار صاحب ہیجان کا شکار تھے۔ خوف ان کی آنکھوں میں جھلک رہا تھا، بشرے سے ٹپکتا تھا۔ بظاہر وہ جے آئی ٹی اور شریف خاندان کے مخالفین پہ مشتعل تھے۔ اندر سے ٹوٹ چکے تھے؛ چنانچہ پاک فوج کی بعض معتبر شخصیات سے انہوں نے رابطہ کیا اور تعاون کی پیشکش کی۔ فوراً ہی یہ پیشکش مسترد کر دی گئی۔ یہ تو ایک مسخرہ پن ہوتا۔ چھچھورے پن کا ایک سستا سا ڈرامہ۔
شریف خاندان سپریم کورٹ میں اپنا دفاع نہ کر سکا۔ سمندر پار پڑی اپنی کھربوں کی دولت کو وہ جائز اور طیب ثابت نہ کر سکے۔ اب انہوں نے عدالت اور فوج کو رسوا کرنے کی مہم شروع کی۔ عوامی تائید کے سہارے، جو اگرچہ سکڑ گئی مگر اب بھی دوسروں سے زیادہ ہے۔ اللہ کے ہاں مگر دیر ہے اندھیر نہیں اور اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔
شہباز شریف اس عمارت کا آخری ستون ہیں۔ یہ ستون گرا تو نصف صدی میں تعمیر کردہ‘ شان و شوکت کا یہ محل دھڑام سے زمین پر آ رہے گا۔ اپوزیشن پرلے درجے کی احمق ہوگی‘ صورتِ حال کا اگر وہ ادراک نہ کر سکی۔
کوئی بڑی احتجاجی مہم شریف خاندان اب اٹھا نہیں سکتا۔ وزیراعظم عباسی اور وزرا کرام کی اکثریت متذبذب ہے۔ کبھی اِدھر، کبھی اُدھر، دونوں کی طرف دیکھتی ہے۔ عملاً ع
جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
شریف خاندان کی آخری امید اب غیرملکیوں سے وابستہ ہے۔ انکل سام، صدر طیب اردوان یا خادمِ حرمین شریفین۔
اللہ کی بارگاہ میں جب کوئی فیصلہ صادر ہو چکے تو کون اسے ٹال سکتا ہے۔ فیصلہ اگر ہو چکا تو کون بدل سکے گا؟ 
تری رسوائی کے خون شہدا درپے ہے
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
جشن کا نہیں یہ عبرت کا مقام ہے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ عبرت حاصل کیاکرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved