نااہل وزیر اعظم نے نااہلی سے تھوڑا پہلے تکبر کے بھوربن پر چڑھ کر اجتماعی قومی شعور کا مذاق ان لفظوں میں اڑایا تھا ''یہ ُمنہ اور مسور کی دال‘‘
انگریزی زبان کا محاورہ ہے Pride haith fall‘ غرور کا سر نیچا، اسی کا اردو ترجمہ ہے۔ غرور کی ہِجو میں پوٹھوہاری زبان کا مقولہ ان دونوں سے بھی زوردار ہے ''رب تکبر بھاوے نہ تے پِست کڈھے مغروراں نی‘‘۔ جس کے معنی ہیں‘ اللہ کو تکبر قطعاً نہیں بھاتا‘ اسی لئے وہ تکبر کرنے والوں کو پستی میں گرا دیتا ہے۔ تکبر کے بھور بن سے بھاگ کر مے فیئر کے کرپشن ہائوس میں پناہ گزین نااہل ٹولہ جلسوں میں کہتا کرتا: شیر ڈر نہیں سکتا، شیر بھاگ نہیں سکتا۔ نااہل وزیر اعظم نے بارہا چھاتی پر ہاتھ مار کر کہا ''میں استعفیٰ دے دوں‘ میں ان کے کہنے پر وزارت عظمیٰ چھوڑ دوں...‘‘ یہ منہ اور مسور کی دال۔ آج شیر کے پالتو خادم کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ نون لیگ لندن میں بیٹھ کر بھی چلائی جا سکتی ہے۔ چند مہینے پہلے جب میں نے ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ نون لیگ کو میم لیگ نے ہائی جیک کر لیا ہے‘ تب بہت سے دوستوں نے اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ تب ہمارے دوست سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی خاموش تھے۔ دوسری جانب وزیر ریلوے کا سیاسی انجن شاہراہِ الزامات پر چھکا چھک دوڑا چلا جا رہا تھا‘ جس کا آدھا دھواں شاہراہ دستور پر زہر پھیلاتا رہا، باقی پنڈی کی فضا آلودہ کرنے کے پاپڑ بیلنے میں استعمال ہوگیا۔
آج بڈھا شیر، چھوٹا شیر، لمبا شیر، موٹا شیر، بھاری شیر اور سب سے بڑھ کر منشی مداری شیر‘ سب وطن عزیز میں کارکنوں کو بے آسرا چھوڑ کر ملک سے باہر کھسک چکے ہیں۔ منشی مداری شیر تقریباً 10 ہفتوں سے دفتر نہیں گیا۔ اس کے سارے بیان اس کا پی ایس جاری کرتا رہا۔ اس طرح شیروں نے اصلی شیر ہونے کی مشرف دور والی اپنی شاندار تاریخ پھر سے دوہرا دی۔ اس موقع پر آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ گاڈ فادر2 ملک میں موجود ہے۔ اسے بھگوڑوں کے ٹولے میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ جو شیر میدان سے بھاگ کر کرسی کے پیچھے جا دبکے، اسے شہسوار نہیں بھگوڑا کہا جائے گا۔ جس این آر او کی امید میں گاڈ فادر نمبر2، نے اپنے منہ پر چپ کا سریا رکھ لیا ہے‘ وہ این آر او کبھی نہیں ہونے والا۔
اب چلئے خادموں کی طرف، یادش بخیر ہمارے پنجاب کے ایک خادم اعلیٰ ہوا کرتے تھے‘ جن کو ڈینگی مچھر سے لے کر چھوٹو گینگ تک ہر معاملے میں فوری نوٹس لینے کی فن کاری کا شوق تھا۔ ان کی سگی بھتیجی صاحبہ نے حلقہ 120 لاہور کے 60/70 میم لیگی کارکنوں کے جبری اغوا کا الزام لگایا۔ خادم اعلیٰ کے پسندیدہ ''وزیرِ امورِ ماورائے قانون‘‘ نے ان جبری گمشدگیوں کی تصدیق کی۔ انہی گمشدگیوں کی تصدیق در تصدیق پر کئی وزیروں شذیروں نے 'آہو جی، آہو جی، ہاں جی، ہاں جی‘ کی مسلسل چیخیں ماریں‘ مگر خادم اعلیٰ کے ہیٹ پر جوں تک نہ رینگی۔ اگر جبری گمشدگیوں کا الزام سچا تھا تو خادم اعلیٰ کو فوری نوٹس لینے کی جرأت کیوں نہ ہوئی۔ اور اگر جبری گمشدگیاں ''حق خود اختیاری‘‘ کے تحت حسن اتفاق سے کرائی گئیں‘ تو پھر الزامات لگانے والے کوئی شرم کرتے کوئی حیاء دکھا دیتے۔ شرم و حیاء اور گرم ہوا کا سامنا فصلی بٹیر اور فرضی شیر نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ سارے کے سارے سرکاری شیر‘ جو منہ پھاڑ پھاڑ کر نظام عدل کو طعنے دیتے رہے‘ ذمہ دار اداروں کو کوسنے اور دُشنام صبح شام بھجواتے رہے‘ وطن کے خلاف جب سے غرب کی جانب سے گرم ہوائیں چلائیں گئیں‘ شیر سا وزن لے کر چوہے کے بل میں گھس چکے ہیں۔ پہلا چوہا‘ وہ جس کے ذمے پاکستان کا دفاع ہے‘ لیکن اس کے مُنہ میں مودی کی دال۔ اور دوسرا وہ جس کے کندھوں پر ایل این جی کا بوجھ ہے۔
سابق وزیر داخلہ نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں 2 خبروں کی تصدیق کر دی۔ پہلی‘ پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے کے فوراً بعد ایل این جی وزیر اعظم نے امریکی سفیر سے کیوں ملاقات کی۔ غیرت کے دعویداروں اور طائرِ لاہوتی کے پیروکاروں نے یو ایس ایمبیسیڈر کو نہ کوئی ڈی مارش پکڑایا نہ ہی اس حملے پر ایل این جی وزیر اعظم کے منہ سے کوئی لفظ نکلا۔ احتجاج تو دور کی بات ایل این جی وزیر اعظم نے اس حملے پر اعتراض تک نہ کیا۔ دوسری جانب پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف تقریروں کے ریکارڈ ہولڈر وزیر دفاع نے اپنے ہی ملک کو ڈومور کی چٹ پکڑا دی۔ زخم خوردہ قوم پر نمک چھڑکنے والے اس بے رحم وزیر کے بیان پر ایل این جی کے ایزی لوڈ والے پی ایم نے 'آہو جی آہو جی‘ کا ورد کیا۔ اس ورد کو سمجھنے کے لئے آپ کو مے فیئر کرپشن ہائوس تک ایل این جی وزیر اعظم کا پیچھا کرنا پڑے گا‘ جس نے مودی کے یار سے آشیرباد لی اور پھر امریکہ میں مودی کے یار کی لابنگ کے لئے سرکاری خرچ پر جا پہنچا۔ اس سرکاری خرچے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی تارک وطن کی کہانی وائرل ہے‘ جس نے بتایا کہ امیر ترین مغربی ممالک کے وزراء اعظم کے لئے ان کی کمپنی سے لیموزین چند گھنٹوں کے لئے کرائے پر لی گئی‘ جس پر چند سو ڈالر خرچہ آیا۔ دوسری جانب بھوربن خدمات سے شہرت پانے والے ایل این جی وزیر اعظم کے لئے ہزاروں ڈالرز پر لیموزین پکی بک کر لی گئی۔ اسی طرح سوشل میڈیا ایل این جی وزیر اعظم کے نو عمر صاحبزادے کی امریکہ میں ''تعلیم و تربیت‘‘ سے بھرا پڑا ہے۔ یہ مقولہ درست ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں‘ لیکن ابّا جی کے سامنے بچے ہر معاملے میں کچے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسا ابّا جی جو پکے وارداتیے ہوں‘ اور وارداتیں بھی بین البراعظمی۔
اسے آپ حسن اتفاق فائونڈری کہیں یا نااہلی کی باقیات۔ ایل این جی وزیر اعظم مُنہ میں مودی کی دال ڈال کر امریکہ پہنچا۔ اگلے روز کامریڈ رضا ربانی نے مُنہ میں مودی کی دال ڈالنے والوں کو کال اٹینشن نوٹس دیا۔ رضا ربانی نے کہا: بتائو سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف طوفانِ بدتمیزی کیا ہے۔ جس کے جواب میں نکھٹو وزارت خارجہ کے نکمے تنخواہ داروں نے پہلے سے لکھی ہوئی روایتی گھسی پٹی احتجاجی پریس ریلیز جاری کی۔ اس پریس ریلیز کے حوالے سے سپریم کورٹ بار کے ایک کمرے میں گفتگو ہوئی‘ جس میں ہمارے پشتون دوست اخباری رپورٹر غلام نبی نے کمال کا جملہ کہا۔ بولے: زمین کی حفاظت کے لئے جانور بھی جان لڑاتے ہیں۔ شیر بننے کے لئے جو اپنے جانور ہونے کا اعلان کرتے ہیں‘ کم از کم وہ سرزمین وطن کے لئے کسی چرند پرند جتنی غیرت کا مظاہرہ ہی کرتے۔ مگر غیرت اور منی لانڈرنگ کے کاروبار کے تقاضے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جن کرپشن کی سرکاروں نے ڈالروں کے انباروں سے سوئٹزرلینڈ کے بینک بھر رکھے ہیں‘ وہ غیرت کریں یا کالے دھن کی حفاظت۔ ڈپلومیسی کی دنیا میں سوئٹزرلینڈ کا جرم انتہائی سنگین ہے‘ جس کا کم از کم جواب پاکستان سے سوئس سفیر کو فوراً نکال دینا بنتا ہے۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ، جنیوا اور برلن میں پاکستان کے سفارت کار بے فیض اور بے حمیت نکلے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ فوراً سوئٹزرلینڈ چھوڑ دینے کے لئے پاکستان کی سرکار کو خط لکھتے۔ پاکستان کے نام پر ملنے والے ڈالر پاکستان کی سالمیت پر نچھاور کر دیتے۔ لگتا ہے‘ وزارتِ خارجہ کے منہ میں بھی مودی کی دال گھس بیٹھی ہے۔ ورنہ اس سے چھوٹی حرکتوں پر روس سمیت کئی ممالک اپنے ہاں سے امریکن اور یورپی سفارت کار کو نکال چکے ہیں۔ عام پاکستانیوں کو یوں لگتا ہے جیسے ملک کی عزت فروشی کا کوئی لنڈا بازار کھلا ہے‘ جس میں وزیر دفاعِ مودی‘ دفاعِ اعظم مودی اور پاکستان کے لئے نکھٹو وزارت خارجہ کے سٹال لگے ہوئے ہیں۔ ہر سٹال پر مودی کی دال کا راج ہے۔