آج کل جہاں جائیں ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ جناب کب ٹیکنوکریٹس کی حکومت آئے گی۔ جنرل راحیل کب اس قومی حکومت کے سربراہ لگ رہے ہیں؟
اکثر چپ رہتا ہوں کیونکہ ہر انسان کی اپنی رائے اور اپنی سوچ ہوتی ہے۔ کوئی نہ مکمل غلط ہوتا ہے اور نہ ہی درست۔ سامنے کی بات ہے کہ کب موجودہ آرمی چیف چاہے گا کہ اس کا سابق باس دوبارہ اس کا باس بن جائے اور وہ وزیر اعظم ہائوس جا کر اس سے احکامات لے اور سلیوٹ مارے؟ جنرل ضیاء نے سب سے پہلے جنرل چشتی سے جان چھڑائی تھی جو مارشل لاء لگانے میں پیش پیش تھے۔ جنرل مشرف نے جنرل محمود کو گھر بھیج دیا تھا جنہوں نے نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس سے گرفتار کر کے مشرف کے جہاز کے نیچے اترنے سے پہلے ہی مارشل لاء لگا دیا تھا‘ اور ہم سمجھتے ہیں جنرل باجوہ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو غلط ثابت کریں گے‘ اور اپنے سابق چیف کو اپنے اوپر دوبارہ باس لگا کر حکومت چلائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یقینا انہونی اور معجزہ ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ نگران حکومت کی بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہے؟ صرف دس برسوں میں سب کا دل سیاست اور سیاستدانوں سے بھر گیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی حکومتوں نے پچھلے دس برسوں میں لوگوں کا رومانس تباہ کیا‘ ورنہ مجھے یاد ہے‘ جنرل مشرف کے خلاف کیسی لہر پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ کیسے کیسے لوگ اپنے بچے لے کر احتجاج میں شریک ہوتے تھے۔ جب جنرل مشرف نے ججوں کو قید کیا تو عدلیہ کو آزاد کرانے کے لیے کتنے لوگ جانوں سے گئے۔ اسلام آباد میں برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خطاب کے موقع پر ہونے والے بم دھماکے میں درجن سے زائد لوگ مارے گئے۔ آج بھی ڈاکٹر اسرار شاہ‘ جو اس دھماکے میں اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے تھے‘ وہیل چیئر پر شالیمار گرائونڈ میں بیٹھ کر ہمیں گھنٹوں تیزی سے واک کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک ہی دن میں پچاس لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا کہ وہ برطرف چیف جسٹس کا استقبال کرنے کراچی ایئرپورٹ جانا چاہتے تھے اور جنرل مشرف نے شام کو اسلام آباد میں مکے لہرا کر کہا تھا دیکھ لی عوام کی طاقت۔ عوام اتنے بپھر گئے تھے کہ جی ایچ کیو کو باقاعدہ ایک خط جاری کرنا پڑا کہ فوجی افسران وردی میں مارکیٹس میں نہ جایا کریں کیونکہ لوگ بدتمیزی پر تُل گئے تھے۔ لوگوں کو توقعات تھیں کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف لوٹیں گے تو ملک ایک نئی سمت میں چل پڑے گا۔ دونوں ملک لوٹے تو سہی لیکن ایک انہونی ہو گئی۔ بینظیر بھٹو ماری گئیں اور پہلی دفعہ اس قوم نے براہ راست زرداری حکومت کی کرامات دیکھیں۔ اس وقت تک زرداری کے بارے میں لوگوں نے سنا اور پڑھا تھا۔ کچھ سچ اور کچھ جھوٹ‘ لیکن پہلی دفعہ انہیں تجربہ ہوا کہ جو کچھ زرداری کے بارے میں سنا اور پڑھا‘ وہ سب جھوٹ تھا‘ وہ تو اس سے بھی آگے کی چیز ہیں۔ ان کے اصلی گن تو اس وقت کھلے اور خوب کھلے۔
پیپلز پارٹی نے کھل کر جو کھیل کھیلے اس کے اثرات ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ باقی چھوڑیں بجلی پیدا کرنے کے نام پر ترکی سے جو کرائے کا جہاز منگوایا گیا‘ اس کے ساتھ جو ڈیل ہوئی‘ اس کی تفصیلات سن کر سب کے ہوش اڑ گئے تھے۔ اس کرائے کے جہاز نے 230 میگاواٹ بجلی پیدا کرنی تھی‘ اور صرف 44 میگاواٹ پیدا کر رہا تھا‘ جبکہ اربوں روپے کی ادائیگی ایڈوانس کر دی گئی تھی۔ بجلی کا جو ریٹ طے ہوا تھا‘ وہ پچاس روپے فی یونٹ تک تھا۔ اب اندازہ کریں‘ کتنا بڑا ہاتھ کیا گیا تھا اس ملک کے ساتھ۔ پچاس روپے فی یونٹ بجلی خرید کر عوام کو بیچنی تھی۔ جنہوں نے اس میں سے کمیشن کھانا تھا وہ کھا لیا۔ اس طرح کے ناقص سودے کر لیے اور جان بوجھ کر ایسی شرائط رکھی گئیں‘ جو ان غیرملکی پارٹیوں کے فائدے میں زیادہ اور ملک کے فائدے میں کم تھیں۔ ایسے معاہدے کر لیے جن کی بنیاد پر متعلقہ کمپنی نے عالمی عدالت سے ستر ارب روپے جیت لیے ہیں۔ اس کمپنی کو اب عمر بھر اور کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بگاڑ لیں پیپلز پارٹی کا آپ‘ کیا بگاڑنا ہے۔
زراری صاحب جب تک سکرین کے پیچھے تھے‘ ان کے سٹائل کا کسی کو علم نہ تھا ۔ سٹائل کھلا تو سب کی چیخیں نکل گئیں۔ رہی سہی کسر اب سندھ میں پوری ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کراچی نہیں دوبئی سندھ کا دارالحکومت بن گیا ہے۔ اندرون سندھ میں چھوڑیں‘ جو حشر کراچی کا کر دیا گیا ہے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگانے کو دل چاہتا ہے۔
یہی کام شہباز شریف صاحب نے پنجاب میں کیا۔ ان کو کچھ اور کمالات آتے ہیں۔ شہباز شریف قائل ہیں کہ میڈیا کو ساتھ ملا کے جیو۔ ایک دفعہ پیپلز پارٹی کا ایک لیڈر مجھ سے ملنے آیا‘ اور کہا: کوئی طریقہ بتائو کہ زرداری کے خلاف خبریں نہ چھپا کریں۔ ان دنوں میں ایک انگریزی اخبار میں لکھا کرتا تھا۔ میں نے ہنس کر کہا: کمال جرات ہے آپ کی۔ جو آپ کے خلاف خبریں فائل کرتا ہے اس سے پوچھ رہے ہیں کہ بتائو‘ ہاتھ کیسے کاٹوں۔ میں نے کہا: ویسے رحمن ملک کے خلاف کوئی خبر ہمارے انگریزی اخبار میں نہیں چھپ سکتی لیکن جس زرداری نے اسے وزیر بنایا ہے اس کے خلاف روزانہ چھپتی ہیں۔ رحمن ملک سے پوچھیں اس نے کیا ڈیل کررکھی ہے۔ آپ بھی اس طرح کی ڈیل مالکان سے کر لیتے تو آپ کے خلاف بھی نہ چھپتیں۔ آپ کے زرداری صاحب کنجوس ٹھہرے‘ وہ سب کچھ خود کھانا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی۔
شریف خاندان بھی یہ گُر جانتا ہے۔ دن کو رات اور رات کو دن کرنے کے لیے میڈیا کا ساتھ بڑا ضروری ہے۔ انہوں نے چند میڈیا گروپس کو ساتھ ملا کر وہ دھول اڑائی کہ لگتا ہے کہ پنجاب میں لوگ جنت میں رہتے ہیں اور من و سلویٰ روزانہ آسمان سے اترتا ہے۔ حالت یہ ہے‘ نواز شریف صاحب کا علاج بیرون ملک ہوتا ہے، شہباز شریف بیرون ملک سے علاج کراتے ہیں، اب کلثوم نواز کا علاج لندن میں ہو رہا ہے۔ برسوں کی حکومت کے بعد ایک بھی ہسپتال نہیں جہاں ان سب سمیت عوام کا بھی کوالٹی علاج ہو سکے۔ اب دنیا اخبار کے رپورٹر حسن رضا کی خبر ہے کہ گورنر پنجاب کے لیے تیس ہزار ڈالرز کی منظوری دی جانے والی ہے‘ انہوں نے بھی بیرون ملک علاج کے لیے جانا ہے۔ ضرور جائیں لیکن اپنے خرچے پر جائیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمیں بیرون ملک علاج کی ضرورت پیش آتی ہے؟
کبھی نہیں سنا کہ بھارت کے وزیر اعظم‘ یا کسی اور لیڈر کو بیرون ملک علاج کے لیے جانا پڑا ہو۔ الٹا پنجاب سے ہر سال سینکڑوں لوگ بھارت علاج کرانے جاتے ہیں۔ پھر بھی میڈیا آپ کو بتائے گا کہ جناب شہباز شریف سے بہتر منتظم تو کسی ماں نے آج تک جنا ہی نہیں۔ پچھلے دنوں لندن میں اپنا علاج کرانے کے بعد شہباز شریف ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے پنجاب میں صحت کا اعلیٰ نظام رائج کر دیا ہے۔ وہ گھنٹوں بولتے رہے کہ کیسے انہوں نے پنجاب میں ہیلتھ سسٹم بدل دیا ہے۔ یقینا سننے والوں کی ہنسی نکل گئی ہو گی کہ جو پاکستان میں اتنے اچھے ہیلتھ نظام کی تعریفیں کر رہا ہے‘ وہ خود کچھ دیر پہلے لندن سے چیک اپ اور علاج کرا کے آیا ہے اور ان کی بھابی لندن میں زیر علاج ہے جبکہ بھائی نے کچھ عرصہ قبل لندن سے علاج کرایا تھا۔ وہاں بیٹھے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ پوچھ لیتا کہ اگر آپ نے پنجاب کے ہسپتال اتنے اچھے کر دیے ہیں تو پھر آپ سب لوگ لندن سے کیوں علاج کرا رہے ہیں؟
میرا خود سے پوچھا گیا سوال وہیں رہ گیا۔ دس برسوں میں ہی سیاست اور سیاستدانوں سے رومانس کی موت کیوں واقع ہو گئی؟ کیوں ٹیکنوکریٹس حکومت کی باتیں سن رہے ہیں؟ ویسے کیا دولت کمانا اتنا ضروری تھا کہ کروڑوں لوگوں کی جمہوریت سے جڑی محبت کا خون کر دیا جاتا اور دوبارہ حالات وہیں پہنچا دئیے جاتے‘ جہاں 1990ء اور 1996ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے وقت تھے یا 1993ء اور 1999ء میں نواز شریف کی برطرفی کے وقت تھے؟
کیا واقعی پیسے میں اتنی طاقت ہے کہ یہ انسان کو اپنی عزت اور کروڑوں لوگوں کی طرف سے دی گئی بے پناہ محبت اور وزارت عظمیٰ کے عہدے سے بھی زیادہ اہم اور قیمتی لگتی ہے؟