دو اقساط میں شائع ہونے والے میرے گزشتہ ہفتے کے آرٹیکل کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ اس منصوبے پر تیز سے عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کونسل کے تحت جنیوا میں 35ویں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے ابتدائی اجلاس میں امریکی حکومت کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب NIKKY HALEY کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو تشویش ہے کہ ہیومن رائٹس کے لئے دی جانے والی تجاویز اور احکامات پر رکن ممالک سنجیدگی سے عمل نہیں کر رہے‘ جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں... کاش انہیں میانمار کے روہنگیا مسلمان بھی یاد آتے‘ جن کا نام انہوں نے اپنی زبان پر لانا گوارا ہی نہیں کیا... اٹھارہ دن تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے دوران سی آئی اے اور را کی زیر نگرانی پاکستان کی قوم پرست تنظیموں کے اجلاس کا اہتمام کرایا گیا‘ جس میں بلوچ سب نیشنلسٹس، سندھی سب نیشنلسٹس اور USNs یعنی نیشنلسٹس کے نام سے قائم سب علیحدگی پسند تنظیموں کے لوگوں کو ایک میز کے گرد بٹھا کر ان کے مشترکہ منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے سی آئی اے کے چین اور پاکستان سے متعلق امور کے ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز کی روشنی میں منصوبہ بندی کی گئی۔ اس میٹنگ کا بنیادی ایجنڈا CPEC کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، اس کے لئے اپنے دہشت گردوں کی عسکری طاقت کو مزید بڑھانے اور تقویت دینے کے علاوہ بلوچستان اور سندھ میں اس منصوبے کے خلاف عوام میں شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کو اپنے ساتھ ملانا تھا۔ سی آئی اے کے اہلکاروں نے انہیں مختلف ٹارگٹ بتانے کے علاوہ اس کے
لئے ٹیکنیکل سہولیات دینے کا وعدہ بھی کیا۔ اس کانفرنس میں مہران مری کو سی آئی اے اور را نے خصوصی طور مدعو کیا ہوا تھا اور ہیومن رائٹس کمیشن کی کانفرنس کے بعد مہران مری نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، سندھی اور بلوچ تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں سے کہا کہ اب تک ہم بلوچستان میں اپنی کارروائیوں سے مطمئن ہیں لیکن سندھ سے ہمارا ساتھ دینے کے لئے سندھ کی قوم پرست جماعتیں ابھی تک سستی کا شکار ہیں اور ان کی کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کوئی ایک بھی قابل ذکر کارروائی سامنے نہیں آئی... ہوٹل کے جس کمرے میں یہ اجلاس ہو رہا تھا، اس میں شریک ایک شخصیت اس وقت حیران رہ گئی جب تقریر شروع ہونے سے پہلے انڈین را کے ایک افسر کو نیلے رنگ کا ایک لفافہ مہران مری کے کوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کی تمام تقریر اس کاغذ پر مشتمل تھی جو اس لفافے میں ڈالا گیا تھا... جس ہوٹل میں یہ کانفرنس منعقد ہو رہی تھی، وہاں سب سے حیران کن اور تشویشناک بات ہوٹل کی ایک راہداری میں پنجاب میں اہم عہدے پر تعینات رہنے والے توقیر شاہ اور بھارت کے T-Kumar کا ایک ساتھ دیکھا جانا تھا۔ 2014ء میں جب ہیومن رائٹس کی 32ویں کانفرنس جنیوا میں منعقد کی جا رہی تھی تو اس میں مہران مری اور نورالدین مینگل کے علاوہ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے Advocacy ڈائریکٹر T-kumar نے، جن کا تعلق بھارت سے ہے، اپنی تقریر میں پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ دس‘ پندرہ سال سے انسانی حقوق کی سخت پامالی کی جا رہی ہے۔ اس نے اس صوبے کے بارے میں اسی طرح کا اور بھی کافی زہر اگلا۔
مہران مری کی تقریر کا وہ حصہ اس پراپیگنڈے کا حصہ تھا جو سندھ اور بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیموں کی جانب سے عرصے سے کیا جا رہا ہے کہ پاک چین اکنامک راہداری کے جو مختلف پراجیکٹس مکمل کئے جا رہے ہیں اس سے بلوچستان کو ترقی نہیں مل رہی بلکہ اس سے بلوچ کلچر کا قتل عام کرتے ہوئے اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ورلڈ سندھ کانگریس نام سے قائم کی جانے والی تنظیم نے بھی شرکت کی۔ سی آئی اے کی معاونت سے بلائے جانے والے اس انتہائی خفیہ رکھے گئے اجلاس میں UYGHUR ہیومن رائٹس کی روح رواں Rebiya Kadeer اور DOIKUN AEYSA کو ہیومن رائٹس کانفرنس کے 35ویں تین روز اجلاس میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر جنیوا مدعو کیا گیا تھا۔ سی پیک کے خلاف منعقد کئے گئے خفیہ اجلاس میں چین کے صوبے اوگی کے ان ناموں کو آخری وقت تک شرکا سے مخفی رکھا گیا۔ جیسے ہی یہ اجلاس شروع ہوا تو ابتدائی چند منٹوں کے بعد کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور اس دستک پر دروازہ کھولنے والا را کے سینئر افسر کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی یہ دونوں بھی خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھ کر مہران مری کی تقریر سننے والوں میں شامل ہو گئے۔
مہران مری کی تقریر کا وہ حصہ پاکستان پر حکومت کرنے والے بااختیار حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ وہ اس پر کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنی پوری صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کی ٹھوس اور جامع کوششیں کریں گے اور ساتھ ہی اس ملک کے ہر اس بااختیار ادارے کے لئے بھی یہ اطلاع یقیناًَ چونکا دینے والی ہو گی کہ ''پاکستان میں حال ہی میں منظر عا م پر آنے والی ''انصارالشریعہ‘‘ کا وجود کسی اور کا نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے کا ہی ایک حصہ ہے‘ اور اس کی تربیت امریکہ نے بالکل اسی طرح کی ہے جیسے بقول امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ اور صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن نے امریکی سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ داعش اور القاعدہ امریکہ کی تخلیق ہیں۔
اپنے اس مضمون کے ایک ایک لفظ کی سچائی کی شہادت دیتے ہوئے میں پاکستانی عوام اور ہر طاقت ور ادارے کو مطلع کرتا ہوں کہ امریکہ اور بھارت اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے بلوچستان، کے پی کے، سندھ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنے ایجنٹوں کی بھرتی، سوشل میڈیا کے ذریعے ان صوبوں اور علاقوں کے عوام میں ان کے حقوق غصب کئے جانے کی آتش سلگانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر ترقی پسند، سیکولر اور لبرل کہلانے والوں کی ایک بھاری تعداد بھی سوشل میڈیا پر زہر پھیلانے میں صبح شام مصروف ہے اور فورتھ جنریشن وار کے ذریعے ان کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے کہ فوج کے خلاف عوام کے دلوں میں بد گمانیوں کو وسیع کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل کر دیا جائے۔
حالات و واقعات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ براہمداغ بگٹی اور مہران مری اکیلے نہیں بلکہ اور بھی طاقت ور قوتیں پاکستان کے وجود کو نوچنے سے روکنے پر سیخ پا ہو کر پاکستان کی دھرتی کے وجود کو ہی خدانخواستہ مٹانے کے در پے ہو رہی ہیں۔ ان کے فوج اور عدلیہ کے بارے میں بیانات اور خیالات میں جس قدر مماثلت سامنے آئی ہے‘ وہ ہر سچے پاکستانی کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔