تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-03-2013

کیا جنرل کیانی پاکستان کے گورباچوف ہیں؟

اصول کیا ہے؟ سرکارؐ نے کہا تھا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے‘ وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔ انؐ کے قدموں کی خاک چومنے جوگے بھی نہ ہو سکے۔ اب کیا ان کا نام جپنے سے بھی جاتے رہیں؟ خاکم بدہن ان کی ہر بات بھُلا دیں؟ گونگے شیطان ہی بن جائیں؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنا درد کبھی بیان نہیں کرتے‘ حالاں کہ وہ صوفی بہرحال نہیں۔ راہ سلوک کے مسافر پہ ہی وہ ساعت طلوع ہوتی ہے‘ جب وہ دوسروں کو رعایت دینے پر مستقل آمادہ رہتا ہے مگر خود کو کبھی نہیں۔ ایسا غیر معمولی صبر ایک سپاہی میں کہاں سے آ گیا؟۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تو وہ بہت بعد میں بنے لیکن صبر اور گہرا غورو فکر ہمیشہ سے تھا۔ روحانی جہت جنم لیتی تو زمانہ ایک نادر و نایاب آدمی کو دیکھتا۔ اکثر لوگوں کو اکثر معاف کر دیتے ہیں۔ اسامہ بن لادن والے واقعہ کے بعد سلیم صافی نے ناراضی سے کہا: آپ کی بات ماننے کو جی نہیں چاہتا۔ بولے: مت مانیے صرف سن لیجیے۔ ایک ملاقات اس حال میں ہوئی کہ میری ایک تحریر پر سخت صدمے کا شکار تھے۔ اس پر میں نے یہ کہا: اگر دوسروں کے بارے میں وکی لیکس کے انکشاف درست ہیں تو آپ کے بارے میں کیوں نہیں؟ چڑچڑے پن کے ساتھ یہ اضافہ بھی کیا: آپ نے سنا ہوگا جنرل صاحب‘ قلم گوید کہ من شاہِ جہانم۔ بادشاہت قلم کی ہے۔ بے وقت کی بیہودہ بہادری۔ بولے: میں نے آپ سے یہ نہیں کہا کہ میرا مؤقف مانئے‘ مگر سن تو لیں۔ واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے نام ایک تار میں این ڈبلیو پیٹرسن نے لکھا تھا: جنرل نے کہا: میں اسفند یار ولی خان کو صدر بنانا چاہتا ہوں یا ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو۔ کہا: کیا آپ نے تار کا متن پڑھا؟ عرض کیا: سب اخبارات میں ایک ہی خبر تھی‘ پھر اخبار نویس کے پاس وقت ہوتا ہی کب ہے۔ گھنٹہ بھر اخبار‘ گھنٹہ بھر میں کالم۔ متن سنایا اور تضادات بیان کیے: جنرل نے کہا فرماتی ہیں: میں مداخلت نہیں کروں گا‘ اس کے بعد کہتی ہیں کہ میں یہ چاہتا تھا اور یہ چاہتا تھا۔ جب مداخلت کا ارادہ ہی نہ تھا تو منصب کیسے سونپتا۔ اسفند یار ولی خان سے پوچھ لیجیے‘ انہیں زرداری صاحب نے پیشکش کی تھی۔ رہی محترمہ فریال تالپور تو کیا میں پاگل ہوں کہ ایسا احمقانہ خیال پیش کروں۔ دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ میرے رویّہ پر رنج سے جنرل کا حال برا ہے مگر خود کو اس نے تھام رکھا ہے۔ تحقیق کی تو انہیں درست پایا۔ ایک نہیں‘ کئی بار انہیں مجھ سے شکایت ہوئی لیکن وضع داری پر وہ قائم رہے۔ وہ اپنے گھر جا چکیں تو شاید کبھی تفصیل لکھوں‘ آج کا موضوع دوسرا ہے۔ ایک عزیز دوست نے پوری سنجیدگی سے لکھا ہے کہ جنرل نے سیاسی مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا تو تاریخ انہیں پاکستانی گوربا چوف کے طور پر یاد رکھے گی۔ وہ با خبر آدمی ہیں۔ جری اور ریاضت کیش بھی۔ کیا ایسے آدمی کو زیادہ محتاط نہ ہونا چاہیے‘ جو بہت توجہ سے پڑھا جاتا ہو؟ سامنے کا سوال یہ ہے۔ جنرل کو دستور کی پابندی کرنی چاہیے یا نہیں؟ اگر میں سمجھ پایا تو ان کی خواہش ہے کہ جنرل ٹیکنوکریٹس کی حکومت تشکیل دیں‘ جو بے رحمانہ احتساب کرے۔ کیا ایسا انہیں کرنا چاہیے؟ اگر چاہیں بھی تو کیا وہ کر پائیں گے؟ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے چند روز قبل اگر اب تقریباً ناممکن ہے۔ بپھری ہوئی عدالت اور بپھرا ہوا میڈیا۔ سیاسی حمایت کہاں سے ملے گی۔ ممکن ہے پیپلز پارٹی کو سازگار ہو کہ گناہ فوج کے کھاتے میں پڑیں۔ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان‘ کیونکر مانیں گے؟ دونوں کو یقین ہے کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ کیا وہ آسمان سر پہ نہ اٹھا لیں گے۔ عام اور کاروباری لوگ شاید گوارا کریں اور ممکن ہے کہ پرجوش خیر مقدم بھی۔ شاید امریکہ بہادر بھی کہ افغانستان سے واپسی کے ہنگام زیادہ کھلاڑیوں سے واسطہ نہ پڑے۔ سول سوسائٹی اور فعال طبقات قطعاً قبول نہ کریں گے۔ سپہ سالار کی یہ ذمہ داری کیسے ہو گئی کہ وہ شکنجہ کسے؟ فرض کیجیے‘ اقدام وہ کر ہی ڈالیں تو کامیابی کا امکان کتنا ہے؟ ناکام رہے تو مجروح فوج کا حال کیا ہوگا‘ جو احتیاط کے باوجود امریکی کارندوں کی زد میں رہتی ہے۔ عجیب بات ہے اور کتنی عجیب کہ فرد ِجرم ماضی مرحوم کے چار آمروں کے خلاف اور مطعون اس آدمی کو کیا جاتا ہے‘ جو صبر پہ قائم رہا۔ ڈرائیور تک سے ناخوش ہوا تو گاڑی خود چلائی‘ برا بھلا تک نہ کہا۔ ایک نہیں کئی بار زرداری صاحب نے طنز کے تیر چلائے۔ یوسف رضا گیلانی نے جب انہیں دستور اور قانون سے انحراف کا طعنہ دیا تو جواب ضرور دیا‘ میمو گیٹ کے موضوع پر‘ اور پھر وزیراعظم نے تھوکا ہوا چاٹا۔ چند دن بعد ملاقات ہوئی تو اس دن کی بازگشت ان پہ بھاری تھی۔ کچھ دوسری اذیت ناک چیزوں کا بھی ذکر کیا اور بولے: صبر نے مجھے کیا دیا؟ کبھی ڈھنگ کی سوجھ جاتی ہے۔ عرض کیا: صبر رائیگاں ہوتا ہی کبھی نہیں۔ پروردگار کا فرمان ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جنرل صاحب! یہ اجر و ثواب کا معاملہ نہیں۔ آیت واضح ہے ان اللہ مع الصابرین۔ غصّہ پی جانے والے کے باب میں انسانوں کا خالق فریق بنتا ہے۔ اطمینان کی ایک لہر جنرل کے چہرے پر اتر آئی۔ جمہوریت دوسرے عوامل کے علاوہ اس آدمی کے طفیل باقی ہے۔ خیر یہ ان کا فرض تھا‘ کارنامے دوسرے ہیں۔ بدترین حالات میں‘ جب امریکی جنرل اور سی آئی اے مفاہمت کا نام سننے کو تیار نہ تھے‘ کمال مستقل مزاجی کے ساتھ‘ جنرل اس خیال پہ ڈٹا رہا‘ حتیٰ کہ غالب آیا۔ دوسری بار آٹھ ماہ تک امریکی رسد روکی۔ سیاستدان الگ‘ میڈیا نے بھی بے حدّو حساب بخل کا مظاہرہ کیا‘ ناقابلِ یقین بخل۔ چلیے نہ مانیے۔ ایسے بھی اخبار نویس ہیں کہ کپتان کو شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی تک کی داد نہیں دیتے۔ ایسے بھی لیڈر ہیں جو کہتے ہیں کہ کپتان بھِک منگا ہے۔ اپنے لیے بھی پلاٹ لیا۔ سب جانتے ہیں کہ پلاٹ ہسپتال کو دے دیا تھا مگر رانا ثناء اللہ اور مشاہد اللہ کو کون قائل کر سکتا ہے؟ لڑکے نے قسم کھا لی تھی کہ کوّا سفید ہوتا ہے۔ فیصلہ تب صادر ہوتا ہے‘ جب کسی کا کردار تمام ہو جائے اور اس عہدِ رواں کے تعصبات کی شدّت باقی نہ رہے۔ دعویٰ باطل مگر اس ناچیز کی رائے ہے کہ تاریخ اس شخص کو ایک نجیب آدمی کے طور پر یاد رکھے گی۔ حالات کے پانیوں میں بہنے والا گورپا چوف نہیں۔ سوشلزم کی فصل پک گئی تھی۔ پاکستان کو تو 2013ء کے وسط میں انشاء اللہ عہدِ نو کا آغاز کرنا ہے۔ جس چیز کا آدمی مکّلف ہی نہ ہو‘ اس پر احتساب کیسا؟ ہر منصب کے تقاضے ہوتے ہیں۔ جنرل کیانی کی ذمہ داری سیاستدانوں کا احتساب ہرگز نہیں۔ اپنے فرض میں جہاں کوتاہی سرزد ہوئی‘ بات اس پر ہونی چاہیے۔ جنرل کی نہیں‘ یہ قوم کی ذمّہ داری ہے کہ مجرموں کا گریبان پکڑے۔ پولنگ کے دن اور اس کے بعد بھی۔ بارہا لکھا اور سرکارؐ کا فرمان انشاء اللہ ہمیشہ لکھتا رہوں گا: اگر برائی کو روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے۔ وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔ کپتان بولا: جس قلم سے میری مدد کرتے ہو‘ اسی سے وردی والوں کی؟ عرض کیا: جناب والا: ساری دنیا روکتی رہی‘ آپ کا ڈٹ کر ساتھ دیا کہ آپ میڈیا کے مظلوم تھے۔ اب ساری دنیا روکے‘ جہاں وردی والا سچا ہو‘ اس کی حمایت کروں گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔ اصول؟ سرکارؐ نے کہا تھا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے‘ وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔ انؐ کے قدموں کی خاک چومنے جوگے بھی نہ ہو سکے۔ اب کیا ان کا نام جپنے سے بھی جاتے رہیں؟ خاکم بدہن ان کی ہر بات بھلا دیں؟ گونگے شیطان ہی بن جائیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved