تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-09-2017

کلامِ بابا فرید ؒ

خواجہ فریدالدین شکر گنج ؒکے یومِ وصال پر ان کے کلام سے یہ سرسری سا انتخاب ہے ۔ ٹیلی ویژن کی سکرین سے چمٹے واعظوں سے فرصت نصیب ہو تو صوفیا کو پڑھیے۔ کہاں خود پسندی و خود نمائی ، کہاں سوزوگداز اور سچائی۔
جے جاناں تِل تھورڑے ‘ سنبھل بُک بھریں
جے جانا شوہ ننڈھڑا ‘ تھوڑا مان کریں 
تل تھوڑے ہوں تو مٹھی میں احتیاط سے تھامنے چاہئیں۔ محبوب نادان ہو تو بہت بھروسہ اس پہ نہ کرنا چاہئے۔
جے تُوں عقل لطیف ‘ کالے لکھ نہ لیکھ 
آپنے گریوان میں ‘ سِر نِیواں کر دیکھ 
عقل سلیم اگر اللہ نے عطا کی ہے تو کالے حروف نہ لکھ ۔ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر ‘ سر جھکا لے اور اپنے آپ پہ غور کر ۔
جے جاناں لڑ چھجنا ‘ پیڈھی پائیں گنڈھ 
تیں جے وڈ میں نہ کو ‘ سبھ جگ ڈِٹھّا ہنڈھ
اگر میں جانتا کہ محبوب کا آنچل جلد چھوٹ جانے والا ہے تو مضبوطی سے گانٹھ دے لیتا۔ دنیا بھر میں گھوم پھر کے دیکھ لیا۔ تجھ سا عظمت والا دوسرا کوئی نہیں ۔
جو تَیں مارن مکیاں‘ تِنہاں نہ ماریں گُھم 
آپنے گھر جایے ‘ پَیر تِنہاں دے چُم
جو تجھے گھونسے ماریں ‘ پلٹ کر انہیں کچھ نہ کہنا۔ ان کی قدم بوسی کرنا اور اپنے گھر کی راہ لینا۔
دیکھ فریدا جو تھیا ‘ داڑھی ہوئی بُھور
اگا نیڑے آیا ‘ پِچھا رہیا دُور 
اے فرید ! دیکھ کیا ہوا۔ داڑھی کے بال سفید ہوگئے ۔موت کا وقت قریب آپہنچا اور جوانی بہت پیچھے رہ گئی۔
دیکھ فریدا جو تھیا ‘ سکرّ ہوئی وِس
سائیں باجھوں آپنے ‘ ویدن کہیے کِس
دیکھ اے فرید کیا ہوا۔ میرے سامنے پڑی شکر زہر بن گئی ۔ اپنے آقا کے سوا‘ کس سے اب فریاد کریں ۔
اکھیں دیکھ پتینیاں ‘ سُن رِینے کن 
ساکھ پکندِی آئی آ ‘ ہور کریندی وَن 
دنیا کے کھیل تماشوں کو دیکھتے ‘ آنکھیں پتھر ا گئیں ۔ زندگی کی کھیتی پکنے لگی ۔ اب وہ کوئی اور ہی رنگ دکھاتی ہے ۔
جن لوئن جگ موہیا ‘ سَے لوئن میں ڈِٹھ
کجل ریکھ نہ سہندیاں ‘ سَے پنکھی سُوئے بِہٹھ
جن آنکھوں نے دنیا کو دیوانہ بنا رکھا تھا ‘ وہ آنکھیں میں نے دیکھی ہیں۔ جو کاجل کا بوجھ نہ اٹھا سکتی تھیں۔ ان میں پرندوں نے گھونسلے بنائے اور بچے دیئے۔
کوکیندیاں ‘ چاکیندیاں ‘ مَتّیں دیندیاں نِت
جو شیطان و نجایا ‘ سے کِت پھیرے چِت
چیخ و پکار اور فریاد کہ دانش کی راہ اختیار کرو۔ جن کے قلب و دماغ پہ مگر شیطانی سوار ہے ‘ کیسے وہ لوٹ کر آئیں۔
تھیو پو اہی دَبھ ‘ جے سائیں لوڑیں سبھ
اِک چھِحیّ ‘ بیالتاڑیے ‘ تاں سائیں دے دَر واڑیے 
اے فرید ‘ اللہ کی ہمسائیگی کا آرزو مند ہے تو راستے میں پڑی گھاس کی طرح ہو جا۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہی گھاس چٹائی بن سکتی ہے ‘ ورنہ وہی بے مصرف ۔
فریدا خاک نہ نِندِیے ‘ خاکو جیڈ نہ کوئِ
جیوندیاں پَیراں تلے ‘ مویاں اُپر ہوئِ
مٹی کو کیوں برا کہیے ‘ کیونکر حقیر جانئے‘ جیتے جی وہ ہمارا بوجھ اٹھاتی ہے۔ موت کے بعد ‘ ہماری چھت اور پناہ۔
جاں لوبھ تاں نینہہ کیا ‘ لُب تاں کُوڑا نینہہ
کِچر جھٹ لنگھایئے ‘ چھپر ٹُٹیّ مینہہ
جہاں لالچ کار فرما ہو ‘ محبت کا وہاں کیا کام ۔ بوسیدہ چھت کے نیچے موسلادھار بارش میں کہاں اور کیسی پناہ ۔
جنگل جنگل کیا بھویں ‘ وَن کنڈا موڑیں
وسّی رَب ہیا لیے ‘ جنگل کیا ڈُھونڈیں
جنگل جنگل کیوں گھوم رہے ہو۔ درختوں میں کیا ڈھونڈتے ہو ۔ اللہ کا ٹھکانا آدمی کا دل ہے ‘ تم اسے بیاباں میں تلاش کرتے ہو۔
لوڑے داکھ بجوڑیاں ‘ کِکرّ بیجے جٹ
ہنڈھے اُن کتائے دا ‘ پیدھا لوڑے پٹ
کساں کو دیکھا کہ باجوڑی انگور کی امید میں کیکر بو رہا ہے۔ جولاہے کو دیکھتا ہوں ‘ اون کات رہا ہے اور من میں ریشم اوڑھنے کی تمنا پالتا ہے۔
بِھّجو سِجوّ کمبلی ‘ اللہ ور سو مینہہ
جائِ مِلاں تِنہاں سجناں ‘ ٹُٹو ناہیں نینہہ
ملبوس بھیگتا ہے تو بھیگتا رہے۔ تو اپنی رحمت کی بارش ضرور برسانا۔ مجھے اس سے ملاقات کے لئے ضرور جانا ہے کہ محبت کا بندھن ٹوٹ نہ جائے ۔
مَیں بھولاوا پگ دا ‘ مت میلی ہو جائے
گیہلا روح نہ جان اِی ‘ سر بھی مِٹی کھائے 
میں یہ اندیشہ پالتا رہا کہ دنیا کے گردوغبار میں میری پگڑی میلی نہ ہو جائے۔ بے خبر اور انجان ‘ مجھے معلوم نہ تھا کہ ایک دن سارا پیکر ہی مٹی کی نذر ہو جائے گا۔
فریدا روٹی میری کاٹھ کی ‘ لاون میری بھکھ 
جنھاں کھادی چوپڑی ‘ گھنے سہن گے دُکھ
فرید ‘ میری روٹی لکڑی کی بنی ہے ‘ بھوک اس کا سالن ہے ۔ عیش و آرام میں جوبسر کر یں گے ‘ دکھ بھی وہی جھیلیں گے ۔
رُکھیّ سُکی کھائِ کے ‘ ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرائی چوپڑی ‘ نہ ترسائیں جی
روکھی سوکھی کھالے ‘ ٹھنڈا پانی پی لے اور شادمان رہ ۔ دوسروں کے مال و دولت پہ نظر کرے گا تو کبھی شادمان نہ ہوگا۔
فریدا چنت کھٹولا ‘ وان دُکھ ‘ برِ ہ و چھاون لیف
ایہہ ہمارا جیونا ‘ تُوں صاحب سچیّ ویکھ 
دیکھ لے ‘ اے ہمارے سچے صاحب ۔ غورو فکر ہمارا بستر ہے ۔ گداز اس کا بان اور جدائی ہمارا لحاف ‘ بس ‘ یہی زندگی ہماری ہے ۔
فریدا ایہہ وِس گندلاں دَھریاں کھنڈ لِواڑ
اِک راہیندے رہ گئے ‘ اِک رادھی گئے اُجاڑ
زہریلی گندلیں ہیں ‘ جو ہمیشہ شکر آلود نظر آتی ہیں۔ زندگی بس یہی ہے کہ کچھ اس فصل کی آبیاری میں لگے رہتے ہیں اور کچھ فصل کٹنے سے پہلے ‘ زندگی تیاگ دیتے ہیں۔
چار گوائیاں ہنڈھ کے ‘ چار گوائیاں سَم
لیکھا رَبّ منگیسیا ‘ توں آیوں کیہڑے کم ؟
دن کے آٹھ پہروں میں چار تو گھوم پھر کے بتا دیئے ۔ چار پہر نیند میں بیت گئے ۔مالک اب پوچھتا ہے ‘ کس کام سے میں نے تمہیں دنیا میں بھیجا تھا۔
بار پرائے بیسنا ‘ سائیں مجھے نہ دیہہ
جے تُوں ایویں رکھسی ‘ جیو سریروں لیہہ
مالک ! اپنے سوا کسی کا ٹھکانہ نصیب نہ کر ۔ غیر کادر اگر مقدر ہے تو یہ زندگی واپس ہی لے لے ۔
فریدا اِکناں آٹا اگلا ‘ اِکناں ناہیں لون
اگے گئے سنجاپسن ‘ چوٹاں کھاسی کون
ایک وہ ہیں کہ خورو نوش کے انبار دھرے ہیں۔ ایک وہ کہ نمک بھی میسر نہیں۔ ایک دن آیئے گا کہ سب کچھ آشکار ہوگا ۔ یہ کہ ملامت اور مصیبت کس کا مقدر ہے۔
خواجہ فرید الدین شکر گنجؒ کے یومِ وصال پر ان کے کلام سے یہ سرسری سا انتخاب ہے ۔ ٹیلی ویژن کی سکرین سے چمٹے واعظوں سے فرصت نصیب ہو تو صوفیا کو پڑھیے۔ کہاں خود پسندی و خود نمائی ، کہاں سوزوگداز اور سچائی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved