تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     23-09-2017

یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چل سکتی!

حالات عجیب ہیں اور اِن کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حکومت ہے بھی اور نہیں بھی۔ بظاہر چل بھی رہی ہے اور فالج کا شکار بھی ہے۔ حکومت کے تمام عہدے دار اور پرزہ جات اپنی اپنی جگہ پہ موجود ہیں لیکن طاقت کا مرکز شفٹ ہو چکا اور فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ مجرموں کی لسٹ پہلے ہی لمبی ہے لیکن مزید لمبی ہو رہی ہے۔ آئے روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں اور عرصے تک بند دروازے کھل رہے ہیں۔ سب سے انوکھی بات بہرحال یہ ہے کہ مجرمان ابھی تک حکومت میں بھی ہیں۔ مرکز میں بھی یہی لوگ بیٹھے ہیں اور پنجاب بھی انہی کے زیر اثر ہے۔ 
واقعہ کے تین سال بعد لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کا آرڈر آتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کے بارے میں جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے اور حکومت پنجاب تلملا اٹھتی ہے۔ ان ہنرمندوں کو کون سمجھائے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ باقر نجفی رپورٹ پہ پردہ ڈالے رکھنا اب ناممکن ہے۔ ن لیگی قیادت جو جتن بھی کر لے، جن اپیلوں میں بھی جائے، اس رپورٹ کو منظر عام پہ آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی؟۔
یہ عجیب صورتحال کہ مجرم بھی ہیں اور حکومت میں بھی، کتنی دیر چل سکے گی؟ اسے ٹوٹنا ہی ہے لیکن کون سا نسخہ یا ترکیب کارگر ثابت ہو گی؟ ڈیڈ لاک کی اس صورتحال کو کون توڑے گا اور کیسے؟ کچھ ذہنوں میں آنے والے دنوں کا خاکہ موجود ہو سکتا ہے‘ لیکن عام فہم میں موجودہ صورتحال کا آسان حل نظر نہیں آتا۔ گزرے وقتوں میں تو کب کی فوج آ چکی ہوتی اور سویلین حکومت کا تختہ گول ہو چکا ہوتا۔ یا جب صدر مملکت کے پاس قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا آئینی اختیار موجود تھا تو اب تک جمہوریت کا تمام سازوسامان اٹھایا جا چکا ہوتا۔ لیکن ہم ایک twilight zone میں ہیں۔ اَندھیرا بھی ہے اُجالا بھی۔ روشنی مکمل طور سے نہیں گئی لیکن مکمل اندھیرا بھی نہیں ہوا۔
بیگم کلثوم نواز کا علاج ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ہو رہا ہے۔ وہاں ہر بات مکمل رازداری میں رکھی جا سکتی ہے‘ لیکن سابق وزیر اعظم اپنی اہلیہ کی عیادت کرنے جاتے ہیں اور مریم صفدر اُن کے ساتھ ہوتی ہیں تو سوشل میڈیا پہ فوراً ہی تصویریں جاری ہو جاتی ہیں۔ یہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس لئے کہ لوگوں کے دلوں میں ہمدردی کی لہر پیدا ہو؟ کیا دل میں کوئی خیال ہے اور وہ عوام الناس کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز واقعی بہت بیمار ہیں؟ ان تصویروں کی نمائش کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ لیگی قیادت کا شور شرابہ بہت حد تک ختم ہو چکا۔ بغاوت کا بخار بھی ٹھنڈا پڑ چکا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایک اور جلا وطنی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں نواز شریف یہ رسک لیں گے کہ وطن واپس لوٹیں اور احتساب عدالتوں کا سامنا کریں؟ اسحاق ڈار کی حالت تو خراب ہے ہی۔ اُن کی تصویروں سے اُن کے کَرب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیب عدالت کے وارنٹوں کی تعمیل اُن کے گھر پہ ہو چکی ہے۔ انہی کی ہمت ہے کہ اب تک وزارتِ خزانہ کے عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔
شریف خاندان کے خلاف سب سے خطرناک مقدمہ المعروف حدیبیہ پیپرز ملز کا ہے۔ 2014ء میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک دوستانہ فیصلے کی بدولت یہ کیس ختم کر دیا گیا تھا۔ اُس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ مردہ کبھی قبر سے پھر اٹھ کھڑا ہو گا؟ لیکن ایسا ہی ہو رہا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی نیب کو اُس پرانے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانا پڑا ہے۔ فیصلہ تو ابھی ہونا ہے لیکن جس طرح کی ہوائیں ملک میں چلنا شروع ہو گئی ہیں اس سے خیال کیا جا سکتا ہے کہ حدیبیہ کیس پھر سے کھلنے والا ہے۔ شریف خاندان کے لئے اس کیس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اِس میں جناب اسحاق ڈار، شریف خاندان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے اور اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کئے گئے لمبے چوڑے اعترافی بیان میں شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تمام کے تمام راز اُگل دیے تھے۔ یہ ساری داستان تحریر شدہ ہے۔ متعدد بار اسحاق ڈار نے مختلف تاویلوں کا سہارا لیا کہ فوجی حکومت کا دور تھا اور بیان دباؤ کے تحت دیا گیا۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بیان کے مندرجات سے کبھی بھی وہ انکاری نہیں ہوئے۔ اس کیس کے تحت پھر سے کارروائی شروع ہوئی تو یہ لوگ کہاں چھپیں گے؟
مشرف دور میں تو بہانہ آسان تھا کہ فوجی ڈکٹیٹر ہے اور من گھڑت مقدمات کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ اب تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ شریف خاندان کی اپنی پارٹی اقتدار میں ہے، میڈیا آزاد ہے اور عدالتیں بھی کسی آمر کے تابع نہیں۔ ایسے میں یہ لوگ دفاع میں کیا جواز پیش کریں گے؟ اسی لئے یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ یہ لوگ ملک سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھیں گے۔
سیاستدانوں پہ بُرا وقت آ رہا ہے۔ لیگی قیادت کی حالت تو سامنے ہے اور اب شاید پہلی بار کسی جاندار آواز نے کھل کے الزام لگایا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے اصل قاتل آصف علی زرداری ہیں۔ کم لوگ ہی جنرل مشرف کو اس مسئلے میں مستند گواہ سمجھیں گے‘ لیکن انہوں نے جو نکات اٹھائے ہیں باآسانی جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ اُن کا پوچھنا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل سے فائدہ کس کو ہوا؟ اُنہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو لیاقت باغ جلسے کے اختتام پر بحفاظت اپنی گاڑی میں پہنچ چکی تھیں تو کس کے کہنے پہ وہ پھر سے سن روف سے نمودار ہوئیں؟ اُن کا مزید کہنا ہے کہ شہنشاہ نامی آدمی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔ کس کے کہنے پر وہ بے نظیر بھٹو کی حفاظت پہ مامور ہوا؟ اور پھر یہی شہنشاہ پراسرار طریقے سے کراچی میں قتل کردیا گیا۔ کس کا ہاتھ اس قتل کے پیچھے تھا؟
مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں تو اُن کے بچوں سے پوچھا جانا چاہیے۔ وہ کس کو مجرم گردانتے ہیں؟ کلفٹن تھانے کا بدنصیب ایس ایچ او پراسرار طریقے سے قتل ہوا۔ اُس وقت کراچی میں تعینات سب سینئر پولیس افسران کی زرداری دور میں ترقیاں ہوئیں۔ سندھ کی حالیہ تاریخ کے حوالے سے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن پر اَب تک پردہ پڑا رہا۔ کون جانے کہ پردہ کبھی اٹھتا ہے یا نہیں لیکن پہلی بار کسی نے کھل کے زرداری پہ ایسے الزام لگائے ہیں۔ نجی محفلوں میں بیٹھیں تو ایسی داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ کانوں کو یقین نہیں آتا۔ ہماری جمہوریت کا یہ کرشمہ ہے کہ چاہے ایم کیو ایم ہو‘ آصف علی زرداری ہوں، یا پنجاب میں شریفوں کے کارنامے، ان داستانوں کے بارے میں چُپ رہنا ہی بہتر سمجھا گیا۔ اب رُت بدلی ہے تو لب کُشائی ہو رہی ہے۔
کم لوگ ہی مانیں گے کہ موسم کی تبدیلی 2014ء کے وسط سے شروع ہوئی‘ جب فوج نے فاٹا میں کارروائی کا آغاز کیا‘ اور ساتھ ہی ساتھ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کو توڑنے کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے۔ اُس وقت سے نئے ماحول کا آغاز ہوا اور طاقت کا توازن سیاستدانوں کے ہاتھوں سے ہٹنے لگا۔ دہشت گردی کا خطرہ زور نہ پکڑتا اور افواج بنیادی فیصلے کرنے پہ مجبور نہ ہوتیں تو پرانی صورتحال قائم رہتی‘ اور ن لیگیوں اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پاناما کیس بعد میں اُبھرا۔ طاقت کے توازن میں تبدیلی پہلے آ چکی تھی۔ وہ تبدیلی نہ آتی تو جو واقعات ہم قومی منظرنامے پر اب دیکھ رہے ہیں‘ شاید نمودار نہ ہوتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved