تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     23-09-2017

ڈونلڈ ٹرمپ کااقوامِ متحدہ سے خطاب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریباً چالیس منٹ افتتاحی خطاب کیا اور یہ اس ادارے سے ان کا پہلا خطاب تھا۔ ہماری ناپسندیدگی کے باوجود امریکی پالیسیاں دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں ، لہٰذا ہمیں اپنی پالیسی بنانے کے لیے ٹرمپ کے خطاب کے متن اوربینَ السُّطور کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اُس کے اہم نکات ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔ٹرمپ نے پاکستان کا نام تو نہیں لیا، لیکن طالبان کے حمایتی ممالک کو نشانے پر رکھا ، اب ہمیں سوچنا ہے کہ ٹرمپ کی نظر میں طالبان کا حمایتی ملک کون ہوسکتا ہے ؟۔
ہمارے سیاستدان جب ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے انتہائی سطحی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ یہ وہ عالی مرتبت اذہان ہیں،جن کے ہاتھ میں ہمارے ملک کا مستقبل ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے وزیرِ خارجہ کے اس بیان پرکہ : ''ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنی چاہیے‘‘،تنقید کی اور اسے ''وطن دشمنی‘‘ سے تعبیر کیا، اسی بیان کو بعد میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ نے بھی اپنایا ۔چوہدری نثار علی خان صاحب کے دعوے کے مطابق ہمارا گھر بالکل صاف ہے اور صفائی بھی کرنی ہو توچپکے چپکے سے کرنی چاہیے تاکہ دنیا کو پتا نہ چلے ،ورنہ رسوائی ہوگی ۔چوہدری صاحب بتائیں کہ اگرہمارا گھر بالکل صاف ہے،توہمارے ملک میں ''راہِ نجات‘‘،''ضربِ عضب‘‘ ،''ردُّ الفساد‘‘ اور''خیبرون ٹو فور‘‘کے نام سے مختلف آپریشنز کیا چپکے چپکے اور چھپتے چھپاتے ہوتے رہے ہیں ، ہمارے ملک میںپولیس کے علاوہ فرنٹیئر کور، رینجرز اور فوج کیوں مصروفِ عمل ہیں،کیا دنیا کواس کی خبر نہیں ہے ،جبکہ ہماری حکومت اور فوجی قیادت اس کا ذکر افتخار کے ساتھ کر رہے ہیں اوردنیا سے اس کارکردگی کے اعتراف اور سندِ توثیق کے خواہاں ہیں ۔بعد میں جنابِ خورشید شاہ نے بھی چوہدری صاحب کی تائید کی ،سو ہمارے سب ہی رہنما باکمال ہیں ، اندھیرے میں تیر چلانا اور نمبر بناناکوئی ان سے سیکھے۔ جبکہ جنابِ چوہدری نثار علی خان خودایک چینل پرانٹرویو میں فرماتے ہیں :''پاکستان کو اتنے بڑے خطرات درپیش ہیں کہ اُن سمیت پانچ اہم شخصیات کے سوا کسی کو خبرہی نہیں ہے ‘‘۔یہ بات بھی آپ نے چپکے سے کسی کے کان میں کہہ دی ہوتی ، ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں ''حب الوطنی ‘‘اور ''وطن دشمنی‘‘ کا معیار کیا ہے؟۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کی معیشت اِرتقا پذیر ہے ،گزشتہ سولہ سال میں آج بیروزگاری کی شرح سب سے کم ہے اور کمپنیاں ملازمتوں کے مزیدمواقع پیدا کر رہی ہیں، ہمارا اسٹاک ایکسچینج تاریخی بلندیوں پر ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم نے دفاع کے لیے سات کھرب ڈالر مختص کیے ہیں ، عنقریب ہماری مسلّح افواج اپنی تاریخ کی مضبوط ترین پوزیشن میں ہوں گی۔ سیّارۂ ارضی سائنسی ارتقا کی معراج پر ہے ،مگر ہر آنے والا دن ہمارے لیے خطرات لے کر آرہا ہے ۔ دہشت گرد اور انتہا پسند اپنی قوتوں کو مجتمع کر کے زمین پر پھیل چکے ہیں اور ''بدمعاش حکومتیں ‘‘ان کی مدد گار ہیں۔بین الاقوامی مجرموں کا نیٹ ورک اسلحے اور نشہ آور اشیاء کی ترسیل میں مصروف ہے ۔
امریکہ بڑی طاقت ہونے کے باوجود تحمّل کا مظاہرہ کر رہا ہے،لیکن اگر اسے اپنے اوراتحادیوں کے دفاع پر مجبور کیا گیا، تو ہمارے پاس شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے سوا دوسرا آپشن نہیں رہے گا۔انہوں نے شمالی کوریا کے صدر پر''راکٹ مین‘‘ کی پھبتی کستے ہوئے کہا :''وہ اپنی اور اپنی حکومت کے خود کش مشن پر ہیں ، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں طنز کے طور پر ''دھرنا خان‘‘کی پھبتی کسی جاتی ہے ۔
ماضی میں امریکی صدور جمی کارٹر اور بل کلنٹن وغیرہ حقوقِ انسانی اور جمہوری اَقدار کی پاسبانی کا پرچم بلند کرتے رہے ہیں ، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں''امریکی اسلامی اتحاد ‘‘اور اب اقوامِ متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ہم دیگر ممالک پر دبائو نہیں ڈالیں گے کہ وہ ہماری تہذیب، روایات اور نظامِ حکومت کو اپنائیں ‘‘۔ اس سے یقینا ملوکیت اور آمریت والی حکومتیں اطمینان کا سانس لیں گی کہ اب امریکہ انہیں برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔البتہ انہوں نے کہا: ''انہیں اپنے عوام کے مفادات اور تمام خود مختار اقوام کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی‘‘ ۔انہوں نے کہا:'' امریکہ ہمیشہ پوری دنیا اور خاص طور پر اپنے اتحادیوں کا عظیم دوست رہے گا،لیکن معاہدے یک طرفہ نہیں ہوں گے جن کے عوض امریکہ کو کچھ نہ ملے، یعنی امریکہ کے بین الاقوامی معاہدات مالی مفادات پر مبنی ہوں گے ۔جب تک میں صدرِ امریکہ ہوں ،اپنی قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی پاسداری کروں گا کہ دنیا کی تمام اقوام کی خود مختاری ،فلاح اور امن کا احترام کیا جائے‘‘ ۔انہوں نے شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے متفقہ قرارداد پاس کرانے پر چین اور روس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے ایران پر شدید تنقید کی کہ جمہوریت کی آڑ میں یہ بدترین آمریت ہے ۔ایران کی تاریخ اور تہذیب تابناک رہی ہے ،مگر اب اُسے ایک دم توڑتی ہوئی معیشت میں بدل دیا گیا ہے ،اس کی سب سے بڑی برآمد تشدد، خوں ریزی اور انتشار ہے، اس کے مظالم کا شکار سب سے زیادہ اس کے اپنے عوام ہیں ، یہ پرامن عرب ہمسایوںاور اسرائیل کے لیے خطرہ ہے ، تیل کا منافع اپنے عوام کے بجائے ''حزب اللہ‘‘ اور'' بشارالاسد ‘‘کی آمریت اور یمن بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو برباد کرنے پر خرچ کر رہی ہے۔ایران سے جوہری معاہدہ بدترین اور یک طرفہ تھا، یہ معاہدہ ہمارے لیے پریشان کن ہے ۔ہم ایک قاتل حکومت کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ خطرناک میزائل بنا کر دنیا کو عدمِ استحکام سے دوچار کرے ۔الغرض ٹرمپ نے ایران پراپنے خطاب کا کافی وقت صَرف کیا اور یہ سعودی عرب کے ساتھ چار سو ارب ڈالر کے معاہدے کا ایک اطمینان بخش صلہ تھا۔انہوں نے گزشتہ سال سعودی عرب میں پچاس عرب اور مسلم ممالک کے اجتماع سے خطاب کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا ۔
انہوں نے کہا :ہم اسلامی دہشت گردی کو لازماً روکیں گے ،ہم اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں اور دوسری دنیا کو رلائیں ، ہم دہشت گردوں کے کمینہ اور منحوس نظریات کے لیے سیّارۂ ارضی پرکوئی جنت ، آزادانہ نقل وحمل اور مالی وسائل کی اجازت نہیں دیں گے ۔ انہوں نے القاعدہ، حزب اللہ اور طالبان کو تمام فساد کا ذمے دار قرار دیا،جو بے قصور لوگوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس خطاب میں نہ پاکستان کا نام براہِ راست لے کر دھمکی دی ، نہ ہی عَلانیہ مودی اور اشرف غنی کی پیٹھ تھپکی ، لیکن گزشتہ ماہ آرلنگٹن فوجی اڈے پر کیے گئے اپنے خطاب پر کاربند رہنے کا عزم ظاہر کیااور کہا: افغانستان میں کب تک رہنا ہے اور ملٹری آپریشنز کا دائرۂ کار کیا ہوگا، اب ہم اپنی سلامتی کے مفادات کے تحت سارے امور طے کریں گے اور افغانستان سے نکلنے سمیت کسی چیز کے لیے کوئی حتمی ٹائم ٹیبل نہیں دیں گے، سو ہم نے طالبان اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے اپنے اصول تبدیل کردیے ہیں ۔واضح رہے کہ ٹرمپ کا یہی خطاب وقتی طور پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوری کا باعث بنا ہے ۔انہوں نے کہا:''شام اور عراق میں داعش کے خلاف ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ہم شام کے مسئلے کا ایساسیاسی حل تلاش کریں گے جو شامی عوام کے لیے قابل قبول ہو،انہوں نے بشارالاسد کی حکومت کے بے قصور بچوں اورشہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسی باعث ہم نے اُس ہوائی اڈے پر میزائل داغے‘‘ ۔الغرض بادی النظر میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی سعودی عرب کے ایجنڈے کے قریب تر ہے اور ایران اور بشارالاسد کے خلاف ہے ۔
پس مشرقِ وُسطیٰ میں صورت حال کافی پیچیدہ ہے ،بشار الاسد کے حوالے سے امریکا، سعودی عرب اور ترکی کا ایجنڈا یکساں ہے، جبکہ روس اور ایران بشارالاسد کی پشت پناہی کر رہے ہیں،الغرض مختلف ممالک کے اہداف جدا ہیں ۔ اسی طرح قطر کے مسئلے پر ایران اور ترکی کا موقف یکساں ہے ،جبکہ سعودیہ اور اتحادیوں کا موقف مختلف ہے،یہی صورتحال کُردریفرنڈم کی ہے۔پس مسلم ممالک منقسم ہیں اور سب سے زیادہ مشکل پاکستان کے لیے ہے۔ہمارے برادر مسلم ممالک انڈیا کو گنجائش دینے کے لیے تیار ہیں کہ وہ بیک وقت سعودی عرب اور ایران کے ساتھ دوستی اور اعتماد کا رشتہ قائم رکھے، لیکن پاکستان کی حساس پوزیشن کا ادراک کرتے ہوئے اسے یہ رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بش ڈاکٹرین برتا جاتا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن ، کوئی درمیانی آپشن نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا: امریکہ اربوں ڈالر خرچ کرتا رہا ہے ،مگر اب امریکہ پناہ گزینوں کی واپسی کو اپنی پالیسی کا محور بنائے گا۔ہم امریکہ میں ایک پناہ گزین کو آباد کرنے پر جتنا خرچ کرتے ہیں ،اس رقم میں ہم دس افراد کو ان کے ملک میں بحال کرسکتے ہیں ۔ G-20ممالک کی پالیسی کو محفوظ ،ذمے دارانہ اور انسانیت نواز قرار دیا ہے کہ پناہ گزینوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔ پناہ گزینوں کے حوالے سے مغرب کی ماضی کی پالیسی کو اپنے لیے سبق آموز قرار دیا ۔لیکن وہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا بیڑ ا اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں ،اسی طرح پاک افغان سرحد کے اس پار کے تمام مسائل کا ذمہ دار بھی ہمیں قرار دے رہے ہیں، کیونکہ '' غریب کی جورو سب کی بھابھی‘‘۔انہوں نے کیوبا اور وینزویلا کے بھی لتے لیے اور کہا: ہم اقوامِ متحدہ کے بجٹ کا بائیس فیصد بوجھ اٹھارہے ہیں، یہ نامناسب ہے ، سب کو اپنے تناسب سے بوجھ اٹھانا چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر دور کے فرعون کے نزدیک حقوق سے مراد جابروں کے حقوق ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کے منہ سے آتش زدہ ،کَٹے پھَٹے،لُٹے پِٹے ،لباس تار تار اور دربدر روہنگیا مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved