تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-09-2017

بابا، بم اور میزائل

بھارت کی ریاست ہریانہ کے مشہور (اور اب خاصی حد تک بدنام بھی) آشرم ڈیرا سچّا سودا کے ''گرو گرمیت رام رحیم سنگھ جی انسان‘‘ کو دو لڑکیوں سے زیادتی کے جرم میں بیس بیس سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُس کے اکاؤنٹس سے دونوں متاثرہ لڑکیوں کو ہرجانہ بھی دلوایا جارہا ہے۔ 
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ نے جیل سے بھاگنے کی کوشش بھی کی جو ناکام بنادی گئی۔ سزا سنائے جانے کے وقت وہ عدالت میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ سزا سنائے جانے سے قبل تین ریاستوں میں بابا جی کے چاہنے والوں نے بہت ہنگامہ برپا کیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں سے تصادم بھی ہوا جس کے نتیجے میں 35 افراد مارے گئے۔ 
روحانیت کی بات کرنے والے بابے عام طور پر بہت پُرسکون طبیعت کے حامل اور خاموش طبع ہوتے ہیں۔ ڈیرا سچّا سودا کے گرو خاصے رنگین مزاج نکلے۔ انہوں نے وہی طریقہ اپنایا جو آں جہانی رجنیش عرف اوشو نے اپنایا تھا۔ رجنیش نے روحانیت کے نام پر جنسی بے راہ روی کی ترغیب دی اور ہزاروں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ کسی زمانے میں فلم میکر پرکاش مہرہ کے علاوہ اپنے وقت کا معروف اور کامیاب اداکار ونود کھنہ بھی رجنیش کا چیلا تھا اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر کچھ مدت کے لیے فلمی دنیا سے کنارہ کش بھی ہوگیا تھا۔ 
گرو گرمیت کا معاملہ بھی بھارتی قوم کے لیے دھماکے سے کم نہ تھا۔ جب ڈیرا سچّا سودا کے معاملات سامنے آئے تو لوگ دنگ رہ گئے۔ جو لوگ کسی خوف سے چپ تھے وہ بھی بولنے لگے اور انہوں نے بتایا کہ گرو گرمیت سنگھ کے آشرم میں بہت سی غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں۔ انکشافات کے دھماکے اب تک ہو رہے ہیں۔ تازہ ترین انکشافی دھماکا یہ ہے کہ گرو گرمیت سنگھ ایک ایسی پرائیویٹ ملیشیا تیار کرنا چاہتا تھا جس کے پاس کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جدید ترین بم اور میزائل بھی ہوں! 
بہت سوںکے لیے یہ بات حیرت انگیز ہوگی مگر ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں حیرانی کی کوئی بات ہے۔ ایسی باتوں سے حیرانی کیوں ہوں؟ لطیفے تو ہنسنے ہنسانے کے لیے ہوتے ہیں! سیدھی سی بات ہے، جو کچھ گرو گرمیت سنگھ اپنے آشرم میں کر رہا تھا وہ کیا کسی بم سے کم تھا! رجنیش کے بعد بھارت کو ایک اور گرو ملا تھا جو اخلاقی حدود و قیود سے پرے لے جانے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا تھا اور ایسا کر گزرنے کا حوصلہ بھی۔ 
ہندی اخبار جاگرن نے خبر دی ہے کہ گرو گرمیت سنگھ نے پنجاب کے ایک انتہائی باصلاحیت نوجوان برندر سنگھ کو بلایا تھا تاکہ اس سے میزائل اور بم کے ماڈل کی تیاری کے حوالے سے بات کرسکے۔ برندر سنگھ ایک ذہین اور محنتی نوجوان ہے جس کی صلاحیتوںکو بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے بھی سراہا تھا۔ گرو گرمیت سنگھ نے برندر سنگھ کو اپنے پرائیویٹ رومز تک آنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ ہوسکتا ہے برندر اِسی بات سے ڈر گیا ہو! روزنامہ جاگرن نے مزید بتایا ہے کہ گرو گرمیت کا بیٹا بھی برندر سنگھ سے دوستی گانٹھنا چاہتا تھا تاکہ بم اور میزائل کی تیاری میں معاونت پر اُسے آمادہ کیا جاسکے۔ برندر واقعی ذہین نکلا کہ باپ بیٹے کی باتوں میں نہ آیا۔ اگر کہیں وہ اِس مایا جال میں پھنس جاتا تو مرتے دم تک نکلنے کا راستہ ہی ڈھونڈتا رہ جاتا، سائنسی ذہن کھڈے لین لگ جاتا! 
روحانیت کے نام پر انتہائی ذاتی مفاد کی دکان کھولنے والے ہر بابا کے پاس ایک بم ضرور ہوتا ہے ... شارٹ کٹ اور بے راہ روی کا بم! نام نہاد روحانیت کا پرچار کرنے والی کسی بھی شخصیت کے پاس جائیے، ایک بات ضرور سنائی دے گی ... ''سنسار جو کہتا ہے کہنے دو، کرو اپنے من کی۔ یعنی اگر دنیا نے کسی معاملے کو اخلاقی حدود و قیود کا پابند کیا ہے تو آپ کو اس پابندی کا احترام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ تمام حدود و قیود آپ کے لیے نہیں۔ کوئی بھی قانون، ضابطہ یا اصول آپ کے لیے نہیں بنایا گیا۔ ان کا احترام کرنے والے گھامڑ ہیں، آپ گھامڑ ثابت نہ ہوں! یعنی جو جی میں آئے بہت سکون سے کیجیے اور ظرف، ضمیر وغیرہ کے بارے میں سوچنے کی زحمت بالکل گوارا مت کیجیے!‘‘ 
نئی نسل کو اور کیا چاہیے؟ وہ یہی تو چاہتی ہے۔ کوئی روکے نہ ٹوکے۔ اور یوں صنفِ مخالف میں محسوس کی جانے والی فطری کشش کو محبت کا خوبصورت نام دے کر نئی نسل کو جنسی معاملات میں صریح بے راہ روی کے راستے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ رجنیش نے اس معاملے میں تمام حدیں پار کرلیں۔ وہ خود بھی بے راہ روی کا قائل تھا اور اپنے پیروکاروںکو بھی شدید اور انتہائی بے راہ روی کی طرف لے جانے کی بھرپور کوشش کرتا تھا۔ جن کی سمجھ میں بات آجاتی تھی وہ روحانیت کے نام پر پھیلائے ہوئے اس گورکھ دھندے کو خیرباد کہتے ہوئے کنارہ کش ہو جاتے تھے۔ جو لوگ ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک پہنچ چکے ہوتے تھے وہ اپنے مقدر پر لعنت بھیجتے ہوئے مکمل بربادی کو گلے لگالیتے تھے! 
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کی شکل میں رجنیش نے نیا جنم لیا اور اُس کا یہ نیا جنم اپنے مقاصد کے حصول میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ گرو گرمیت سے قبل احمد آباد میں آسا رام باپو نے بھی رجنیش کا ''اوتار‘‘ بننے کی تھوڑی بہت کوشش کی تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ بھی کئی لڑکیوں سے زیادتی کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ''آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کی مالا جپ رہے ہیں! گرو گرمیت نے رجنیش کا انداز اپناکر نئی نسل کو اپنا ایسا دیوانہ بنایا کہ جب اُسے گرفتار کیا گیا تو ہزاروں افراد پر مشتمل کئی جتھے سڑکوں پر نکل آئے اور معمول کی زندگی کو درہم برہم کر ڈالا۔ اندھی عقیدت اِسی کو کہتے ہیں۔ گرو گرمیت سنگھ کے بارے میں جو داستانیں اب عام ہو رہی ہیں ویسی ہی داستانیں پہلے بھی عام ہوتی رہی ہیں۔ مگر جن کی آنکھوں پر اندھی عقیدت کی پٹّی بندھی ہو اُنہیں کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا اور سُجھائی بھی نہیں دیتا۔ گرو گرمیت سنگھ کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ 
اب طرح طرح کی داستانیں سنائی دے رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے اِس میں سے بہت کچھ محض زیبِ داستاں کے لیے بھی ہو۔ مگر خیر، اگر پربت کھڑے کیے بھی جارہے ہیں تو رائی کے اُن دانوں پر جو گرو گرمیت سنگھ نے فراہم کیے ہیں! بہ قول خلشؔ بڑودوی ؎ 
یہ اتنا سارا دھواں بے سبب نہیں یارو 
کہیں فساد ہوا ہے، مکاں جلے ہیں بہت 
ہمارے ہاں بھی ایسے ڈھونگی بابوں، عاملوں اور پیروں کی کمی نہیں جو روحانیت کے نام پر مختلف ہتھکنڈے اپناکر نئی نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ایسے ہر بابا کے پاس سہل انگاری اور بے راہ روی کے بم ہوتے ہیں جن کے دھماکوں سے وہ اپنے نزدیک آنے والوںکے ذہن ماؤف کردیتے ہیں۔ اور جب ہوش آتا ہے تب تک پانی سَر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ گرو گرمیت کو پرائیویٹ ملیشیا کھڑی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اِس خطے کے لوگ تو چکنی چپڑی باتوں کی گولیوں سے بھی مار گرائے جاسکتے ہیں اور یہ عمل اب بھی جاری ہے! کسی بابا کو بم اور میزائل وغیرہ کے چکر میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دل لبھانے والی باتوں کے بارود کو شارٹ کٹ اور بے راہ روی کے خول میں بھر کر آگ دکھادو ... دھماکا ایسا ہوگا کہ کسی اور ہتھیار کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئے گی!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved