مختلف دستاویزی فلمیں دیکھتے ہوئے، میں جین گوڈال پہ آکر رک گیا۔ کیا ہی شاندار خاتو ن ہے ۔ یہ کرّئہ ارض پہ چمپینزیوں کی سب سے بڑی ماہر ہے ۔ اس نے انسانی تاریخ میں کسی جانور پر سب سے طویل تحقیق کی ۔اس نے نوجوانی میں گومبی (نائجیریا )کے ایک جنگل میں رہائش اختیار کی کہ چمپینزیوں پر تحقیق کر سکے ۔ کئی سال تک ان کے قریب رہنے کے بعد وہ ان کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے اس کے قریب آنا شروع کیا۔ اس کے خیمے سے وہ کیلے اور دوسری چیزیں اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اس دوران جین گوڈال نے وہ مشاہدات کیے، جنہوں نے سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
چمپینزی زیادہ تر سبزی خوروں کی طرح رہتے ہیں ۔پھل اور پتے وغیرہ کھاتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ گوشت بھی لیتے ہیں ۔ روزانہ سات آٹھ گھنٹے وہ پیٹ بھرنے میں لگاتے ہیں ۔ نر کبھی بچے پالنے میں مادہ کا ہاتھ نہیں بٹاتے ، جب کہ کئی جانداروں میں نر اور مادہ مل کر یہ ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کے جسم سے جوئیں اور بیج وغیرہ صاف کر تے ہیں ، اسے groomingکہتے ہیں ۔ جین گوڈال پر بنی دستاویزی فلم میں ،داستان گو (narrator)یہ کہتاہے کہ ایک چمپینزی دوسرے چمپینزی سے بہت مختلف ہوتاہے ۔(بھیڑیوں کی طرح ) چمپینزیوں کے گروہ میں بھی ہر رکن کا ایک رینک ہوتا ہے ، ایک سماجی رتبہ ہوتا ہے ۔طاقتور نر دوسروں پر اپنی قوت کا اظہار کرتے ہیں ، اپنے آپ کو غالب ظاہر کرتے ہیں ۔ اپنی قوت کو ظاہر کرنے کے لیے نر شور مچا تا ہے ، سینہ پیٹتا ہے ، کوئی چیز مثلاً درختوں کی شاخیں سر سے اوپر اٹھا کربھاگتا ہے ، ان حرکتوں سے وہ اپنا aggressionشو کرتا ہے ۔جب باقی ڈر جاتے ہیں تو پھر اپنی dominance ثابت کرنے کے بعد اب غالب نر درخت سے اترتا ہے اور پھر ڈرے سہمے باقی چمپینزیوں کے پاس جاتا ہے ۔ ان کے منہ سے منہ لگا کر اور دوسرے اشاروں سے وہ ان کا خوف دور کرتاہے ۔یوں تنائو ختم ہو جاتاہے ۔
یہاں میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتا چلوں ۔ ایک دفعہ میں کیلے لے کر چڑیا گھر میں چمپینزیوں کے پنجرے کے پاس گیا۔ وہاں ایک نر اور ایک مادہ چمپنزی موجود تھے۔ نر نے کیلے دیکھے تو بھاگتا ہوا آیا۔ سلاخوں سے ایک ہاتھ باہر نکال کر وہ انتظار کرنے لگا کہ کیلا اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا جائے۔ اتنی دیر میں مادہ بھی لپکتی ہوئی آئی۔ نر کو خطرہ ہوا کہ کہیں مادہ اس سے پہلے یہ سوغات نہ لے لے۔ اس نے مادہ کا بازو پکڑا اور اس پر کاٹا ۔ یہ بچّوں جیسی حرکت تھی ۔یہ جذبات کا اظہار تھا ۔ ایک اور حیرت انگیز منظر یہ تھا کہ اپنے بچوں کے ہمراہ آئی ہوئی ایک خاتون چمپینزیوں کے پاس کھڑے ہو کر چپس کھاتی رہی۔ جب چمپینزی کو اندازہ ہوا کہ اسے کچھ ملنے والا نہیں تو اس نے ان کی طرف تھوک دیا ۔ یہ حرکت اس نے بار بار کی اور بچّے اس کی اس حرکت سے محظوظ ہوتے رہے ۔
چمپینزی کھانے کی تلاش میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔ جہاں رات پڑتی ہے ، وہیں درختوں پر تیس چالیس فٹ کی بلندی پر sleeping nest بنا لیتے ہیں ۔ تین سے پانچ منٹ میں ، وہ ایسا بستر بنا لیتاہے ، جہاں وہ اس قدر آرام سے سوتا ہے ، جتنے آرام سے ہم انسان اپنے بیڈ پر سوتے ہیں ۔ ایک شیر خوار بچے چمپینزی Flint پر جین گوڈال نے بھرپور ریسرچ کی تھی ۔ چھ ماہ کی عمر میں اس نے اپنی ماں کی کمر پر سواری کرنا سیکھا، وہ اسے کمر پر بٹھا کر چلتی رہتی تھی اورخوراک ڈھونڈتی تھی ۔اس کی ماں کا نام جین گوڈال نے Floرکھا اور اس کی بڑی بہن کا نام Fifi ۔ flint کی ماں شروع شروع میں اپنی بڑی بیٹی فی فی کو بھی اپنے چھوٹے بھائی فلنٹ کو اٹھانے نہیں دیتی تھی ۔ ( فی فی بار بار کوشش کرتی رہتی تھی کہ وہ فلنٹ کو اٹھا سکے)۔ جب فلنٹ کچھ بڑا ہو گیا ، تو پھر ماں نے اسے اجازت دے دی ۔ فی فی اسے لے کرایک طرف بیٹھی رہتی تھی ۔ یہ اس کی بھی تربیت تھی کہ کل کو جب وہ اپنا بچہ پیدا کرے گی تو وہ پہلے سے تجربے کار ہو۔ چمپینزی دوسروںکے بچوں کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ایک کم عمر مادہ جب ایک دوسری مادہ کے بچے کو دیکھتی ہے قریب سے تو وہ اسے دیکھنے دیتی ہے لیکن جب ایک نوجوان نر دیکھنے آتا ہے تو وہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی ہے ۔ چھ سال کی عمر میں بھی فی فی اپنی ماں فلو پر سے اپنا انحصار مکمل طور پر ختم نہیں کر سکی تھی ۔ اس میں سات آٹھ سال لگ جاتے ہیں ۔
چمپینزی اوزار (Tool)استعمال کرتے ہیں ۔وہ ایک گیلی stickکو چیونٹیوں کے بل میں ڈال کر اس کے ساتھ چمٹ جانے والی چیونٹیوں کو کھاتے ہیں ۔بیبون ایسا نہیں کر سکتے۔بعض اوقات وہ ایک چھوٹی سی شاخ کو بھی اس کے پتوں سے صاف کر کے اسے ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔یہ صرف اوزار استعمال کرنا ہی نہیں بلکہ اسے بنانا بھی ہے ۔ جین گوڈال نے ہی سب سے پہلے یہ بتایا تھا کہ چمپینزی اوزار بناتے اور استعمال کرتے ہیں اور اس سے سائنسی دنیا ہل کے رہ گئی تھی ۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف اور صرف انسان ہی اوزار استعمال کرتا ہے ۔
لوئس لیکی ماہرpaleoanthropologistاور archaeologistتھا۔ اس نے افریقہ میں انسانوں پر گراں قدر تحقیق کی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے محقق بعد میں وجود میں آئے، انہیں motivationملی تھی لوئس لیکی سے ۔جین گوڈال کہتی ہے کہ جب Louis Leakeyکو یہ پتہ چلا کہ چمپینزی اوزار استعمال کرتے ہیں توحیرت کی شدت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیاتھا۔ داستان گو کہتا ہے کہ چمپینزی کمپیوٹر نہیں بنا سکتا،، پتھر سے اوزار بھی نہیں بنا سکتا ۔ اس کے باوجود انسانوں کے قریب ترین اگر کوئی دماغ ہے تو وہ چیمپنزی کا ہی ہے لیکن یہ بات کافی گمراہ کن ہو سکتی ہے ۔ فرض کریں کہ ایک جگہ دو عمارتیں کھڑی ہیں ۔ ایک عمارت کی بلندی ہے اڑھائی سو فٹ ۔ اس کے بعد جو عمارت بلند ہے ، وہ ہے تین فٹ، اس کے بعد2.5 فٹ اور باقی اس سے چھوٹی ہیں ۔ اب آپ یہی کہہ سکتے ہیں کہ اڑھائی سو فٹ والی کے بعد تین فٹ والی سب سے بلند ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ misleadingہے ۔
اوزار استعمال کرنے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ایک درخت کے کھوکھلے تنے میں سوراخ ہے ، اس میں پانی جمع ہے ۔ چیمپینزی نے اسے پینا ہے ، ہاتھ پہنچ نہیں سکتا۔ نہ منہ پہنچ سکتاہے ۔ انگلی گیلی کر کے چوسے تو بہت کم پانی آتاہے ۔ اب وہ یہ کرتا ہے کہ پتے کو اندر ڈالتاہے ، اسے اسفنج کے طور پر استعمال کرتاہے اور اسے بار بار پانی میں ڈال کر پھر چوستا ہے ۔
جہاں جین گوڈال نے تحقیق کی، اس جگہ کا نام Gombeہے ۔ وہاں بیبون (ایک بندر )اور چمپینزی اکٹھے رہتے ہیں اورا ن میں جھڑپ بھی ہوجاتی ہے ۔ اس میں ایک کم عمر کا چیمپینزی بعض اوقات بڑی عمر کے بیبون کو اس لیے ڈرا دیتا ہے کہ وہ ہاتھ میں چھڑی کو بطور اوزار استعمال کرتا ہے ۔ جین نے ایک دن دیکھا کہ کچھ چیمپینزیوں نے ایک چھوٹے بندر کو پکڑ کر مارا اور پھر اسے کھایا۔ اس discovery نے بھی سائنسی دنیا کو ہکا بکا کردیا۔ اس سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ وہ صرف سبزی خور ہیں ۔(جاری )