اس کالم کی دوسری قسط کے اختتام پر میں‘ قدرے جذباتی ہو گیا لیکن جذبات بھی تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ میں یادوں کے دھندلے ماحول سے نکل کر‘ حقیقی زندگی کی طرف لوٹ رہا ہوں ۔ بلوغت سے بڑھاپے تک کا پرہنگام سفر طے کر کے‘ غیر متحرک زندگی گزاررہا ہوں لیکن بعض اوقات اتنے بڑے جھٹکے لگتے ہیں کہ مجھے چند لمحوں کے لئے پھر سے‘ تیزطرار زندگی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔بھارت پر تبادلہ آبادی کا زیادہ فرق نہ پڑا۔ جوتھوڑے سے ہندو سکھ ‘ مغربی پاکستان سے گئے‘ وہ پنجاب‘ ہریانہ اور راجھستان میں پھیل گئے اور بڑی تعداد نے دلی کا رخ کیا۔ دلی کے مختلف بازاروں میں جب میں دوستوں کے ساتھ‘ شاپنگ کے لئے جاتا تو ہر دوسرا دکاندار لاہور‘ لائل پور‘ ملتان‘ راولپنڈی اور گجرانوالہ کا رہائشی ہوتا۔ دکاندار بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملتے۔ جب لاہوریوں کو پتہ چلتا کہ میں کہاں سے آیا ہوں تو وہ ساری دکانداری بھول کر‘ لاہور کا حال پوچھنے لگتے۔ وہ شہر کے مختلف علاقوں کا حال پوچھتے اور میں انہیں شہر میں ہونے والی تبدیلیوں کے قصے سناتا۔ ابھی تو میرے مشاہدے میں پاکستان کے اندر ایسی دکانیں نہیں آئیں‘ جیسے دلی کے بازاروں میں‘ دکان کی بالائی منزل پر‘ الگ دکانیں بنی ہوتی تھیں۔ وہ ہر چیز مجھے کم قیمت میں دے رہا تھا۔ جب میں خریداری مکمل کر کے‘ باہر آیا تو وہ سیڑھیوں تک میرا پیچھا کرتا ہوا اترا۔ ضد کر کے‘ ایک لفافہ مجھے زبردستی تھما دیا کہ یہ اپنے گھر کے لئے رکھ لیں۔راستے میں جب لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں ایک سلکی ساڑھی رکھی تھی۔
تقسیم کے وقت‘ اتنی خونریزی کے چند ہی سال بعد‘ پرانے رشتے پھر بیدار ہو گئے۔ آزادی کے کافی دنوں بعد تک ویزا بھی نہیں تھا۔ یو پی‘ دلی اور اردگرد کے لوگ دیر تک مہاجر بن کر‘ پاکستان آتے رہے اور انہیں ہندووں کی متروکہ جائیدادیں ملتی رہیں۔ایسے ہی مہاجرین میں امرتسر کے ایک گائوں‘ جاتی عمرہ سے‘ جو واہگہ سے تھوڑا ہی دور ہے ‘ مزدوروں کا ایک خاندان برانڈرتھ روڈ کے قریب ‘ایک چھوٹے سے محلے میں آکر آباد ہوا۔ بچے انہی گلیوں میں کھیلتے ہوئے‘ بڑے ہوئے۔ خاندان کے جوان‘ لوہے کا کام کرتے ہوئے ترقی کرتے گئے۔ اس گھرانے کے ساتوں بھائی اکٹھے رہتے۔ بڑے بھائی میاں شریف صاحب‘ خاندان کے سربراہ تھے۔ میاں شریف صاحب حسب ضرورت تعلیم سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ وہ اپنی ذہانت اور لگن سے تجارت کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ان کا کاروبار پھیل گیا۔ باقی کہانی میاں نوازشریف اورشہباز شریف اپنے مختلف انٹرویوز میں سناتے رہتے ہیں۔ میاں شریف کے چھوٹے بیٹے‘ عباس شریف تو دنیا داری سے بے نیاز تھے۔ جو ذمہ داری میاں شریف کی طرف سے ملتی‘ اسے جوں توںپورا کر ہی دیتے۔ کاروبار کی طرف ان کا رحجان برائے نام تھا۔البتہ دو بڑے بھائی ‘ سمجھدار اور ہوشیار تھے۔ان میں نوازشریف پڑھائی اور کھیلوں میں دلچسپی لیا کرتے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی‘ شہبازشریف کاروباری معاملات میں ‘اپنے والد صاحب کے مددگار بنتے گئے۔انہی دونوں میں سے بڑا بھائی‘ ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم بنا اور چھوٹا موجودہ پاکستان کے سب سے ‘ بڑے صوبے کا مستقل وزیراعلیٰ بن گیا۔درمیان میں جو چھوٹے چھوٹے وقفے آئے‘ ان میں کچھ اونچ نیچ ہوتی رہی۔لیکن ان کا مستقل پتہ '' وزیراعلیٰ پنجاب‘‘ ہے۔ فی الحال تویوں لگتا ہے کہ دونوں بھائی‘ پاکستان سے ہجرت کر گئے ہیں۔ آگے کا کچھ پتہ نہیں۔لیکن تاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں بھائی‘ کامیاب سیاست دان ثابت ہوئے۔
ان دونوں کی سیاست میں آمد نے‘ پاکستان کا سیاسی کلچر ہی بدل دیا۔تاریخ کا کوئی طالب علم‘ جب پرانی اور نئی سیاست کا موازنہ کرے گا تو اس کا پہلا حصہ ''قبل از شریف برادران‘‘ ہو گا اور دوسرا حصہ‘ تادم تحریر انہی دونوں بھائیوں کے نام سے پہچانا جا رہا ہے۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بھارت کے ہندو سرمایہ دار‘ نسلوں سے چلے آرہے تھے۔ ان کے آبائو واجداد نے نہ جانے کب‘ صنعت و تجارت میں قدم رکھا تھا لیکن آزادی کے وقت بھی‘ وہ بڑے بڑے صنعت کار بن چکے تھے لیکن بعد میں ان کے بچوں نے ہوش سنبھال کرجب پھیلے اور چلتے ہوئے کاروبار سنبھالے‘ وہ ان کے لئے نئی چیز نہیں تھی۔وہ صنعتی اداروں کو بچپن ہی سے سنبھالنے لگے۔ انہیں بزرگوں کی طرف سے‘ بڑے بڑے صنعتی اداروں کی ذمہ داریاں منتقل ہوتی رہیں۔جہاں تک مجھے معلوم ہے آزادی سے پہلے اور بعد بھی‘ صنعت کار گھرانے‘ عملی سیاست سے دور رہے۔وہ سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت سے ذاتی مراسم ضرور رکھتے
مگر اپنے کاروبار کو مہارت سے چلاتے۔ بھارتی سرمایہ داروں کی جو نئی نسل پیدا ہوئی‘ وہ عملی طور پر تو سیاست میں نہ گئی لیکن حکمرانوں سے راہ ورسم ضرور بڑھانے لگی۔ آزادی کے بعد‘ جو بڑے تاجر اور صنعت کار سامنے آئے‘ ان کے سیاسی رشتے بھی بڑھتے گئے۔ بھارت کے گزشتہ انتخابات میں‘ صنعت کاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ مودی صاحب اور ان کی پارٹی‘ بی جے پی کی انتخابی مہم‘ کو سارے وسائل سرمایہ داروں نے مہیا کئے لیکن کوئی بھی سرمایہ دار‘ صف اول کی قیاد ت کا حصہ نہیں بنا۔ اس کے برعکس پاکستان میں جو نئے سیاست دان ابھرے‘ ان میں صرف رفیق سہگل انتخابی میدان میں اترے مگر اسی دور میں‘ بھٹو صاحب نے بڑی صنعتیں قومیا لیں۔صنعت کاروں پر ایک مشکل دور آیا۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کی واحد قومی ایئر لائن‘ کو چلانے کی ذمہ داریاں رفیق سہگل کے سپرد کر دیں۔ رفیق سہگل نے ثابت کر دیا کہ وہ تجارتی شعبے کے ماہر تھے۔پاکستانی صنعتوں پر یہ ایک بحرانی دور تھا۔ مزدور لیڈرشپ نے‘ نئی طرح کی اجارہ داریاں قائم کر لیں اور بھٹو صاحب کا تجربہ ناکام ہوگیا۔میری معلومات کے مطابق‘یہ روایتی سیاست دانوں کا آخری دور تھا۔ بھٹو صاحب نے سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تو جنرل ایوب خان کی زیر قیادت‘ حکمرانی کا ایک نیا نظام سامنے آگیا۔ یہ پاکستان کی پہلی آمریت تھی۔ اس کے بعد‘ جمہوریت کو پنپنے کی مہلت نہ ملی۔ ایک کے بعد دوسرا فوجی آمر آتا چلا گیا۔ ان کے دور میں سیاست دانوں کو‘آمروں اور افسر شاہی کے زیر سایہ اپنے کام چلانا پڑا۔ آمریتوں کے طویل دور میں‘ اہل سیاست اپنا قائدانہ کردار چھوڑ کر‘ ان کے اطاعت گزار ہوتے گئے۔ سیاست دانوں کی اسی پود میں‘ میاں نوازشریف نمودار ہوئے۔انہوں نے خوب پیسہ کمایا اور بے پناہ دولت کی چکاچوند سے‘ ان کے حواری‘ درباریوں میں بدلنے لگے اور اب سیاست‘ پیسے کا کھیل بن کر رہ گیا ہے اورسیاست اس کی ماتحتی میں آ گئی ہے۔ قومی سیاست دان کارکردگی اور قیادت کے راستے کو چھوڑ کر‘ دولت کی طاقت سے اقتدار میں حصہ دار بنتے گئے۔ان دنوں دولت کی طاقت‘ سیاست دانوں کو بلیوں‘ کبوتروں اور توتوں کی طرح پالنے لگی اورتوتے وہی زبان بولنے لگے‘ جو ان کے مالک سکھاتے ہیں۔آج ہمارا سرمایہ دار‘ ہندو سرمایہ داروں کے زیر سایہ جانے کے لئے بے تاب ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی منزل تک‘ کب پہنچتا ہے؟اگر کبھی قسمت نے یاوری کی تو ذہانت اور ہنر مندیاں‘ معاشروں کی قیادت کرنے لگیںگی ورنہ ایدھر آاوئے منشی۔