تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-09-2017

اِدھر اُدھر سے

آپاں پھڑے گئے آں!
پانچ سکھ ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچے۔ چار تو ٹکٹ چیکر کی نظر بچا کر نکل گئے لیکن پانچویں سے جب ٹکٹ مانگا گیا تو وہ نکل جانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا :
''سردار جی! آ جائو‘ آپاں پھڑے گئے آں!‘‘
ہمارے شاعر دوست ضمیر طالب نے لندن سے فون پر بتایا کہ ''اب تک‘‘ کی چوتھی جلد میں ایک غزل کا مطلع ہے ؎
غنیمت اس کو سمجھ لو کہ رات آخری ہے
تمہاری اور مری ملاقات آخری ہے
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ملاقات جس وزن پر آیا ہے‘ کیا یہ درست ہے؟ میں نے کہا کہ اتنا درست تو نہیں لیکن اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ بعض شعراء ایسے کسی لفظ کے حوالے سے حاشیے میں لکھ دیتے ہیں کہ میں اسے صحیح سمجھتا ہوں‘ یا ضرورت شعری کے لیے ایسا کیا ہے۔ میں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ لوگ اپنے آپ ہی سمجھ جائیں گے۔ میں نے ''گلافتاب‘‘ میں متعدد الفاظ کا تلفظ تبدیل کیا ہے لیکن وہ ایک تجربہ تھا اور وہ سب کچھ میں نے دانستہ کہا تھا۔ یہ بھی غیر دانستہ نہیں ہے لیکن بہرحال یہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ سو‘ آپ نے ٹھیک پکڑا ہے کہ شعر میں وزن کی گڑ بڑ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ چنانچہ اگر متنازعہ مصرعہ اس طرح ہو تو کیسا رہے گا ؎
ہے آخری یہ ملاقات‘ ساتھ آخری ہے۔
کہنے لگے جلیل عالی نے بہت شور مچانا تھا۔ اس لیے میں نے عرض کر دیا۔ میں نے کہا کہ اگر عالی صاحب کچھ کہتے تو وہ بھی ٹھیک ہوتا۔ آخر انسان ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا۔ ہمیں اپنے اور دوسروں کے کلام کی پرکھ پڑتال کرتے رہنا چاہیے۔ یہ بیحد ضروری ہے‘ میں اگر یہ کام خود کرتا ہوں تو دوسروں پر کیسے معترض ہو سکتا ہوں۔
جواب آں غزل
امجد بابر علی زریون کے جواب میں جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے۔
''آپ کے کالم میں علی زریون کے الزام سے نہ تو مجھے ناز خیالوی کا گورکھ دھندا یاد آیا اور نہ نصرت فتح کی مشہور زمانہ قوالی ''اللہ ہو‘‘ کی گونج سنائی دی۔ البتہ ان کی اذیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ دونوں نظموں کے ''مرکزی خیال‘‘ جداگانہ نوعیت کے ہیں‘ یہ میری پرانی نظم ہے۔ کئی مرتبہ ادبی دوستوں نے سنی اور اللہ کے فضل سے میری شاعری پر اتنا برا وقت نہیں آیا کہ صاحب موصوف سے استفادہ کروں۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے آج پہلی مرتبہ ''ایکتا‘‘ پڑھی۔ اس سے پہلے میری نظروں سے نہیں گزری۔ لہٰذا میں موصوف کے الزام کو نظرانداز کرتے ہوئے مسترد کرتا ہوں‘‘۔
اس سے پیشتر کہ یہ معاملہ زیادہ تلخی کی صورت اختیار کر لے‘ یہ بحث ختم سمجھیے!
انجم سلیمی کافی عرصے سے شعر کہہ رہے ہیں اور ان کے شعر کی تازگی ہمیشہ کی طرح باقی ہے۔ ان کی تازہ غزل کے کچھ اشعار دیکھیے۔
فلک نژاد سہی‘ سرنگوں زمیں پہ تھا میں
جبین خاک پہ تھی اور مری جبیں پہ تھا میں
یہ تب کی بات ہے جب کُن نہیں کہا گیا تھا
کہیں کہیں پہ خدا تھا‘ کہیں کہیں پہ تھا میں
نیا نیا میں نکالا ہوا تھا جنت سے
زمیں بنائی گئی جن دنوں یہیں پہ تھا میں
خدا کے جھگڑے میں آخر دماغ ہار گیا
کہ دل ثبات میں تھا اور نہیں نہیں پہ تھا میں
اور‘ اب حسب سابق آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ غزل :
.........
ویسے تو ستم کش تھے کئی بار تمہارے
احساں بھی ہمیں یاد ہیں دوچار تُمہارے
پکڑائی ہمیں دی نہیں تھی تم نے بھی اب تک
ہم بھی رہے پیچھے ہی لگاتار تمہارے
ہم سکہ باطل ہی سہی‘ وقت پڑا تو
کام آئیں گے آخر یہی بے کار تمہارے
حیرت ہے کہ ہم جو کبھی اپنے بھی نہیں تھے
ہونا پڑا اور ہو رہے ناچار تمہارے
تم بھُول گئے بھی ہو تو دریا نہیں بھُولا
کچھ لوگ ہیں اب بھی کہیں اُس پار تمہارے
تُم سے بھی شکایت تھی ہمیں جو روجفا کی
کُچھ ہم بھی نہ تھے اتنے وفادار تمہارے
لگتا ہے کہ بدلی ہے کوئی تم نے دوا بھی
اچھے ہوئے جاتے ہیں جو بیمار تمہارے
پھر کیوں ہے کہ امکان ہی کوئی نہیں جس کا
آنے کے وہاں پر بھی ہیں آثار تمہارے
یہ ایسی اخوت ہے کہ شامل ہے ظفرؔ بھی
لڑتے نہیں آپس میں طلب گار تمہارے
آج کا مقطع
دھیان رکھتا ہوں‘ ظفرؔ زخم تماشا کا بہت
پھر بھی ٹانکے کئی کُھل جاتے ہیں اکثر میرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved