تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     02-03-2013

انتخابات میں عوامی طاقت کا اظہار

اب جبکہ انتخابات قریب آرہے ہیں، پاکستانی سیاسی منظر رنگ تبدیل کر تا دکھائی دے رہا ہے۔ مارچ کا آغاز ہے اور نئے گروہ اور انتخابی اتحاد وجود میں آرہے ہیں، پُرانے ٹوٹ رہے ہیں جبکہ نظریہ ضرورت کے تحت وجود میںآئے اتحاد شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ اسی دوران موقع پرست سیاست دان بھی اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے اپنی سیاسی حمایت میں ضروری لچک پیدا کر کے کسی اور کو ’’خدمت‘‘ کا موقع دینے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ ہر روز ایسے سیاست دانوں، جن کو عرف ِ عام میں لوٹے کہا جاتا ہے، کے اِدھر اُدھر گھوم جانے کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ حال ہی میں ایک دوست نے شُبے کا اظہار کیا کہ ہو سکتا ہے انتخابات وقت پر نہ ہو پائیں۔ اُسے شک تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے جو ’’سب ٹھیک نظر آرہا ہے‘‘۔۔۔ کوئی گہری سازش، کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ میں نے اُس سے شرط لگائی کہ ایسا کچھ نہیںہونے جا رہا اور انتخابی معرکہ اپنے وقت پر ہو گا۔ اُمید ہے کہ میں شرط نہیں ہاروں گا۔ میرے یقین کی وجہ کچھ ٹھوس شواہد ہیں۔ اسمبلیوںکی مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی ایم کیو ایم حکومت کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ انتخابات وقت پر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا؟ سب جانتے ہیںکہ کئی برسوں میں ایم کیو ایم نے یہ حربہ سیکھ لیا ہے کہ انتخابات کے نزدیک آنے پر وہ ایک اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کرنے لگتی ہے، چنانچہ حکومت کی نااہلی کا بوجھ اپنے سر نہیں لیتی۔ اس دوران جب اسے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابات میںکون سی جماعت معرکہ جیتنے والی ہے تو وہ اُس کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے لیے بہترین ڈیل کرتی ہے۔ اُس نے ماضی کے تجربات سے سیکھ لیا ہے کہ اب اسے ایسے سلوک کا نشانہ بننے سے گریز کرنا ہے جس کا اُسے نوّے کی دھائی میں پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں بننا پڑا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دُہرا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے گورنر وسیع تر قومی مفاد میں اپنے عہدے پر موجود ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے ارکانِِ اسمبلی حکومت سے الگ ہو کر اپوزیشن میں جا چکے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ’’شکر بھی میری، پیسے بھی میرے‘‘ دو کشتیوں میں پائوں رکھنا اُس وقت دشوار ہوتا ہے جب ہاتھ میں بانس نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی مرکزی سیاسی جماعتیں یا دفاعی ادارے ایم کیو ایم سے کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں تو اُس پر اعتماد نہیں کرتے۔ ماضی کے واقعات اس کے گواہ ہیں کہ فریقین کسی اتحاد کا حصّہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو خفیہ طور پر نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں۔ ایسا صرف سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں، رائے عامہ بھی ایسا ہی نقطہ نظر رکھتی ہے۔ گزشتہ ماہ ’’ہیرالڈ‘‘ میں شائع ہونے والی رائے عامہ پر مبنی ایک سروے میں بہت سا مفید مواد موجود ہے۔ عوا م کی رائے سامنے آئی ہے کہ پانچ سال تک ایک دوسرے پر بدعنوانی اور نااہلی کے سنگین الزامات عائد کرنے کے باوجود پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ رائے دہندگان کے نزدیک عمران خان کی تحریکِ انصاف تیسری ابھرتی ہوئی سیاسی قوت ہے۔ کچھ مخصوص معاملات پر لیے گئے اس سروے کے علاوہ تحریکِ انصاف بہت سے دیگر جائزوں میں مجموعی طور پر عوام کی اچھی خاصی حمایت رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ بات عمران خان کے حامیوںکو اچھی لگے گی لیکن اُنہیں دیکھنا چاہیے کہ ایسے جائزے عام طور پر شہری علاقوںسے لیے جاتے ہیں جبکہ پاکستانی ووٹر ز کی ایک بہت بڑی تعداد دیہی علاقوں میں ہے؛ تاہم ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ ان شہری علاقوں میں پائی جانے والی مقبولیت کس حد تک انتخابی کامیابی کا باعث بنتی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ خان صاحب کی زیادہ تر حمایت شہری علاقوں میں ہے، اس لیے اُنہیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ فی الوقت یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منقسم پارلیمنٹ وجود میں آنے والی ہے۔ اس میں نواز شریف اکثریت میں ہوںگے جبکہ پی پی پی بہت تھوڑے فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہو گی۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو دیگر جماعتوں اور آزاد اراکین کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی طرف جانا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر اُنہیں ایم کیو ایم یا پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے لیے یہ دونوں امکانات کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہوںگے۔ چونکہ ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف بھی حکومت میں آنے کے لیے بے چین ہیں، اس لیے وہ دل پر پتھر رکھ کر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل سکتی ہیں؛ تاہم عمران خان کے لیے نواز شریف یا کسی اور کے ساتھ زیریں حیثیت رکھتے ہوئے کام کرنا آسان نہ ہو گا۔ مرکزی سیاست سے دُور کئی سالوں تک دوسروں کو ہدفِ تنقید بنانے کے بعد اب عمران خان بھی اقتدار کی سیاست کو قریب سے دیکھیں گے اور اُمید ہے کہ بہت کچھ سیکھیں گے۔ اُنہیں انداز ہ ہو گا کہ اقتدار کے لیے کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ سال کے سونامی کا ارتعاش محسوس کرتے ہوئے جو بہت سے ’’قابلِ انتخاب‘‘ افراد اُن کے گرد جمع ہو گئے تھے، وہ ان کے کسی کے ساتھ الحاق نہ کرنے کی صورت میں اپنے’’اصل‘‘ کی طرف لوٹ جائیںگے کیونکہ اُن کا مقصد صرف حکومت میں آنا ہی تھا۔ پاکستان میں سیاست پر نظر رکھنے والا مبتدی بھی جانتا ہے کہ آج کل کون ’’ٹاپ‘‘ پر جا رہا ہے کیونکہ ’’قابل انتخاب‘‘ افراد کا مقصد ’’بلندی‘‘ ہی ہوتا ہے۔ انتخابات کے بعد بہت سی چھوٹی جماعتیں اور آزاد نمائندے اکثریت حاصل کرنے والوںکے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سے بلیک میلنگ کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات چند ماہ کی دوری پر ہیں، دونوں مرکزی جماعتوں، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے ارکان اِدھر اُدھر ہوتے نظر آتے ہیں۔ انتخابات کے قریب، خاص طور پر پارٹی ٹکٹ ملنے کے وقت، یہ رجحان شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس صورت ِ حال میں پی پی پی کے لیے خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے کہ اس کے بہت سے ’’جیالے‘‘ گزشتہ پانچ برسوںمیں اس کی مفاہمتی پالیسی سے برگشتہ ہو چکے ہیں۔ پی پی پی نے معجزانہ طور پر پانچ سال پورے کیے ہیں لیکن اسے اس مفاہمت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ تاثر یہ گیا ہے کہ زرداری صاحب محض اقتدار میں رہنے کے لیے ہر حد سے گزر گئے۔ ان پانچ سالوں میں پی پی پی کی واحد کوشش حکومت کرنا نہیں بلکہ اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ اس سیاسی حکمتِ عملی کے تحت زرداری صاحب نے دفاعی اداروں، عدلیہ، میڈیا، اپوزیشن اور سازشوں کا پچھلے قدموں پر دفاعی انداز میں مقابلہ کیا۔ اس دوران وہ جارحانہ موڈ میں دکھائی نہ دیے لیکن جب صورتِ حال بہت خراب ہو گئی تو اُنھوں نے آنکھیں بھی دکھائیں۔ اس وقت حکومت کے ترجمان پانچ سال پورا کرنے پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اس دوران نواز شریف نے بھی اچھا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو گرانے کی کوشش نہیںکی حالانکہ اس دوران حکومت کی بہت سی کمزوریاں آشکار ہوئیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گزرے ماہ و سال نے میاں صاحب کو سیاسی طور پر پختہ بنا دیا ہے۔ اُنھوں نے وقتی فائدے کے لیے نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش نہیںکی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ جمہوریت نے ملک کا کباڑا کر دیا ہے، چنانچہ اگلے انتخابات سے کیا ہو گا؟ یہی لوگ دوبارہ آجائیںگے۔ میں اُن سے اختلاف کرتا ہوں۔ اب سخت تر انتخابی قوانین بن رہے ہیں جبکہ جرات مند عدلیہ اور بے باک میڈیا بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تطہیر کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ آمریت سے بہتر ہے جہاں کوئی جواب طلبی نہیں ہوتی۔ جمہوریت کا حُسن ہے کہ اس میں اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved