تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-09-2017

ان سے میں کیا کہتا؟

حیرت زدہ بلکہ دم بخود‘ ان کی باتیں میں سنتا رہا۔ جمہوریت کی عظمت و فضیلت پر ضرور میں ایک لیکچر دیتا۔ ہمت جمع کرنے کی کوشش کی مگر کر نہ سکا۔ ٹوٹے ہوئے دل‘ انصاف کے ہر امکان سے محروم پژمردہ زندگیاں۔ ان سے میں کیا کہتا؟۔
اپنے درد کی داستان کہنے وہ آئی تھیں اور درد کا تحفہ دے کر چلی گئیں۔ دو سگی بہنیں‘ اس بے درد سماج میں جو تنہا ہیں اور جن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ اب وہ جا چکی ہیں اور بھرے پرے مکان پہ سناٹے کا راج ہے۔ ماں بچپن میں چلی گئی‘ پھر جان چھڑکنے والا باپ بھی۔ جائیداد کے بڑے حصے پر قبضہ ہو گیا۔ وراثت میں ملنے والا دادا کا ایک دوسرا مکان‘ رشتے کے ایک بھائی نے جماعت اسلامی والوں کے حوالے کر دیا کہ مدرسہ بنا دیا جائے۔ ''وہ اچھے لوگ ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک نے بار بار کہا۔ اُلفت سے پیش آتے ہیں۔ مکان ابھی تک بیکار پڑا ہے‘ خالی ڈھنڈار۔ عجیب بات ہے‘ دین داری کیلئے بھی نگاہ بے آسرا کی جائیداد پہ جا ٹھہرتی ہے۔ برادرم امیرالعظیم سے میں نے بات کی۔ اپنے لوگوں کو براہِ کرم متوجہ کیجئے کہ ان کا مکان واپس کر دیں۔ انہوں نے مدد کا وعدہ کیا اور یقین ہے کہ پورا کریں گے۔
پوچھا کہ ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ بتایا کہ چند دکانیں ہیں‘ والد صاحب کا ترکہ۔ محدود سی آمدن ان سے ہوتی ہے۔ دکاندار آدھا کرایہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ غیر محفوظ سی جگہ ہے۔ کبھی کبھار چوری چکاری ہو جاتی ہے؛ پورا نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد ایسی بات انہوں نے کہی کہ میں دنگ رہ گیا۔ کہا‘ چار کمروں کا ہمارا مکان ہے۔ ہم دو بہنوں کیلئے ایک کمرہ کافی ہے۔ کیوں نہ غریب رشتہ داروں کو بسا دیا جائے یا محلے کی بچیوں کو کچھ فنون سکھائے جائیں۔ ان میں سے ایک کیک سازی جانتی ہے۔ بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ کچھ نسخے بتائے‘ گویا مجھے کوئی بیکری کھولنی ہو۔ کچھ مٹھائیاں بھی۔ باورچی اکبر بڑا ہی نیک دل مگر پرلے درجے کا سادہ لوح آدمی ہے۔ چائے کی پیالی لے کر آیا تو کونے میں کھڑا سنتا رہا۔ پھر بولا‘ باجی کم از کم سوجی کا کیک بنانے کا طریقہ تو مجھے سکھا ہی دیجئے۔
ان خواتین کی المناک زندگی اور اس پر ایثار کے ایسے وفور نے دہلا کر رکھ دیا۔ یااللہ‘ تیری مخلوق ایسی بھی ہے۔ ایک ذرا سا ڈھنگ کا کام ہو جائے تو نفس کی زمین میں شیطان کاشت کرنے لگتا ہے۔ پھر وہ ہیں کہ کھربوں سمیٹ چکے ہیں۔ صبح و شام پھر بھی فریاد کناں رہتے ہیں کہ لوٹ مار کے مزید مواقع سے ہمیں کیوں محروم کر دیا۔ ''مجھے کیوں نکالا‘‘
اسداللہ خان ملتان کے کمشنر تھے تو ان سے عرض کیا تھا کہ ان بیچاریوں کی مدد کریں۔ کچھ ان کی مصروفیت‘ کچھ ان خواتین کا شرمیلا پن۔ خالد مسعود خان کا سہارا تھا کہ دبنگ‘ دلیر اور عملی آدمی ہیں۔ مگر وہ انہی دنوں یورپ چلے گئے۔ ایک چکر ہے‘ میرے پائوں میں زنجیر نہیں۔ آج ان سے کہا کہ بہرحال یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ بے شک یہ ستم گاروں کا عہد ہے۔ اتنے بڑے شہر میں مگر کیا چند مردانِ کار بھی نہیں کہ ان پاک باز خواتین کی مدد کر سکیں‘ جن کی دکھ بھری زندگیوں پہ شام اتر رہی ہے۔ معصومیت کیا جرم ہو گئی۔ درد مندوں کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہ رہا؟۔
پھر ایک جملہ خاتون نے ایسا کہا کہ دل کو جیسے خنجر سے کاٹ دیا۔ کہا: زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں بھائی۔ بتائیے کہ یہ جائیداد ہم کس کے سپرد کریں کہ بعدازاں حاجت مندوں کے کام آئے۔ 
اس وقت‘ ڈاکٹر امجد ثاقب یاد آئے۔ فون کیا تو گھر پہ تھے۔ آواز میں وہی خنکی‘ وہی قرار اور آسودگی۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہمارا چھتنار لوٹ آیا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں‘ جن کے بل پر خواب ہرے ہوتے ہیں۔ دردآشنا تو ہیں ہی‘ ڈاکٹر صاحب کا ایک اور کمال یہ ہے کہ کمال کے منتظم اور فیصلہ ساز ہیں۔ مختصر سی روداد کہی۔ کسی تمہید کے بغیر بولے: ملازمت چاہئے تو حاضر ہے۔ کوئی اور خدمت ہو تو ہمارے لوگ ان کے ہاں چلے جائیں گے۔ ان کی ترجیحات کے مطابق منصوبہ بنا دیں گے۔ شکر ہے کہ زمین پر ابھی کچھ روشنی باقی ہے۔
ان معزز خواتین سے عرض کیا: آپ کی سب سے بڑی ضرورت مسلسل مبتلا رکھنے والی مصروفیت ہے۔ اللہ نے آپ کو ہنر اور تعلیم بخشی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کر کے خاکہ بنا لیجئے۔ میرے بارے میں آپ کچھ زیادہ خوش فہم ہیں۔ ایسی استعداد میں نہیں رکھتا کہ پیچ در پیچ گرہیں کھول سکوں۔ میرے گرامی قدر استاد یورپ میں ہیں۔ لوٹ آئیں تو ان سے بات آپ کی کرا دوں گا۔ ملتان میں کوئی تو ڈھنگ کے آدمی ہوں گے۔ کوئی پولیس افسر‘ کوئی ڈپٹی کمشنر یا کمشنر۔ محکمہ مال کا کوئی افسر۔ ایک آخری چارہ یہ بھی ہے کہ خادمِ پنجاب ہی سے التجا کی جائے۔ ملتان میٹرو میں کرپشن کا جھوٹا الزام ان پر لگا ہے۔ ان سے کہوں گا کہ اس کا صدقہ ہی ادا کر دیں۔ خیر یہ الگ کہانی ہے۔ تفصیل سے تحقیق ناچیز نے کر لی ہے۔ ایک آدھ گوشہ باقی ہے۔ وہ روشن ہو جائے تو کہانی مکمل ہو۔ شریف خاندان کی خرابیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی کیا کہ جھوٹا الزام ہی داغ دیا جائے۔ غزالی نے کہا تھا: ایک آدمی پر سات سچے الزام ہوں‘ آٹھواں تم غلط لگاتے ہو تو اس کی سزا‘ ماحول کو بھگتنا پڑتی ہے۔
انکشاف یہ ہوا کہ سارا وقت تنہائی میں بتانے والی خواتین‘ اخبار پڑھتی اور ٹی وی پہ حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھا کرتی ہیں۔ ان کے تاثرات نے حیرت زدہ کر دیا۔ ایک نے کہا: ہماری زندگی کا بہترین عہد‘ جنرل محمد ضیاء الحق کا تھا۔ ہم آرام کی نیند سویا کرتے اور احساسِ تحفظ کے ساتھ زندگی کرتے۔ ''ایک بار اسلام آباد جانا ہوا تو میں ان کے مزار پر گئی اور فاتحہ پڑھی‘‘۔ محلے کی کونسلر ایک خاتون تھیں‘ مرد امیدواروں کو جس نے ہرا دیا تھا۔ کوئی مشکل آن پڑتی تو بہ سہولت ان سے رابطہ کر لیا جاتا۔ بابا جب تک زندہ تھے‘ روک ٹوک کے بغیر بلدیاتی ناظمین کے دفتروں میں ہم لوگ چلے جاتے۔ پھر وہ وقت آیا کہ بابا چلے گئے۔ آدھی رات تک ایک بہن سوتی اور دوسری پہرہ دیا کرتی۔ میں مشرف کو ناپسند کرتی تھی۔ اب مگر میں انہیں مشرف صاحب کہتی ہوں۔ اس لئے کہ ان کے دور میں چھت کا پنکھا چلتا رہا اور نیند پوری کر لی جاتی۔ زرداری صاحب والی جمہوریت آئی تو زندگی اجڑ گئی۔ ملتان کی گرمی اور بند کمرے کا حبس۔ دن بیزار‘ شب ویران۔ ایسی نڈھال زندگی کہ عشاء کی نماز میں‘ ایک بار سجدے میں سر رکھا تو نیند نے آ لیا۔
رحمن ملک نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ تک پاسپورٹ بنوا لو۔ اس کے بعد فیس دوگنا ہو جائے گی۔ عذاب سا عذاب۔ ماہِ دسمبر کے باوجود پاسپورٹ آفس میں ایسی گھٹن کہ بعض خواتین بے ہوش ہو گئیں۔ خود میں بھاگ کر باہر نکلی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محض ایک ڈرامہ تھا۔ ''اور یہ ہمارا نیا وزیر اعظم‘ ازبکستان کے صدر نے فی البدیہہ تقریر کی۔ شکریہ ادا کرنے کیلئے ان صاحب کو لکھی ہوئی عبارت پڑھنا پڑی۔ ان کے چار سالہ دور میں ہمارا گیس کا چولہا شاذ ہی روشن ہوا۔ چھوٹی سی ایک زندگی ہے‘ بیشتر بیت گئی‘ ذرا سی باقی ہے۔ سیاست دان اسے کھا گئے۔ اگر کوئی سکھ نصیب ہوا تو فوجی ادوار میں۔ کم از کم ڈھنگ کے کچھ افسر تو وہ لگاتے ہیں۔ اپنے صحافی دوستوں کو آپ سمجھاتے کیوں نہیں۔ کم از کم ہمارے ہم وطن کلاسرا صاحب کو۔ سارا وقت وہ ضیاء الحق کو کیوں کوستے رہتے ہیں۔ کیا تمام خرابیوں کی جڑ وہ ہیں۔
حیرت زدہ بلکہ دم بخود‘ ان کی باتیں میں سنتا رہا۔ جمہوریت کی عظمت و فضیلت پر ضرور میں ایک لیکچر دیتا۔ ہمت جمع کرنے کی کوشش کی مگر کر نہ سکا۔ ٹوٹے ہوئے دل‘ انصاف کے ہر امکان سے محروم پژمردہ زندگیاں۔ ان سے میں کیا کہتا؟۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved