تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-09-2017

مشرف کا پستول نواز کے ہاتھ

ڈِکٹیٹر (جنرل مشرف) نے امیرالمومنین (نواز شریف) کو جو پستول تحفے میں دیا تھا وہ توشہ خانے میں جمع ہوا یا لنڈا بازار میں نیلام ہوا‘ کم از کم مجھے یہ تفصیل معلوم نہیں۔
مشرف- نواز پستولیہ دوستی 1990ء کے عشرے کی سوپر ہِٹ داستان ہے‘ جس میں ایکشن، تھرِل، کامیڈی، رومانس اور ٹریجڈی سمیت بہت سے موڑ سامنے آئے۔ مشرف- نواز رومانس تب کُھلا جب جنرل علی قُلی خان اور دیگر سینئر جرنیلوں کو بائی پاس کرکے نواز شریف نے مشرف کی محبت پر میرٹ کو قربان کر دیا۔ پھر نواز شریف صاحب اپنے ہی بنائے ہوئے 2 قوانین کے ڈبل جال میں جا پھنسے۔ پہلا‘ 1997ء کا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ اور دوسرا‘ احتساب ایکٹ1997ئ۔ لیکن بہت جلد پستول والی دوستی نے پھر جوش مارا اور نواز شریف کی ٹریجڈی کی فلمی زبان میں ''ہیپی اینڈنگ‘‘ آ گئی۔ سعودی عرب کے شہزادے مِقرن اور سعودی بادشاہ کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز کے داماد سعد رفیق الحریری لبنانی تشریف لے آئے۔ 
500 سواریاں اُڑانے والا ایک بڑا جہاز جنرل مشرف کے محبوب نواز صاحب کو نوازنے کے لیے آ پہنچا‘ بالکل ویسے ہی جیسے کسی پنجابی شاعر نے کہہ رکھا ہے:
سیو نی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا
انج لگدا اے جیویں رانجھن مینوں ہیر بناون آ گیا
جس طرح وارث شاہ کی اصلی ہیر کو کھیڑے لے گئے تھے‘ بالکل ویسے ہی فوجی رانجھن نے اپنی کاروباری ہیر کو عزیزیہ سٹیل مِل لگانے کی اجازت دے کر عربوں کے حوالے کر دیا۔
یُوں اس love and hate story میں سے ایک اور ٹوسٹ نکل آیا‘ جس کا نام تھا شوکت عزیز۔ بعد میں ثابت ہوا کہ نہ اس بینکار میں کوئی شوکت تھی‘ اور نہ ہی اسے پاکستان عزیز تھا۔ اِدھر نوکری تمام ہوئی اُدھر شوکت کے بغیر والے غیر عزیز نے بریف کیس بھرے اور لندن کی اُڑان بھر لی۔ بالکل سمدھی منشی ڈالر ڈار کی طرح‘ جو صرف اپنے سمدھی کا ڈارلنگ ہے۔ دوسری جانب عمر رسیدہ مسلم لیگ نے نئے سِرے سے بال کالے کیے۔ پچھلے مارشل لاء کی جُھریاں اور داغ چُھپانے کے لیے جدید میک اپ کیا‘ اور مشرف کی تازہ ہیر بن بیٹھی‘ جس کی بارات میں ہر جُماں جنج نال چل پڑا۔
3 روز پہلے سینیٹ آف پاکستان کے کچھ مستقل باراتیوں نے آئین کو سبوتاژ کرنے کے لیے قانون کے نام پر مُک مکا بِل پاس کیا۔ یہ بِل حکومت کو کتنے میں پڑا‘ اس حقیقت کا قوم پر تب انکشاف ہو گا‘ جب مفرور گاڈفادر کا مفرور منشی پکڑا جائے گا۔ پارلیمانی لابیوں کے چلتے پھرتے کیمرے بتاتے ہیں کہ ہائوس آف فیڈریشن میں اکثریتی اپوزیشن کو اقلیت میں بدلنے کے لیے 5وارداتیے کردار شاملِ واردات تھے۔ پہلا راولپنڈی کا ایک ''سمال ٹریڈر‘‘ جو پچھلے ایک سال سے ایوان میں خوشی خوشی یہ بتاتا آیا ہے کہ گاڈفادر نمبر1 نے اسے ذاتی طور پر مسلم لیگی کہا اور ساتھ 2018ء میں اسے پنجاب کا سینیٹر بنانے کا وچن بھی دے دیا۔ دوسرا پشاور کا ایک ''بِگ ٹریڈر‘‘ ہے جسے اُس کے اپنے ساتھی پیار سے ڈالر یار کا منشی کہہ کر پکارتے ہیں۔ 
نااہل وزیرِ اعظم کی نااہلی کے حق میں یہ قانون صرف ایک ووٹ کی انجینئرنگ سے پاس ہوا۔ لیکن اس واردات کے چشمِ دید گواہ واردات کا کریڈٹ 2 علیحدہ علیحدہ لوگوں کو دیتے ہیں۔ پہلا گروپ اس کا کریڈٹ سمال ٹریڈر کو دیتا ہے‘ جبکہ دوسرا گروپ اسے 6 پہیوں والی واردات کا نام دے کر سال کی سب سے بڑی ڈیل کہہ رہا ہے۔ احتساب کے حق میں بلند آواز سے تقریریں کرنے والی 2 اپوزیشن جماعتوں کے 3 بڑے موقعہ واردات پر ووٹنگ کے وقت غائب پائے گئے‘ جبکہ پاکستان میکر گروپ کراچی کے لیڈر نے بھی لمبا ہاتھ مارا‘ اور ثابت کر دیا کہ باریک واردات ڈالنا صرف ان کا برانڈ ہے۔
سمال ٹریڈر گینگ کے باقی ساتھی بِل پر ووٹنگ کا آئینی حق استعمال کرنے سے بے تعلق ہو کر ٹھنڈی اور گداز نشستوں پر نیم دراز پڑے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ نااہل کو پارٹی ہیڈ کا عہدہ دینے والی اس ترمیم کا فائدہ ان ووٹروں کے اصلی اور وڈے ''بھائی‘‘ کو ہو گا‘ کیونکہ ملک میں صرف 2 مفرور لیڈر اس عہدے کے حق کے لیے قانونی طور پر نااہل قرار پائے ہیں۔ ایک کراچی والے بھائی‘ اور دوسرے تختِ لاہور والے بھائی۔ ان دونوں بھائیوں کے تیسرے بھائی ڈِکٹیٹر صاحب کے ساتھ لازوال محبت‘ محبوب کے ہجر کی یادوں کی طرح گلی گلی بکھری ہوئی ہے۔
گلی گلی تیری یاد پڑی ہے
پیارے رستہ دیکھ کے چل 
اب آیئے ایک اور سنجیدہ پہلو کی طرف۔ پاکستان کے نظامِ قانون کے 2 درجے ہیں۔ پہلا دستوری قانون(constitutional law) کہلاتا ہے۔ دوسرے کا نام ماتحت قانون سازی (subordinate legislation) ہے۔ پارلیمنٹ میں نااہلوں کے امیرالمومنین کو بچانے کے لیے ماتحت قانون میں ترمیم ہوئی۔ سروس آف پاکستان، بیوروکریسی، فوج، عدلیہ حتیٰ کہ کلرک یا پٹواری کی تعیناتی تک صرف ایک ہی معیار نظر رکھا جاتا ہے‘ جس کو فٹنس کہتے ہیں۔ اور جب کوئی شخص کسی عہدے کے لیے نااہل ہو جائے تو قانوناً اسے آئندہ نوکری کے لیے اَن فِٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں 2 باتوں کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ایک نااہل وزیر ِاعظم کا اپنی پارٹی کی سربراہی کے خواب کا‘ جبکہ دوسرا اس قانون کے پاس ہونے کے بعد بطورِ قانون زندہ رہنے کا۔ جن ممالک میں تحریری آئین موجود ہیں۔ وہاں قانون کی تشریح کا بنیادی پیمانہ ایک ہی ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر کوئی قانون آئین کی کسی شق یا شقوں سے متصادم ہو تو اسے (ultra vires) قرار دے کر منسوخ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں اضافی خوبی یہ ہے کہ پبلک آفس پر تعیناتی کے لیے معیار آئین کے آرٹیکل 62/63 میں درج ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ذیلی قانون ملک کے اصل قانون میں درج اہلیت کی ضرورت کو کالعدم کر سکے۔ موجود امکانات سے ظاہر ہے کہ نااہل وزیرِ اعظم کو نااہلی کے 33 نمبر دے کر پاس کرکے من پسند کرسی پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ 
بہارِ عرب کے بعد ایفرو عرب مسلمان ملکوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے ایل این جی وزیرِ اعظم کی جو پذیرائی اور سوالوں کی بوچھاڑ سامنے آئی اس نے پالیسی ساز اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عملی طور پر پاکستان کی حکومت مے فیئر میں جلا وطنی کاٹ رہی ہے۔ وزیرِ داخلہ صاحب بینگن کے رنگ کی سپورٹس شرٹ پہن کر ناروال میں بڑھک مارنے گئے۔ ساتھ ہی بھارت نے فائرنگ شروع کر دی۔ مغربی بارڈر پر افغانستان سے حملے روز کا معمول ہیں۔ مسلم بلاک کا ہر ملک مغرب کو اپنی اپنی حکمرانی کی بقا کا بِل ادا کر رہا ہے۔ چین اور روس کی حمایت پاکستان کے لیے غیبی مدد سے کم نہیں۔ ٹماٹر اور پیاز کی قیمتیں جان بچانے والی دوائیوں جتنی ہو چُکی ہیں۔ وہ فروٹ جو پاکستان کی گلیوں میں رُلتے تھے آج مہنگے حاجیوں کی دکانوں پر سونے کے بھائو تُلتے ہیں۔ چند دن پہلے پچھلے 4 سال کی بجلی چوری اور عیاشیوں کو اگلے 4 سال کے بِلوں میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 10/15 لانگری‘ جو تھڑے سے اُٹھ کر ارب پتی ہو گئے‘ اس نظام کو جمہوریت کا پھل فروٹ کہتے ہیں۔ 
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اصلی یا نقلی جمہوریت کے دعوے دار جس بھی ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی وہاں نئے انتخابات کرا کر قوم کو نیا مینڈیٹ دینے کا موقع ملا۔ میں نے 2 ماہ پہلے کُھل کر کہہ دیا تھا کہ میری ذاتی رائے میں اس نظام کو بچانے کا واحد راستہ صرف نیا الیکشن ہے۔ ورنہ ڈِکٹیٹر (جنرل مشرف) نے امیرالمومنین (نواز شریف) کو جو پستول تحفے میں دیا تھا وہ توشہ خانے یا لنڈا بازار میں سے بول پڑے گا۔ یہ بھی دھیان رکھیں مشرف کا یہ پستول نواز کے ہاتھ میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved