نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''لوگوں کی مثال کانوں (Mines)کی سی ہے ،جیسے سونے اور چاندی کی کانیں،سو ان میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں فضیلت کا حامل تھا،اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی وہ فضیلت قائم رہی جب وہ فقیہ بن گئے ، (مسلم:2638)‘‘۔علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:انسانیت کے حوالے سے ''معدن‘‘سے مراد انسانی جبلّتوں کا جوہر اورخیر کی وہ فطری استعداد ہے ،جسے مسلسل تربیت وریاضت سے نکھارا جاسکتا ہے ،جیسے سونا،چاندی ،ہیرے اور جواہرات زمین میں چھپے ہوتے ہیں ،پھر انہیں نکالاجاتا ہے ،ان کی تراش خراش کی جاتی ہے ،ان کے اندر سے کھوٹ کو نکالا جاتا ہے ،انہیں پالش کر کے چمکایا جاتا ہے ،سو وہی پتھر جو پائوں کی ٹھوکر تھا ،بادشاہوں کے تاج میں سجایا جاتا ہے اور گلے کا ہار بنایا جاتا ہے ۔مگر جوہر کامل کو تلاش کرنے اور نکھارنے کے لیے جوہری ہونا چاہیے ،فارسی کی ضرب المثل ہے:''قدرِ زر زرگر شناسد،قدرِ گوہر گوہری‘‘یعنی سونے کی قدر سنار جانتا ہے اور ہیرے کی قدر جوہری جانتا ہے ۔ہیرے کو تاج کی زینت بننے تک کئی مراحل سے گزارا جاتا ہے ، شاعر نے کہا ہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سوبار جب عقیق کٹا،تب نگیں ہوا
سو سیّد المرسلین رحمۃ للعالمین ﷺ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیے ہوئے جوہرِ کمال (Talent)کے شناور تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ملکہ اور علم سے جان لیتے تھے کہ کون سا انسانی ہیرا کس شعبے میں کمال رکھتا ہے اور اس کی استعداد کو کیسے نکھارا جاسکتا ہے ،چنانچہ نگاہِ نبوت نے حضرت عمر بن خطاب کی شخصیت کے جوہرِ کمال کو پہچان لیا تھا ،اسی لیے آپ نے اسلام کی عزت وشوکت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی :''اے اللہ!تو عمر بن خطاب سے اسلام کو غلبہ عطا فرما ، (سنن ابن ماجہ:105)‘‘۔اور ایسا ہی ہوا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''ہم (اپنی کمزوری کے باعث)کعبہ کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا ، پس جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے قریش سے مقابلہ کیا اور پھر انہوں نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی، (سیرت ابن ہشام ،ج:1،ص:380)‘‘۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : عمر بن خطاب کے سوا میں کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے عَلانیہ ہجرت کی ہو ۔پس جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا ،تو تلوار لٹکائی ، کمان باندھی ، تیر ہاتھ میں لیے اور کعبہ میں آئے ،جبکہ اشرافِ قریش صحن کعبہ میں موجود تھے ،انہوں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے ، پھر مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھی ، پھر ایک ایک کر کے قریش کے پاس گئے اور کہا: تمہارے چہرے رسوا ہوجائیں ،تم میں سے جو چاہتا ہوکہ اس کی ماں اُسے روئے اور اس کے بچے یتیم ہوجائیں اور اس کی بیوی بیوہ ہوجائے ،تو حدودِ حرم سے باہر میرا سامنا کرلے، لیکن کوئی بھی ان کاراستہ روکنے نہیں آیا،(تاریخ الخلفائ، ج:1،ص:94،بحوالہ ابن عساکر)۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن فضائل میں ضعیف احادیث معتبر ہوتی ہیں۔
حضرت عمر لفظاً ومعنیً فاروق تھے اور آپ حق وباطل میں مفاہمت اور باطل کے لیے کسی رُو رعایت کے قائل نہیں تھے، اس لیے غزوۂ بدر میں آپ کے ہاتھوں آپ کے ماموں قتل ہوئے اور جب قریشِ مکہ کے جنگی قیدیوں کی بابت مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے،کیونکہ اس وقت تک اس بارے میں کوئی صریح حکم نازل نہیں ہوا تھا ۔سو آپ نے مشورہ دیا کہ جو جس کا قریبی رشتہ دار ہو، اُسے اس کے حوالے کردیں تاکہ اپنے ہاتھ سے دشمنِ رسول کو قتل کرے،لیکن رحمت للعالمین ﷺ نے فدیہ لے کر چھوڑنے کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو اختیار فرمایا ۔ پھرسورۂ انفال ،آیت:67نازل ہوئی اور اس وقت کے حالات کے تناظر میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے کوراجح قرار دیا گیا ،تاہم آپ ﷺ نے فیصلے کو برقرار رکھا۔ بعد میں جب مسلمان طاقت کی پوزیشن میں آگئے توسورۂ محمد ،آیت:4میں تفصیلی حکم آیا اور جنگی قیدیوں کے بارے مسلمانوں کو تین آپشن دیے گئے:(۱)انہیں قید کردیا جائے،(۲) ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، (۳) تبرُّع اور احسان کے طور پر انہیں آزاد کردیا جائے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے نورِ نبوت کے فیضان سے ایسی بصیرت عطافرمائی تھی کہ آپ نے قضا وقدر جیسے انتہائی نازک مسئلے کو سہل انداز میں حل فرمادیا۔آپ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا دورہ کرتے تاکہ لوگوں کے احوال معلوم ہوں اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے ۔وہ فتحِ بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے ۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ عمواس کی بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ آپ نے اکابر صحابۂ کرام سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:اِس موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: (عمر!)اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟،حضرت عمر نے فرمایا: '' اے ابوعبیدہ!کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی (یعنی یہ آپ کے شایانِ شان نہیں ہے ) ،اس لیے کہ حضرت عمر اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے ،پس انہوں نے جواب دیا:ہاں!اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہا ہوں ۔اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف وہاںتشریف لائے اور کہا :ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایت موجود ہے ،آپ ﷺنے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے ، تو وہاں نہ جائو اور جس بستی میں یہ وبا آجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو ،تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جائو۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: یہ حدیث سُن کر حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے ‘‘۔نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث:2219میں بیان کردہ طویل روایت کاخلاصہ ہے۔اس لیے کہ اگر وبازدہ بستی کے سارے تندرست لوگ نکل کر چلے جائیں تو مریضوں کی دیکھ بھال کون کرے گا اور اموات کی تکفین وتدفین اور جنازے کا اہتمام کون کرے گا۔
اس حدیث سے ایک تو امراض کے متعدی ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ اسباب کو اختیار کرنا توکل اور تقدیر کے منافی نہیں ہے اور جس حدیث میں فرمایا گیا :''امراض متعدی نہیں ہوتے ‘‘،اس کا مطلب یہ ہے کہ امراض بالذات متعدی نہیں ہوتے ، لیکن بعض امراض میں یہ صلاحیت ہوتی ہے اور جب اللہ کا حکم اور اس کی تقدیر ہوتی ہے ،تو وہ متعدی ہوجاتے ہیں ۔ورنہ آج کل بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسپتالوں میں چکن گونیا اور ڈینگی جیسے متعدی امراض کا علاج ہورہا ہے ،بعض لوگ ان سے متاثر ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ بچے رہتے ہیں ۔اگر یہ امراض بذاتہا متعدی ہوتے تو کوئی بھی نہ بچتا۔الغرض اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کی تعلیمات بداہتِ عقل کے خلاف نہیں ہیں۔
آج کل اس پربھی بحث چل رہی ہے کہ انسانیت کا مفاد فلاحی ریاست میں ہے ، ریاست اپنے شہریوں اور رعایا کے لیے آغوشِ مادر کی طرح مہربان اور باپ کی طرح شفیق ہوتی ہے ،اس کے مقابل ''سکیورٹی اسٹیٹ ‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ جیسے کوئی کسی دوسرے کی امانت کی حفاظت پر مامور ہو اور اس سے اُسے کوئی غرض نہ ہو کہ ریاست کے شہری کس حال میں ہیں اور ان کی ضروریات اور مسائل کیا ہیں ۔کئی سیاسی فلاسفہ نے سکیورٹی اسٹیٹ کو ایک فوجی کیمپ سے تشبیہ دی ہے کہ جسے رعایا کے بنیادی حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔انسانی تاریخ میں سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی ، تمام شہریوں کے لیے حسبِ مراتب اور حسبِ ضرورت وظائف مقرر کیے ،یہاں تک کہ نومولود بچوں کے لیے بھی وظیفے مقرر کیے۔اسی لیے رعایا کے احوال معلوم کرنے کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راتوں کو گشت کرتے اور ضرورت مندوں کے احوال معلوم کرتے تھے۔ سفرِ شام کے دوران آپ کو ایک جھونپڑی نظر آئی ،آپ وہاں گئے تو اس جھونپڑی میں ایک بڑھیا رہتی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں امیر المومنین کی کچھ خبر ہے ؟، بڑھیا نے جواب دیا: جو ہماری خبر نہ رکھے ،اس کی خبر لینے سے ہمیں کیا غرض، سنا ہے وہ شام کے سفر پر نکلا ہے ۔آپ نے اس کے احوال معلوم کیے ، اس کی ضروریات پوچھیں اور ان کی کفالت کا انتظام کیا ، تو اس بڑھیا نے دعاکی:اللہ عمر کی جگہ تمہیں امیر المومنین بنائے اور (واقعی)وہی امیر المومنین بننے کے قابل تھے۔ حضرت عمر کہا کرتے تھے :مجھے حکمرانی کے آداب ویرانے کی ایک بڑھیا نے سکھائے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ سے اتنی اعلیٰ درجے کی محبت تھی کہ آپ نے عمرے کا ارادہ کیا اور نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی ۔نبی کریم ﷺ نے ان کو اجازت عطا کی اور (پیار سے) فرمایا: اے میرے بھیا!ہمیں اپنی دعائوں میں شریک کرنا،بھلانہ دینا ۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے: جب سے یہ کائنات قائم ہے ،رسول اللہ ﷺ کا (پیار سے)''اے میرے بھیا ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا مجھے کائنات کی ساری دولت سے زیادہ عزیز ہے ۔