تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-09-2017

چمپینزی پر جین گوڈال کی تحقیق… (2)

جین گوڈال نے چمپینزی پر تاریخ کی طویل ترین تحقیق کی ۔ 1960ء میں جب اس تحقیق کے لیے وہ افریقہ گئی تو اس کی عمر صرف 26سال تھی ۔ آج جب وہ 83برس کی ہو چکی ہے تو 57برس پہلے شروع کیا جانے والا یہ کام جاری و ساری ہے ۔ جانوروں کے حقوق کے لیے وہ دنیا بھر میں کام کرتی رہی ہے ۔ وہ بہت سے اداروں کی بانی بھی ہے ۔ایک روز اس نے یہ مشاہدہ کیا کہ چمپینزی انتہائی منظم انداز میں شکار بھی کرتے ہیں ۔اس سے پہلے انہیں امن پسند سبزی خور سمجھا جاتا تھا۔ چمپنیزیوں کے ایک گروہ نے ایک روز ایک بندر کے گرد گھیرا ڈالا۔ اس کے فرار کے سب راستے بند کر ڈالے اور پھر ایک چمپینزی درخت پر چڑھ کر اس کے پاس گیا ۔ اس نے اس کے ٹکڑے کر دئیے اور یہ ٹکڑے سب نے مزے لے لے کر کھائے۔ گوڈال نے دیکھا کہ چمپینزی ایک دوسرے کو بھی قتل کر تے ہیں ۔ غالب مادائیں کمتر مادائوں کے بچّے مار دیتی ہیں کہ ان کا غلبہ قائم و دائم رہے ۔ بعض اوقات وہ آدم خوری(یا کہہ لیجیے کہ چمپینزی خوری ) کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں ۔ گوڈال کہتی ہے کہ شروع کے دس سال تک میں یہ سمجھتی رہی کہ گومبی کے چمپینزی انسانوں سے زیادہ مہذب (Nice)ہیں ۔ (لیکن پھر قتل وغارت کے مناظر اسے دیکھنے کو ملے) ۔ گوڈال نے ایک تاریخی کام یہ کیاکہ چمپینزیوں کو نمبر لگانے کی بجائے، ان کے نام رکھے ۔ اس زمانے میں یہ ایک عجیب بات تھی ۔ اس زمانے میں جن جانوروں کا مشاہدہ کیا جاتا تھا، انہیں نمبر لگائے جاتے تھے ۔ گوڈال نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک دوسرے سے الگ شخصیت کے حامل ہیں ۔ ایسے لوگوں کے نام ہونے چاہئیں نہ کہ نمبر۔ وہ دنیا میں واحد انسان تھی ، جسے چمپینزیوں نے بتدریج اپنے گروہ کا ایک حصہ سمجھنا شروع کر دیا؛حتیٰ کہ ایک دن ایک چمپینزی اس کے سامنے بیٹھ گیا کہ وہ اس کی (Grooming)کرے۔یعنی کہ اس کے بالوں میں سے جوئیں اور دوسری چیزیں صاف کر دے ۔ 18ماہ کے لیے وہ چمپنزیوں کے ایک گروپ کا باقاعدہ حصہ بن گئی تھی ۔پھر ایک dominant maleنے بار بار اس پر حملہ کرنا شروع کر دیا تو اسے یہ گروپ چھوڑ نا پڑا۔ 
گومبی میں جین گوڈال کی تحقیق شہرت حاصل کرتی جا رہی تھی ۔ مختلف تجربات کے دوران چمپینزیوں کی آوازیں ریکارڈ کی گئیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش ہوئی ۔ آنے والے برسوں میں حیاتیات، کمیونی کیشن ، نفسیات سمیت مختلف شعبوں سے ماہرین اور سائنسدانوں نے گومبی کا رخ کیا کہ اس کا کام دیکھ سکیں ۔ چیمپینزی کئی سالوں میں اس سے مانوس ہو کر دوسرے انسانوں سے بھی کسی حد تک مانوس ہو گئے تھے ۔ وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے نہیں تھے ۔ اس نے دیکھا کہ چمپینزی بہت متجسس ہوتے ہیں لیکن نئی چیز سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں ۔ اس نے ایک بچے فلنٹ کے سامنے شیشہ رکھا۔ کبھی وہ اس کے سامنے سے ہٹتا، پھر اپنا منہ اس کے سامنے کرتا۔وہ بہت دیر تک خود کو دیکھتا رہا ۔ جین نے بعد میں کہا کہ اگر اسے اس وقت معلوم ہوتا کہ اس کی تحقیق ساری زندگی جاری رہے گی (اور وہ بہت ساری باتیں مستقبل میں جانتی رہے گی )تو وہ چمپینزیوں کے روبرو نہ آتی ۔(خود کو خطرے میں نہ ڈالتی)۔ اس نے کہا کہ چمپینزی انسانوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور جب ان کاخوف اتر جائے تو پھر وہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ 
1966ء میں Gombeمیں پولیو پھیل گیا۔ وہ کہتی ہے کہ یہ ایک خوفناک خواب تھا۔ ایک چمپینزی اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا اور دوسرے اس سے خوف زدہ ہو کر درختوں پر چڑھ گئے تھے۔ ایک مادہ کا بچہ ایک ماہ کا مر گیا تو وہ تین دن تک اسے اٹھائے پھرتی رہی ۔ چیمپینزیوں کو کیلوں میں پولیو ویکسین دی گئی لیکن پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا تھا۔ کسی کا بازو کام نہیں کرر ہا تھا، کسی کی ٹانگیں ۔ فلو (ایک مادہ ) کے ایک بڑے بیٹے Fabenکا ایک بازو ناکارہ ہو گیا تھا۔انہی برسوں میں جین گوڈال کا اپنا بچہ پیدا ہوا ۔فلو کا چھوٹا بیٹا فلنٹ ساڑھے چار سال کا ہو چکا تھا۔وہ حاملہ تھی، اس کا پانچواں بچہ ہونے والا تھا۔ فلنٹ فلو کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا ۔ زبردستی دودھ پینے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ وہ اسے ہٹاتی رہتی تھی ۔ ایک دن فلنٹ نے کافی چیخ و پکار کی اور فو کے بازو پر کاٹا۔مجبوراً فلو اسے اپنی من مانی کرنے دیتی۔ بعد میں اس کے سنگین نتائج ہوئے۔ فلو کا بچہ Flameپیدا ہوا۔ چمپینزی میں بچے کی پیدائش پانچ چھ سال کے وقفے سے ہوتی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد بھی فلنٹ فلو کے سر چڑھا رہا۔ چھ ماہ بعد، جب فلو بیمار تھی، فلیم کو غائب کر دیا گیا اور دوبارہ وہ نظر نہیں آیا۔ اس کے بعد فلو نے یہ کوشش کرنا بھی چھوڑ دی کہ فلنٹ کو خود سے ہٹائے۔ چمپینزی میں عمر چالیس سے پچاس سال تک ہوتی ہے ۔ فلو چالیس سال سے زیادہ کی ہو چکی تھی ۔ اب وہ کمزور ہو چکی تھی ۔ آرام کرتی رہتی تھی ۔ ایک دن وہ مر گئی۔ فلنٹ کی حالت ایسی تھی، جیسے اس کی ساری دنیا کھو گئی ہو۔ وہ اس کے قریب ہی رہا ۔اسے ہاتھ لگا لگا کر دیکھتا رہا۔ کھانا پینا بہت کم کر دیا ۔ پھر وہ بیمار ہو گیا۔ ایک ماہ بیمار رہ کر وہ بھی مر گیا۔
جین گوڈال کہتی ہے کہ بہت ہی حیران کن واقعات پیش آئے۔ وہ چیمپنیزی کے ایک خاندان کا مشاہدہ کر رہی تھی ۔جب یہ خاندان بہت بڑا ہو گیا تو 1972ء میںوہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک حصہ جنوب کی طرف چلا گیا۔ دو سال بعدخاندا ن کے بڑے گروپ کے طاقتور نروں نے چھوٹے گروپ کے ارکان کو ایک ایک کر کے systematicallyشکار کر نا شروع کیا۔ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے ان کے سات مردوں کو قتل کر دیا گیا اور ایک مادہ کو بھی۔ یہ گوڈال کی تحقیق میں اب تک کی سب سے خوفناک دریافت تھی کہ وہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کر سکتے ہیں ۔ یہ ہے وہ نفس جو کہ کرئہ ارض پر evolvedہوا اور جو خوں ریزی پر اکساتا ہے ۔ یہ نام ہے خواہش کا۔ غلبے کا، ذرائع پر قابو پانے کا۔ آج بھی جب ہم اپنے دوستوں اور حتیٰ کہ سگے بھائیوں کو جائیداد خریدتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر کچھ دیر کے لیے یہ جاگ اٹھتا ہے ۔بعض کے اندر یہ جاگتا ہی رہتا ہے اور ان کا ہرعمل اس کے تابع ہو جاتا ہے ۔ 
جین گوڈال پر تنقید بھی ہوئی ۔ مارچ2013ء میں اس کی اور ساتھی مصنف کی کتاب "Seeds of Hope"میں سرقہ پایا گیا اور اس پر تنقید ہوئی۔ اس بات پر بھی تنقید ہوئی کہ اس نے بہت زیادہ مداخلت کی چمپینزیوں کے گروپس میں ، بجائے پسِ منظر میں رہنے کے۔ انہیں خوراک دے کر ان کا روّیہ بدلا ۔ اس نے بہت ساری کتابیں لکھیں۔ ان میں 1971ء میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب "In the Shadow of Man"کا 48زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بہت ساری فلمیں اس پر بنائی گئیں ۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے تحت 1965ء میں بننے والی دستاویزی فلم "Miss Goodall and the Wild Chimpanzees"ان میں سے ایک ہے ۔ 1995ء میں بی بی سی کے Natural World Seriesچیپٹر نے ایک دستاویزی فلم بنائی "Fifi Boys"۔ فی فی ایک مادہ چمپینزی کا نام تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved