چند روز قبل آلو‘ ٹماٹر اور پارلیمنٹ کے ممبروں کی قیمت میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ آلو 30روپے سے80روپے فی کلو تک جا پہنچے جبکہ ٹماٹر دو سو روپے فی کلو تک چڑھ گئے۔ پارلیمنٹ کے بعض اراکین کے ریٹ اچانک اتنا بڑھے کہ خریدار اور بکائو رکن پارلیمنٹ کے فی کلو نرخوں کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔اس ٹریڈ میں بھائو تائو ہمیشہ رازداری سے کیا جاتا ہے۔ جن پارٹیوں کے ممبر پراسرار منڈی میں فروخت ہوئے‘ ان کے بھائو کا ابھی تک راز کھلنے میں نہیں آرہا۔تحریک انصاف اپنے ان دو ممبروں کی تلاش میں ہے‘ جو بازار کا ''مال‘‘ بن کر حکمران پارٹی کی پلٹن میں چھپ چھپا کے داخل ہوگئے۔ مٹھی میں چھپا کر اپنا ووٹ ‘تھوک کے دکانداروں کے سپرد کیا اور واپس اپنی نشست پر‘ یوں آئے جیسے کچھ چرا کے چل رہے ہوں۔ کبھی اپنی پارٹی کے اراکین کو چور نظروں سے یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہیں دیکھ ہی نہ رہے ہوں۔ چہرے پر خوف کی لالی جھلک رہی تھی جیسے اس پارٹی کے سارے ساتھی‘ انہیں نگاہیں جما کر دیکھ رہے ہوں۔ غالباً دیکھنے کا یہی انداز تھا جسے ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے بھانپ لیا ہو اور سمجھ گئے ہوں کہ عتیق میاں‘ کوئی نہ کوئی کرتب دکھا بیٹھے ہیں‘ جیسے وہ کوئی کام‘ اپنی پارٹی سے چھپا ئے بیٹھے ہوں۔ کافی دیر تک تو وہ اپنا راز چھپانے میں کامیاب رہے لیکن ساتھیوں کی نظروں سے بچ رہنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کی پارٹی کے ساتھیوں میں سے ‘ہر کوئی باری باری ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔چند اراکین'' ٹکٹکی ‘‘لگائے ان کے چہرے کا مطالعہ کر رہے تھے اور باقی اراکین ‘نگاہوں کو دوسری طرف کئے یوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جیسے عتیق میاں کو نہ دیکھ رہے ہوں اور پھر پارٹی کے مزید ممبر جو میاں عتیق سے نظریں چرائے بیٹھے تھے‘ اپنی آوارہ نظروں کو کنٹرول کر کے نگاہوں کا نشانہ‘ ان پر چسپاں کر دیتے اورا پنی بچائی ہوئی نظریں دوبارہ ٹارچ کی لائٹ کی طرح آوارہ چھوڑ دیتے۔اس صورت حال میں عتیق میاں کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ آخر کار انہو ںنے اپنے حواس جمع کئے۔ نوٹوں کی گڈیاں‘ تھیلوں میں بند کر کے‘ ایک پلے دار کے سپرد کیں۔ پھر آہستہ سے سرک کر ‘خود اس کے پیچھے ہو لئے۔ سامنے کھڑے ہو کر غور سے دیکھا کہ ''سامان‘‘ خیریت سے گاڑی میں پہنچ گیا ہے؟ پلے دار نے وہی کرتب تو نہیں دکھا دیا؟ جو میاں صاحب نے حکمران پارٹی کو دکھا کر‘ پارلیمنٹ میںپوزیشن بدل کے رکھ دی۔
سچی بات ہے میاں صاحب نے یہ کرتب انتہائی عمدگی سے کیا‘ جیسے چرس فروش ‘ پولیس والوں کے قریب سے گزر جائے اور انہیں پتہ بھی نہ چلنے دے
کہ وہ چھپایا ہوا مال کیسے فروخت کر گیا؟ کیسے اپنے ہاتھ سے چرس کی پڑیاں‘ خریدار کے سپرد کیں اور مال جیب میں ڈال لیا۔پھر چور نظروں سے ادھرا دھر دیکھتے ہوئے‘جانچ رہاہو کہ کسی نے '' خریدو فروخت‘‘ ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھ لی؟ووٹ منڈی میں چرس کی گولیاں تو بکتی نہیں ‘وہاںووٹ کے سودے ہوتے ہیں۔ ووٹ چرس کی گولیاں نہیں ہوتے کہ چند کش لگا کر سارا ''مال‘‘ ہوا میں اڑاد یا جائے۔خواجہ سعد رفیق ‘ووٹ منڈی کے پختہ خریدار نظر آتے ہیں۔ کسی کو پتہ تک نہیں چلتا کہ وہ منڈی کے مال کے ساتھ کندھا چھو کر گزرتے گزرتے ''سودا‘‘ کر جاتے ہیں؟ صرف دو دن کے اندر اندر‘ انہوں نے منڈی میں دستیاب سارے مال کا ‘آنکھوں ہی آنکھوں میں سودا کر کے‘ اسے اپنی ''کمپنی ‘‘ کی طرف روانہ کر دیا۔ مال خریدار کے ہاتھوں میں پہنچ گیا اور فروخت کنندہ کے ہاتھوں میں منتقل بھی ہو گیا۔ زمانہ بہت ترقی کر گیا ہے۔ خدا جانے ووٹ فروشوں کو یہ پتہ بھی چل پایا ہے کہ ووٹ کی پرچی‘ جہاں رکھ کر نشان لگایا ‘اس پر خفیہ کیمرہ فکس ہے ‘جو آسانی سے دکھائی نہیں دیتا۔ کائونٹر کی جس جگہ ‘ ووٹ کی پرچی رکھ کر اس پر نشان لگایا جاتا ہے ‘ اسی جگہ پرتو خفیہ کیمرے کی نظر پوری طرح سے فکس رکھی ہوتی ہے۔ کیمرہ ووٹ کا عکس اپنی نگاہ میں بند کر تا ہے‘ کسی ووٹر کو اس کارگزاری کا پتہ نہیں چلتا اور اگر کوئی دیکھ بھی لے‘ تو اپنی آنکھ یوں بند کرتا ہے‘ جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو۔جب یہ خفیہ کاروبار ہوتا ہے تو سارے کے سارے ناظرین ہر چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بیشتر کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آج نو بجے کا ریٹ کیا ہے؟ دس بجے کا ریٹ کیا ہے؟ اور رات تک ریٹ چڑھتے چڑھتے کہاں تک پہنچ جائے گا؟ پارلیمنٹ کی عمارت میں جانے والے صحافیوں کی نظر ' 'بکائو مال‘‘ پر ٹکی ہوتی ہے اور وہ چہرے دیکھ کر‘پہچان لیتے ہیں کہ ووٹ کس نے بیچا ہے؟ خریدار نے کتنا مال کب اور کیسے خریدنے میں کامیابی حاصل کی ہے؟ بعض منجھے ہوئے صحافی‘ کیمرے کے سامنے اور رپورٹنگ ڈیسک پر خبر بناتے وقت ‘بظاہر کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتے کہ وہ سب کچھ دیکھ آئے ہیں اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ خود ہی سودا کر کے‘ انجان بن جاتے ہیں‘ جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں ۔ ووٹ منڈی کا کاروبار‘ سٹاک ایکسچینج سے زیادہ خفیہ طریقے سے چلتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں تو صر ف ''آج کے بھائو‘‘جان کر بڑے بڑے خریدار اور فروخت کنندگان‘ نرخوں کی اونچ نیچ سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ووٹ منڈی میں حکومتیں گرتی بھی ہیں اور بٹھائی بھی جاتی ہیں۔گرتے ہمیشہ عوام ہیں‘ جو اس منڈی کے لین دین سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ حکمران ‘عوام کی جیبیں کاٹ کر‘ چلتے بنتے ہیں۔ ان کی شکلیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے کہ سب سے بڑے خریدار کی معصوم سی بھولی بھالی صورت۔