تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-09-2017

وسیب کی وقتی بازی اور نیب عدالت

میاں نوازشریف نے کافی عرصے بعد کوئی سمجھداری کا کام کیا ہے اور وہ واپس آ کر نیب ریفرنس میں پیش ہو رہے ہیں‘ یہ بات تو پکی ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی صورت خود نہیں کیا مگر کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے کسی سمجھدار کی بات سن ہی لی اور مان بھی لی ہے۔ اخبارات کی بھلی پوچھیں۔ مگر ان کا بھی کیا قصور؟ ان میں ہم جیسے ہی لکھتے ہیں۔ ہر لکھنے والا خود کو عقلمندوں کا آئی جی سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ ہر روز دور کی کوڑی لائے۔ کسی نے کل پرسوں ہی لکھا تھا کہ لندن میں میاں نوازشریف اور شہبازشریف کے درمیان گرمی سردی ہوئی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اگر مریم اور حمزہ میں گرما گرمی کی خبر ہوتی تو اس پر بھی یقین نہ کرتا کہ ان کے درمیان بھی سردمہری کے علاوہ اور کچھ نہیں اور میاں صاحبان کے ہوتے ہوئے فی الحال اگلی جنریش اپنے تمام تر اندرونی حسد اور بغض کے باوجود کھل کر ایک دوسرے کے ساتھ گرما گرمی نہیں کر سکتی کہ لاکھ چیزوں سے اختلاف کے باوجود یہ عاجز بھی سمجھتا ہے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان جو احترام اور محبت کا رشتہ ہے‘ وہ بھی باہمی تحفظات کے باوجود قائم ہے اور ان کے ہوتے ہوئے کسی بچے کی شاید جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ کھل کر ایک دوسرے سے کچھ کہہ سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ مریم صفدر اپنی والدہ کی انتخابی مہم کی انچارج بنا دی جائیں اور حمزہ شہباز جواباً ناراض ہو کر بلکہ ایک پنجابی لفظ کے عین مطابق ''رُس‘‘ کر نیویارک کی سڑکوں پر اپنا غصہ نکالتا پھرے۔
میرا گمان ہے کہ میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی اور ریفرنس کا سامنا کرنے کا مشورہ بنیادی طور پر تو ان کی لیگل ٹیم نے دیا ہو گا لیکن شہبازشریف نے بھی انہیں یہی کہا ہو گا ہ وہ معاملات کو قانون کے دائرے کے اندر رہ کر نمٹانے کی پالیسی پر شروع دن سے عمل پیرا ہیں جبکہ میاں نوازشریف کا لائحہ عمل اس سے ایک سو اسی ڈگری پر تھا۔ تاہم یہ ایک اچھی ابتدا ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنی لیگل ٹیم اور میاں شہبازشریف کی بات سننے کے بعد اسے مان بھی لیا اور واپس بھی آ گئے۔
دیہاتی بیک گرائونڈ کے مالک لوگوں کی قانونی سمجھ بوجھ بڑی زبردست ہوتی ہے اور وہ ہوا کو سونگھ کر کسی قانونی معاملے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں اور عموماً ان کا اندازہ بالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ اور کوئی نہیں ہوتی صرف عدالت میں زمین اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات بھگتتے بھگتتے ان میں عدالتی چھٹی حس پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنی اسی چھٹی حس سے کام لیتے ہوئے بڑی صائب رائے دیتے ہیں ان کا مشورہ یا اندازہ سو فیصد نہ سہی لیکن اکثر درست ثابت ہوتا ہے۔ ملک خالد بھی کیونکہ دیہاتی بیک گرائونڈ سے تعلق رکھتا ہے‘ اس لیے عدالتی معاملات میں اس کے اندازے بڑے ٹھیک ہوتے ہیں اور اس کی رائے کو اہمیت نہ دینا حماقت ہے۔ اس کا میاں نوازشریف کی اس آمد بارے بڑے واضح اندازہ ہے۔
ملک خالد کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف صرف کل والی تاریخ بھگتانے آئے ہیں اور اس کو بھگتاتے ہی وہ واپس برطانیہ چلے جائیں گے۔ ان کی حاضری کے موقع پر ان کے وکیل ان کی آئندہ حاضری کا استثنا مانگ لیں گے اور انہیں آئندہ حاضری سے استثنا مل جائے گا اور وہ شتابی سے واپس چلے جائیں گے۔ نیب کو بھی ان کی حاضری کے بعد اطمینان حاصل ہو جائے گا اور میاں نوازشریف کو بھی اس سے سیاسی سہارا مل جائے گا۔ ان کے حواری ایک بار پھر سے یہ کہتے پھریں گے کہ دیکھیں میاں صاحب نے اتنی عدالتی ناانصافیوں کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور انصاف سے ناامیدی کے گھنیرے سائے تلے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ان پر کوئی ایسا الزام نہ آئے کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کو ماننے سے انکاری ہیں۔ میاں صاحب ایک تیر سے دو شکار کریں گے۔ عدالت اور اپنے حامیوں کو بیک وقت مطمئن کریں گے اور ان کی آمد سے شیخ رشید جیسے نجومیوں اور بعض ہمہ وقت الہامی قسم کی گفتگو کرنے والے اینکروں کے غیبی دعوئوں پر جو اوس پڑی ہے اور وہ ایک علیحدہ قسم کی چیز ہے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ میاں صاحب بھاگ گئے ہیں اور اب وہ واپس نہیں آئیں گے ان کے علم غیب کے ساتھ جو ہوا ہے وہ بھی ایک چسکے لینے والی شے ہے‘ یہ کہہ کر ملک خالد نے میری طرف دیکھا اور بڑے ''کھچرے‘‘ پن سے مسکرایا۔ میں جواباً کھسیانا سا مسکرایا۔
ملتان اور اس کے نواح میں بلکہ زیادہ واضح کہوں تو کبیروالا‘ شورکوٹ اور جھنگ وغیرہ کے دیہات سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ بڑی اچھی عدالتی حس سے مالا مال ہوتے ہیں بلکہ اس میں حس مزاح بھی بدرجہ اُتم موجود ہوتی ہے۔ ویسے تو پورے جنوبی پنجاب میں دیہاتی لوگ جگت مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن وسیب کے علاقے کی جگت کا ''لائل پوریوں ‘‘سے یعنی فیصل آبادیوں سے موازنہ کرنا مناسب نہیں ہو گا کہ لائل پوری اس معاملے میں پی ایچ ڈی ہیں اور ان سے مقابلہ کرنا کم از کم پاکستان میں کسی اور شہر کے رہائشیوں کے لیے ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود کہوں گا کہ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں جگت بازی کی صنف ایک اور شکل میں موجود ہے جسے ''وقتی کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ عشرے گزرے مجھے ایک رات دریا سندھ کے کنارے گزارنے کا اتفاق ہوا۔ قصبہ گورمانی میں تب میرا کلاس فیلو رائو اشرف ہوتا تھا۔ اب وہ جنوبی افریقہ ہوتا ہے۔ وہ رات بھی کیا رات تھی۔ پہلے دریا میں گھنٹوں نہایا گیا اور ''پکڑن پکڑائی‘‘ کھیلی گئی۔ چاندنی رات تھی اور خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ اس کے بعد دریا کے کنارے بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے اور کھانا شروع ہو گیا۔ ایک پرتکلف کھانا جس میں دیسی بکرے اور دیسی مرغیوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ ساتھ ساتھ'' وقتی بازی‘‘ شروع ہو گئی۔ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے دو گروپوں میں جگت بازی شروع ہو گئی۔ ایسی عمدہ اور فی البدیہہ جگتیں کہ کوئی ٹی وی پروڈیوسر دیکھ لے تو کسی اینکر کے بغیر چلنے والا یہ پروگرام کم از کم وسیب کے علاقے میں باقی سب پروگراموں کو مات دے دے۔ مگر وسیب میں چلنے والے ٹی وی پروگراموں میں باقی سب کچھ ہے صرف وسیب کی نمائندگی ہی نہیں۔ خیر بات کہیں اور چلی گئی۔ سعید سے ملاقات ہوئی تو اُس نے کبیر والا کی ایک عدالت میں پیش آنے والا واقعہ سنایا۔
دیہاتی بابا اپنے وکیل سے بھی مطمئن نہیں تھا اور اسے پورا اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کا وکیل کیس کے وہ ضروری نکات بیان نہیں کر رہا جس پر پورے کیس کا دارومدار تھا۔ بابا جی نے جج سے درخواست کی کہ وہ اپنے کیس کو بذات خود لڑنا چاہتا ہے اور خود بحث کرنا چاہتا ہے۔ جج نے اجازت دے دی۔ بابا جی نے کیس پر بحث شروع کر دی اور اپنے کیس کے حق میں کافی سارے دلائل بھی دیئے اور نکات بھی پیش کئے۔ جب بحث ختم ہو گئی تو مُنہ میں پین دبائے ہوئے جج نے منہ سے پین نکالا اور کہنے لگا۔ بابا جی! مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی‘ آپ ایسا کریں کہ کوئی وکیل رکھ لیں۔ بابا جی نے جج کی طرف بڑے تمسخر سے دیکھا اور کہنے لگا۔ جج صاحب! آپ نے اچھی بات کی ہے۔ سمجھ آپ کو نہیں اور وکیل میں رکھ لوں۔ آپ کو سمجھ نہیں آئی تو وکیل آپ رکھیں۔ میں کیوں رکھوں۔ عدالت میں موجود سب لوگ زیرلب مسکرانے لگ گئے۔
نیب میں میاں صاحب کے کیس پر آج کل میں بحث ہونے والی ہے۔ دیکھتے ہیں کون وکیل کرتا ہے؟ میاں صاحب یا جج صاحب ! تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں فریق ''وقتی بازی‘‘ کر کے فارغ ہو جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved