انٹرنیٹ کی ایک ویب سائٹ http://www.foxnewspoint.comپر‘ دنیا کے ایسے سیاست دانوں کا تذکرہ ہے جو نہ صرف امیر کبیر بلکہ کرپٹ ترین بھی ہیں ۔ یہ تمام ایسے ہیں جن کی دولت کا کوئی شمار نہیں۔اپنے پسندیدہ کرپٹ لیڈروں کی دولت مندی کا مختصر تعارف‘ درج بالا ویب سائٹ کے مطابق‘پیش کر رہا ہوں۔ سب پڑھ کر‘مجھے تو یقین نہیں آتا۔حکمرانی سے دولت سمیٹنے والے چند خوش نصیبوں کے اسمائے گرامی پیش ہیں۔
ولادی میر پوٹن ایک کرپٹ سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ‘ روسی فیڈریشن کے انتہائی طاقتور صدر بھی ہیں۔ اس بات کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جو 1999ء سے 2012ء تک سامنے آئے‘ ان کا شماردنیا کے کرپٹ ترین سیاست دانوں میں ہوتا ر ہا ۔ پاناما پیپرز کے انکشاف کے مطابق‘ وہ بے شماردولت کے مالک ہیں۔ ان کے متعدد تجارتی ادارے ہیں اور انہوں نے مختلف ممالک میں دو ارب ڈالر کے اثاثے بنا رکھے ہیں۔ خوراک کے متعدد سودے کر کے‘ بے پناہ دولت کمائی۔ سپین میں محلات بنائے‘ جو ان کے دوستوں کے بھی کام آتے ہیں۔ بدعنوانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پوٹن نے اپنے وطن میں بھی بے پناہ دولت جمع کر رکھی ہے۔ اپنے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور اعلیٰ درجے کی کرپشن میں ملوث ہیں۔اسی بنا پر‘ ان کا دنیا کے امیر ترین سیاست دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
وہ اپنے ملک میں 1963ء سے2011ء تک کے ایک اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔پاناما پیپرز میں ان کے آف شور اثاثوں کی خفیہ دستاویزات اور بنکوں کے حسابات کی لیکس سامنے آئیں جن میں بہت بڑی رقوم کا پتہ چلا۔ صرف لندن کی کمپنیوں میں ان کے34ارب ڈالرز موجود ہیں۔
ڈیوڈ گن لایوگرشن‘ اپنے جزیرے کا بااثر سیاست دان اورنوجوان وزیراعظم ہے۔وہ بھی آف شور کمپنی کامالک ہے۔حال میں جو پاناما پیپرزمنظر عام پر آئے ‘ ان میں جب اس کی بے انتہا دولت کا راز کھلا تو ا س نے وزرات عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔تاریخ میں سب سے بڑی خفیہ دولت کا جو راز سامنے آیا ہے‘ اس پر الزام ہے کہ جب سے وہ و زیراعظم بنا‘ تواس کے ووٹرز کی وجہ سے‘ اس کی دولت بے پناہ بڑھی ۔کہا جاتا ہے کہ وہ لندن میں غیر قانونی جائیدادوں کا مالک ہے اور اس کے علاوہ آف شور کمپنیاں بھی بنا رکھی ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون‘ کا شمار لندن کے انتہائی رئیس خاندانوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک برطانوی سیاست دان ہیں‘ اور برطانیہ کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک ‘کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔پاناما پیپرز کے مطابق‘ کیمرون انتہائی کرپٹ سیاست دا ن ہیں۔ اس کے علاوہ آف شور کمپنیاں ان کی ملکیت ہیں لیکن وہ ان کا وجود ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں تو لندن میں صرف ایک مکان کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کوئی اثاثہ نہیں۔ کیمرون‘ افغانستان اور نائیجریا کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک‘ انتہائی کرپٹ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ملک برطانیہ کو‘ کرپشن سے پاک قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ان پر اعلیٰ درجے کی کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے کرپٹ ترین سیاست دانوں میں شامل ہیں۔
اب آتے ہیں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک‘ یعنی بھارت کے وزیراعظم‘ نریندی مودی کی طرف۔ انہیں بھی دنیا کے کرپٹ ترین سیاست دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔وہ بھارتی صوبے‘ گجرات کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیںاور اب بھارت کے‘ 14ویں وزیراعظم ہیں۔جب وہ گجرات میں وزیراعلیٰ تھے ‘اس وقت سے مودی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران‘ بھارت کی نامور کمپنی سہارا اور چوٹی کے سرمایہ دار‘ برلا سے 55کروڑ روپے الیکشن کے نام پرلئے تھے ۔ مودی یہاں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ گزشتہ انتخابات کے دوران‘ انہوں نے اپنے سرمایہ دار دوستوں سے‘ انتخابی مہم کے لئے اربوں روپے بٹورے۔یہی وہ اصل طاقت تھی جس کے بل بوتے پر مودی‘ بھارت جیسے بڑے ملک کے حکمران بنے۔
اب آتے ہیںگزشتہ روز پاکستان کے مقبول سیاست دان‘ میاں نوازشریف کی پریس کانفرنس کی جانب۔ جس میں انہوں نے میں کہا'' میری اہلیت کا فیصلہ‘ بیس کروڑ عوام کو کرنے دیں۔ جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے لڑ رہا ہوں اور لڑتا رہوں گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم کی محبت میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ''سب جانتے ہیں کہ2013ء میں ملک کی کیا حالت تھی؟ آج ملک کی صورت حال ماضی سے کتنی بہتر ہے؟‘‘۔وہ چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بننے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کاخاندان اور حامی ‘ ان کے لئے مزید اقتدار اور دولت کی دعائیں مانگتے ہیں۔فوکس نیوز پوائنٹ والے‘ ہمارے سابق وزیراعظم ‘ میاں صاحب کی دولت اور اثاثوں کا ذکر کرتے ہوئے‘ ان کے مقدموں کی تفصیلات چھپا گئے۔ عوام کویہی شکایت رہتی ہے کہ ان کے پسندیدہ حکمرانوںپر بلاوجہ الزام تراشی کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کی دولت مندی کی کہانیاں جس طرح ویب سائٹ پربڑھ چڑھ کر بیان کی گئی ہیں‘مجھے ان پر یقین نہیں آتا۔سابق حکمرانوں میں آصف زرداری اور میاں نوازشریف کی وہ تعریف نہیں کی جاتی ‘ جس کے وہ مستحق ہیں۔