سابق وزیراعظم کی طرف سے اچانک واپسی کا سرپرائز دینے کا مطلب ہے کہ وہی کارڈ پھر کھیلناچاہ رہے ہیں جو انہوں نے دس ستمبر2007 کو کھیلا تھا ۔ انہی سیانوں کا خیال ہے کہ اگر میاں صاحب تھوڑی سی ہمت دکھائیں تو وہی نتائج دوبارہ حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلے یہ خبر مریم صفدر نے ٹوئیٹر پر دے کر داد پائی تھی کہ شریف خاندان نیب عدالت میں پیش نہیں ہوگا۔ پوری دنیا سے بہادری کی داد وصول کرنے کے بعد انہوں نے اچانک صحافیوں پر تبّرہ شروع کردیا کہ سب کی خبریں جھوٹی نکلیں ، میاں صاحب تو عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ مریم صفدر جنہوں نے سرعام جو ٹوئیٹ کیا وہ کسی کو یاد نہیں ۔ قصور صحافیوں کا نکل آیا ۔ تو کیا جان بوجھ کر اپنے وفاداروں کے ذریعے یہ خبریں پلانٹ کرائی جارہی تھیں کہ نواز شریف وطن نہیں آئیں گے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہوں گے، جس نے جو بگاڑنا ہے ، بگاڑ لے؟ جب ماحول تیار ہوگیا اور میاں نواز شریف بھی اگلی لڑائی کے لیے تیار ہیں تو مافیا اسٹائل میں سرپرائز دے دیا گیا ہے۔ اس سے بھی فائدہ اٹھایا گیا کہ دیکھا میاں صاحب نہ ڈرنے والے ہیں نہ جھکنے والے۔
اگر آپ نے جھکنا یا بکنا نہیں تھا تو پھر مریم صفدر نے ٹویٹ کیوں کیا تھا کہ شریف خاندان نیب عدالت میں پیش نہیں ہوگا؟ اگر تبدیلی آئی ہے تو شریف خاندان کے موقف میں آئی ہے۔ یہ بھی عجیب واردات ہے۔ عدالت میں پیش ہونے سے انکار پر بھی ہیرو بن جائواور عدالت میں پیش ہوکر بھی داد سمیٹ لو ...یہ بھی نیا انداز ہے۔ اپنا وزیراعظم بھی بنوا لو، مرکزی حکومت بھی ہاتھ میں رکھو، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی بھائی کے پاس ہے ، دو صوبائی حکومتیں بھی اپنی ہیں اور نواز شریف اور مریم صفدر اپوزیشن کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ حکومت بھی اپنی اور اب اپوزیشن بھی...پہلے گھر کا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو اب گھر کا اپوزیشن لیڈر بھی اپنا ۔ اسے کہتے ہیں اصلی اور نسلی جمہوریت جس کا فائدہ ایک گھرانے کے افراد کو ہوتا ہے۔ پروین شاکر کا وہ شعر یاد آتا ہے ؎
اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پائوں، ہاروں تو پیا تیری
شریف خاندان سیاست میں یہی بازی کھیل رہا ہے ،جس میں وہ ہار بھی جائے تو بادشاہت ان کے گھر میں ہی رہتی ہے۔
بہرحال وہ صاحب جو یہ سکرپٹ لکھ رہے ہیں ان کے پرانے مشوروں کے ہم گواہ ہیں ۔جب لندن میں دو ہزار سات میں نواز شریف کو بتایا جاتا تھا کہ انہیں ہر قیمت پر پاکستان لوٹنا ہوگا ‘تو ایک صاحب انہیں امام خمینی قرار دیتے تھے ۔ کہا جاتا کہ بینظیر بھٹو کے بعد اگر وہ پاکستان نہ گئے تو ٹرین مِس کر بیٹھیں گے۔ جنرل مشرف مزید طاقتور ہوگا، بینظیر بھٹو وزیراعظم بن جائیں گی اور وہ لندن کی گلیوں میں'' مرزا یار‘‘ بن کر پھرا کریں گے۔ اس وقت ان سیانوں کا خیال تھاکہ نواز شریف ‘بینظیر بھٹو کے وطن جانے سے پہلے پاکستان جائیں ۔ زیادہ سے زیادہ جنرل مشرف انہیں واپس بھیج دیں گے یا پھر اٹک قلعہ میں‘جہاں سے سعودی انہیں نکال کر لے گئے تھے۔ بلاشبہ وہ بہترین ٹائمنگ تھی ۔ جنرل مشرف وکیلوں سے لڑائی لڑ رہے تھے۔ عدالتیں جنرل مشرف سے لڑ رہی تھیں ۔ وکیل سڑکوں پر حکومت سے لڑ رہے تھے۔ میڈیا جنرل مشرف کے خلاف اعلان بغاوت کرچکا تھا ۔ لال مسجد آپریشن کے بعد مذہبی طبقات بھی جنرل مشرف کے خلاف تھے اور ملک میں پُرتشدد کارروائیاں شروع تھیں ۔ نواز شریف کے پاکستان چھوڑ کر جانے کے بعد ایک نسل جوان ہوگئی تھی ۔ 1999ء میں سوشل میڈیا کا تصور تک نہیں تھا ۔ کسی کو کچھ یاد نہیں تھا کہ آٹھ برس قبل نواز شریف کا دور کیسا تھا ۔ لوگ جنرل مشرف سے تنگ آچکے تھے لہٰذا کوئی نواز شریف کے وہ دن یاد کرنے پرتیار نہ تھا جب وہ اپنے تین سالہ مختصر دور میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ‘ جنرل جہانگیر کرامت‘ صدر فاروق لغاری کو گھر بھیج چکے تھے اور مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے پہلے سعودیہ اور پھر لندن جا بیٹھے تھے اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھے لندن میں درس دیا کرتے تھے اور ہم یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے تھے کہ وہ چی گویرا بن چکے ہیں۔
اس بیک گراونڈ میں جب وہ پاکستان لوٹے تو وہی کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا ۔ بینظیر بھٹو کے بعد نواز شریف کو روکنا مشکل تھا ۔ اگلا الیکشن پنجاب میں جیت لیا گیا ۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف مقدمات واپس، سزائیں کالعدم اور الیکشن لڑنے پر پابندی بھی اٹھا لی گئی۔ عدلیہ بحالی تحریک کی نقدقیمت وصول کر لی گئی اور پھر چند برس بعد وہ وزیراعظم ہاوس پہنچ گئے۔
وہی سیانے اب انہیں دس برس پرانی کہانی دہرانے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔وہی نتائج ملیں گے جب سب منع کررہے تھے لندن نہ چھوڑیں۔ آپ دوبارہ اٹک قلعے جا بیٹھیں گے۔ سعودی عرب بھی خلاف تھا اور انٹیلی جینس چیف نے اسلام آباد پہنچ کر پریس کانفرنس کی اور نواز شریف کو ان کا دس سال کا معاہدہ لہرا کر دکھایا۔ جب نواز شریف نہ مانے تو انہیں اگلے روز اسلام آباد ایئرپورٹ سے جہاز میں ایک قیدی کی طرح واپس بھیج دیا گیا ۔
ہمارے انقلابی دوست غالباً معاملات کا درست ادراک نہیں کر پائے کہ شاید پرانا سکرپٹ نئے حالات میں ہٹ نہ ہو۔ان دس برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ہے۔ اب نواز شریف کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے سعودی عرب نہیں لے جایا گیا جس سے اس وقت لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوگئی تھیں‘ اور تو اور ہارون الرشید جیسے کالم نگار بھی ان کے حق میں دھڑا دھڑ لکھ رہے تھے۔ اب ہوا کا رخ تبدیل ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیںکہ نااہل وزیراعظم کو بیس گاڑیاں کیسے پروٹوکول کے ساتھ ایئرپورٹ سے لے کر گئیں؟جس عدالت نے نواز شریف کو سن دو ہزار میں چودہ برس قید اور اکیس سال نااہلی کی سزا سنائی تھی وہ جنرل مشرف کی عدالت تھی لہٰذا لوگوں نے سمجھا ،بھٹو کی طرح فوجی آمر نے نواز شریف کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا ۔ اب جس عدالت نے نواز شریف کو نااہلی کی سزا سنائی ہے ،اس ملک کا سربراہ چاہے وہ صدر ہو یا وزیراعظم دونوں نواز شریف کے اپنے منتخب کردہ ہیں ۔ لہٰذا وہ ہمدردی بھی نہیں مل سکتی۔ پچھلے ایک سال میں ،پاناما کیس میںجو انکشافات سامنے آئے ہیں اس سے بھی نواز شریف کی مقبولیت کا گراف برق رفتاری سے نیچے آیا ہے ۔ طیارہ سازش کیس میں بہت جھول تھے۔ پاناما سیدھا سادہ معاملہ تھا، سب کو سمجھ آگیا۔ وہ'' متھ ‘‘بھی ٹوٹ گئی کہ صرف آصف زرداری ہی کرپٹ ہیں جن کو شہباز شریف گوالمنڈی چوک میں لٹکانے کی باتیں کرتے رہے۔
جنرل مشرف کے دور میں نواز شریف جیل جاتے تو یقیناًہیرو بنتے کہ فوجی آمر تھا۔ اب کی دفعہ جیل گئے تو اپنے ہی وزیراعظم پر کیسے حملہ کرسکیں گے کہ شاہد خاقان عباسی نے احتساب عدالت کے ساتھ مل کر پھنسوایا ؟ اب کی دفعہ پنجاب میں بھائی ہے تو مرکز میں اپنا بچہ جمورا ۔ وہ کس پر الزام دھریں گے؟ عدالتوں پر ؟ اس پر پہلے ہی حملے کر کے دیکھ چکے۔ فوج پر بھی الزامات وہ لگا رہے ہیں ۔ جی ٹی روڈ پر ریلیاں نکال چکے۔ لاہور الیکشن بھی دیکھ چکے چالیس ہزار کی برتری پندرہ ہزار تک آگئی ،لوگ چکر میں نہیں آرہے۔ میڈیا کو ساتھ ملانے کے باوجود پاناما ان کی جڑوں میں بیٹھ گیا ۔اوپر سے بیڈ گورننس کا بوجھ ہے پھر بھی اس سکرپٹ رائٹر کو داد دینا بنتی ہے کہ جو طریقہ واردات دو ہزار سات میں آزمایاتھاوہی اب بھی آزما کر نواز شریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنوایا جاسکتا ہے۔
آپ لوگوں کو وہ لطیفہ یاد ہوگا جو کچھ دن پہلے ہی کالم میں لکھا تھا : ایک بچہ کنویں میں گر گیا۔ ایک سیانے نے اس کی کمر سے رسہ بندھوا کر اوپر کھینچ لیا ، وہی بچہ درخت پر چڑھ گیا توکمر سے رسہ باندھ کر نیچے کھنچوایا ‘ وہ نیچے گر کر مرگیا ۔ بقول سیانے کے اس کا قصور نہیں تھا کیونکہ اسی طریقے سے اس نے کنویں سے بچے کو صحیح سلامت نکال لیا تھا ۔
میرے انقلابی دوست اب درخت پر چڑھے نواز شریف کو نیچے اتارنے کے لیے کنویں سے نکالنے والے فارمولے آزمائیں گے تو پھر وہی ہوگا جو گائوں کے سیانے کے ہاتھوں بچے کا ہوا تھا ۔ اب ان سیانوں کو کون سمجھائے اس وقت نواز شریف کنویں میں پھنسے ہوئے تھے، انہیں نکالنا آسان تھا ۔ اب کی دفعہ موصوف درخت پر چڑھے ہوئے ہیں!