امریکہ کے نئے اور ہونہار صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی کانگریس اور سینیٹ کے نئے اور جان مکین جیسے برسوں سے منتخب چلے آ رہے اراکین کی شاید یاد داشتیں کمزور پڑ گئی ہیں یا وہ برسوں سے اپنیبا اعتماد اتحاد ی پاکستان کو اس کی دوستی کی سزا دینے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے ہی ایک وزیر دفاع چک ہیگل کا وہ لیکچر یاد نہیں آ رہا جس میں انہوں نے کہا تھا '' بھارت عرصہ دراز سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف دوسرا فرنٹ استعمال کرتے ہوئے اس کے اندردہشت گردی کرا رہا ہے ‘‘۔ چک ہیگل کے اس انکشاف کے بعد امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے نئے سٹاف کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بطور وزیر دفاع پنٹاگان کا چارج لینے سے قبل چک ہیگل امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی میں کام کر چکے تھے جہاں ان کے پاس افغانستان کی صورت حال کے بارے میں امریکی سی آئی اے اور پنٹاگان کی رپورٹس پہنچا کرتی تھیں۔ چک ہیگل کے تہلکہ خیز انکشاف کے مطا بق بھارت کی خفیہ ایجنسی راء اور افغانستان کی خاد جسے اب نیشنل ڈائریکٹوریٹ سروس کا نام دے دیا گیا ہے ان کے آپس میںپرانے اور گہرے تعلقات ہیں NDS کی تمام ٹریننگ چونکہ بھارت نے کی ہے ا س لئے اس میں چن چن کر ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جن میں پاکستان دشمنی نفرت کی حد تک بھری ہوئی ہے‘‘۔ چک ہیگل کی اس رپورٹ کے با وجود جب امریکی صدر اور ان کی نئی ٹیم پاکستان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے تو اس کے چند دن بعد ہی بھارت کے سب سے معتبر اخبار ہندوستان ٹائمز میں بھارت کے ہی ایک اہم ادارے کے پالیسی ساز نے انکشاف کرتے ہوئے ایسا بھر پور طمانچہ رسید کیا کہ سب کے ہوش اڑ گر رہ گئے ۔۔۔۔یہ طمانچہ صرف نریندر مودی کے منہ پر ہی نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ہر اس امریکی سینیٹر اور رکن کانگریس کے علا وہ امریکہ کے ان جنرلز کے منہ پر بھی مارا گیا ہے جو پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے نہیں تھکتے۔
یہ بھر پور تھپڑ کسی اور نے نہیں بلکہ بھارت کے مشہور و معروف فرد نے پوری طاقت سے جڑ دیا ہے بھارت کے صفحہ اول کے اخبار میں ایک مشہور تجزیہ کار نے لکھاہے کہ ''بھارت کی پریمیم خفیہ ایجنسی راء کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان بھارتی راء کاایک ذیلی ادارہ بن چکا ہے‘‘۔
پروفیسرBharat Kamdar برائے نیشنل سکیورٹی سٹڈیز سینٹر برائے پالیسی ریسرچ اورWhy India is not a great power(yet) جیسی مشہور کتاب کے مصنف نے ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بھارت کو خبردار کیا ہے '' کہ تحریک طالبان پاکستان کا کارڈ وہ کھیل رہا ہے اسے اس سے فوری طور پر ہاتھ کھینچ لینا چاہئے کیونکہ بھارت کی راء اور نئی دہلی میں براجمان جی ایچ کیو کے لوگوں کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جو لوگ آپ نے اپنے ساتھ رکھے ہوئے ان میں سے کئی گروپوں کا تعلق تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ ہے جو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور جب بھی یہ بات افغانیوں اور پاکستان کے فاٹا سمیت قبائلی علا قوں میں پھیل گئی کہ تحریک طالبان پاکستان کا مولوی فضل اﷲ ہندوستان کا سکہ بند ایجنٹ ہے تو اس کا شدید رد عمل بھارت کیلئے انتہائی نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے ۔
25 ستمبر سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل(ر) جیمز میٹس بھارت کے دورے پر نئی دہلی پہنچ چکے ہیں لیفٹیننٹ جنرل جیمز میٹس بحیثیت ہیڈ آف US سینٹرل کمانڈ پاکستان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ہی کی وجہ سے طالبان افغانستان میں گھٹنوں تک جھکنے پر مجبور ہوئے تھے کیونکہ اگر ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاکستان بلا تفریق تمام دہشت گردگروپوںکے خلاف بے رحم آپریشن نہ کرتا تو طالبان کی طاقت اور کمک میں کمی آنے کی بجائے مزید بڑھ جانی تھی۔
بی بی سی کے پروفیسر بھرت کامدار کی جانب سے کئے جانے والے ان کے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اﷲ احسان کا وہ بیان بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر مولوی فضل اﷲ اور اس کے قریبی ساتھیوں کا تعلق بھارت کی خفیہ ایجنسی راء سے ہے اور وہی ان کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھیجتے وقت ٹارگٹ کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ کئی دفعہ انہیں مقامی آبادیوں میں گھسے ہوئے اپنے آدمیوں کے ذریعے ضروری سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔پروفیسر بھرت کامدار ہندوستان ٹائمز میں لکھتے ہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان پر کہ امریکہ افغانستان میں غیر محدود مدت تک قیام کرے گا اور افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے کی بجائے مزید پانچ ہزار فوج بھیجے کا ارادہ رکھتا ہے اس لئے بھارت کی افغانستان میں مستقل موجود گی کیلئے بھی کام کرنا ہو گا کیونکہ ۔۔۔۔بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے تحریک طالبان پاکستان سے رابطے اور تعلقات پاکستان کو لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے مقابلے میں جھکانے کیلئے فائدہ مندرہیں گے۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی کے موجو دہ امیر ملا فضل اﷲ کو NDS اور راء نے افغانستان میں اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے۔۔۔2013 میں جب حکیم اﷲ محسود کے نائب لطیف اﷲ محسود کو افغانستان کیNDS کے لوگ اپنے ساتھ لئے ہوئے پاکستانی بارڈر کی جانب لے کر جا رہے تھے تاکہ وہاں بیٹھ کر وہ دہشت گردی کرا سکے تو امریکی میرین این ڈی ایس کے لوگوں سے لطیف اﷲ محسود کو چھین کر لے گئے تھے۔
صحافی اور مصنف کرسٹائن فیئر کی پاکستان دشمنی بارے کون نہیں جانتا ان کی کتاب میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے2009 میں جب وہ ایران میں انڈین مشن پہنچی تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ یہاں سے ویزا وغیرہ کا کوئی کام ہی نہیں ہو رہا۔۔۔ بلکہ اس کی بجائے یہاں سے مزار شریف کو کنٹرول کرتے ہوئے وہاں ناردرن الائنس کے لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے جس طرح جلال آباد اور قندھار کے قونصلیٹ جنرلز کے ذریعے ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی کی مدد ہو رہی ہے۔۔۔۔کرسٹائن فیئر کے یہ الفاظ ملیحہ لودھی کو جنرل اسمبلی میں دنیا بھر کے سامنے بتانا چاہئے تھے کہ '' بقول کرسٹائن فیئر ایران زاہدان میں موجود ایک سینئر انڈین اہلکار نے اسے بتا یا کہ We are Pumping Money in Balochistan ۔۔۔۔ اگر ہماری وزارت خارجہ کے پاس کرسٹائن فیئر کا یہ ریکارڈ نہیں ہے تو مجھ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے؟۔ چک ہیگل، پروفیسر بھر کامدار اور کرسٹائن فیئر کے بعد ایک اور امریکی دفاعی تجزیہ کار Laura Rozen کے مطا بق امریکی میڈیا یہ شور تو مسلسل مچائے جا رہا ہے کہ پاکستان جہادیوں کو سپورٹ کر رہا ہے لیکن وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کرا رہا ہے، لارا روزن کہتی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔۔۔اور یہی بھارتی طالبان افغانستان میں امریکی سپاہیوں کو بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں تاکہ اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر انڈیا امریکہ کی مزید مدد حاصل کر سکے ۔۔۔۔!!