تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-09-2017

زندگی کی نقالی

زمین پر خدا نے جب زندگی پیدا کی تو اسے یوں بنایا کہ ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہ بنایا جا سکتا تھا ۔ ہر جاندار ، خواہ وہ بلی ہو یا ریچھ، بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک اسے سختیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر اگر وہ شکار کی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اگر وہ بھرپور قوت سے دوڑ سکتے ہیں ،تو وہ خود زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں ورنہ موت ان کا مقدر ہوتی ہے ۔ ماں کے دماغ میں بچّے کے لیے جو محبت ہوتی ہے ، وہ ختم ہو جاتی ہے بلکہ Tigersمیں تو ماں اور(نوجوان ) بچے میں ایک جگہ کی ملکیت پر جھگڑا بھی ہوجاتاہے ۔ ماہرین اس کے لیےTerritorial disputeکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہ جھگڑا دونوں میں سے ایک کی موت پر منتج ہو سکتا ہے ۔
انسانوں میں صورتِ حال مختلف ہے ۔ ماں باپ کے دل سے اولاد کی محبت ختم نہیں ہوتی ۔انسانوں میں صورتِ حال اس لیے بھی مختلف ہے کہ وہ مضبوط گھر بناتا ہے ، خوراک ذخیرہ کر لیتا ہے ۔ غریب سے غریب شخص بھی دو چار دنوں کے لیے گندم رکھ کر بیٹھا ہوتا ہے ۔ جن کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا ، وہ بھی کسی لنگر سے کھانا کھا سکتے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں تو خیر صدقات اور زکوٰۃ کے دو ایسے نظام موجود ہیں ، جہاں کسی کے بھوکے مرنے کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ وہ صورتِ حال ہے ، جس میں زیادہ تر انسان پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں۔ انسان میں اوردوسرے جانوروں میں ، بھوک جسم کی ضرورت سے زیادہ رکھی گئی ہے ۔ یہ اس لیے کہ جب انسان او رجانوروں نے زمین پر زندگی گزارنی شروع کی تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اگلے وقت کا کھانا کب نصیب ہوگا۔ اس لیے جب انہیں شکار میسر آتا تو وہ اپنے پیٹوں کو خوب بھر لیتے ۔ برفانی ریچھ جیسے جانور تو چھ ماہ سوئے رہتے ہیں اور جوجاگنے کے چھ ماہ ہوتے ہیں ، ان میں انہیں لازماً اپنے جسم پر چربی کی تہیں چڑھانا ہوتی ہیں ، ورنہ سوتے سوتے ہی وہ توانائی ختم ہونے پر مر سکتے ہیں ۔
انسان نے جب خوب پیٹ بھر کے کھانا شروع کیا تو آہستہ آہستہ پیٹ نکلنا شروع ہوا۔جو لوگ مالی طور پر مضبوط تھے، انہوں نے ہر جسمانی کام کے لیے ملازم رکھ لیے ۔ بڑھتے بڑھتے چربی کے انبار تیس چالیس کلو گرام اضافی وزن کی صورت میں تبدیل ہونے لگے ، جسے اٹھائے رکھنا ایک شدید مشقت کا کام ہے ۔ بعض لوگوں میں جینیاتی طور پر موٹاپا والدین سے ورثے میں ملتا ہے ۔ ان کے جسموں میں بچپن ہی سے موٹا ہو جانے کارجحان (Tendency) ہوتا ہے لیکن بیشتر میں یہ 25، 26سال کی عمر کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ جب بڑھنے کی ان کی عمر مکمل ہو جاتی ہے اور کھایا ہوا ہر اضافی لقمہ چربی میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔کھانے کے ہر لقمے سے حاصل ہونے والی کیلوریز (توانائی) جسے آپ جسمانی کام کرکے ختم نہ کر سکیں ، وہ جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ جب ساڑھے سات ہزار کیلوریز اکٹھی ہوچکتی ہیں ، تو وزن ایک کلو گرام بڑھ چکا ہوتا ہے ۔ اس امر پر خصوصی تعلیم و تربیت کی ضرورت تھی کہ بڑھنے کی عمر تک جسم کو خوراک کی ضرورت کچھ اور طرح کی ہوتی ہے اور اس کے بعد خوراک کو بالکل بدل دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارا کھانا یہ ہے کہ دن میں تین بار تین تین گندم کی روٹیاں بلکہ ناشتے میں گھی سے بھرے ہوئے پراٹھے۔ ساتھ تلے ہوئے آلو اور حتیٰ کہ سافٹ ڈرنکس ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سافٹ ڈرنک کیا ہے؟ وہ پانی جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھری جاتی ہے۔ ایک گلاس مشروب میں بیس اکیس چمچ چینی ۔ بس زبان کا چٹخارا پورا ہونا چاہیے ۔ اربوں روپے مالیت کا جو جسم آپ کو دیا گیا ہے ۔یہ اگر شوگر سے ناکارہ ہو جاتا ہے یا ہائی بلڈ پریشر سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے تو بھی پریشانی کی کیا بات ہے ۔ یا پھر آپ دن میں پانچ کپ چائے میں دس چمچ چینی کے ڈال کر پی جائیں ۔ یہ جسم ہمیں خدا کی طرف سے مفت ملا تھا ، اس کے ساتھ ہر قسم کا کھلواڑ کیا جا سکتاہے ۔
یہ وہ صورتِ حال ہے ، جس میں تیس کے پیٹے میں وزن بڑھنا شروع ہوتا ہے ، چالیس کے پیٹے میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پچاس کو چھوتے ہوئے آپ بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بن چکتے ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں آپ کا جسم اس قدر کمزور ہو چکا ہوتا ہے ، جتنا اسے 90برس کی عمر میں ہونا چاہیے ۔ زیادہ سے زیادہ 70برس کی عمر میں کام کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ 70سال سے پہلے کے چار عشرے بھی کوئی صحت مندی کے نہیں ہوتے بلکہ شوگر اور بلڈ پریشر کو maintainکرنے اور پیٹ میں رکھا ہوا تیس کلو کا چربی کا ٹوکرا اٹھانے میں ہی بسر ہوتے ہیں ۔ چار قدم بھی انسان پیدل چل نہیں سکتا کہ سانس اکھڑنے لگتا ہے ۔اضافی وزن کے نتیجے میں جب ریڑھ کی ہڈی پر بوجھ پڑتا ہے تو اس کے کسی نہ کسی مہرے میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے ۔ پھر باقی عمر کمر درد کو بھی maintainہی کرنا پڑتا ہے ۔کئی صورتوں میں اس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے ۔ ہاں اگر پچاس سال بعد لیبارٹری میں نئی ریڑ ھ کی ہڈیاں اور دوسرے اعضا سٹیم سیل سے بننے لگیں تو وہ ایک الگ بات ہوگی ۔
انسان ذائقے کی انتہائی عمدہ حس رکھتا ہے ، جانورتو مٹی لگا ہوا گوشت کا ٹکڑا مزے لے لے کر کھاجاتے ہیں ۔ انسان مٹی کی کرک برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس ذائقے کی بلند حس کو بڑی بڑی کمپنیوں نے منافع کمانے کے لیے استعمال کیا۔ چینی ، کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس اور نت نئی ایسی چیزیں ایجاد کی گئیں ، جو ذائقے کا چٹخارہ پورا کر دیتی ہیں ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم نے آم ، سٹرابری اور سیب کھانے چھوڑ دئیے لیکن دکان سے جوس ہم ایپل فلیور کا ہی خرید کر پیتے ہیں ، جس میں کیمیکلز ملے ہوتے ہیں ۔
کسی فاسٹ فوڈ پر چلے جائیں ۔ آپ کو برگر اور ایسی دوسری تلی ہوئی چیزیں مل جائیں گی ، جو بہت مزیدار ہوں گی۔ ان میں جسم کے لیے کوئی فائدہ (nutritious value)نہ ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ساتھ وہ آپ کو تلے ہوئے گوشت کے ٹکڑے دے دیں گے ۔ آلو تو خیر تیل کواسفنج کی طرح چوس لیتا ہے ۔ اسی آلو کو آپ پانی میں ابال کر یا اوون میں پکا کر کھا ئیں تو یہ ایک اچھی خوراک ہے ۔
سونے پر سہاگا یہ کہ کوئی جسمانی کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ نوکررکھ لیجیے۔ ایسے بھی گھر ہیں ، جہاں گھر والے چار عدد اور ،ملازم پانچ عدد ہیں ۔ وہ گھر تو پھر ملازموں کا ہی ہے ، مالکوں کا تو نہیں ۔کوئی privacyنہیں ۔ وہ وقت جو انسان خود اپنے کاموں میں صرف کر سکتا تھا، وہ اب نوکروں کو ڈیل کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ یہ کوئی زندگی نہیں، میرے پیارے بھائیو اور بہنو! یہ کوئی زندگی نہیں ۔ یہ زندگی نہیں ، یہ زندگی کی نقالی ہے ۔ یہ زندہ رہنے کا دھوکہ ہے ۔زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش میں ہم خود کو کئی طرح کے عذاب میں پھنسا چکے ہیں ۔ اس سے رہائی ممکن ہے ، اگر انسان عزم کر لے ۔ کس طرح ؟ یہ اگلے کالم میں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved