تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-09-2017

آدمی اور پتھر

بے حسوں ، بے دردوں ، فرقہ پرستوں اور پتھر دلوں کی بات دوسری ہے ورنہ ابنِ رسولؓ کا احسان بھلایا کیسے جا سکتا ہے؟ جس کی آنکھ حسینؓ کے لیے کبھی نم نہ ہوئی، آدمی نہیں ، وہ پتھر ہے۔ پھر اقبالؔ یاد آتے ہیں ۔ 
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با حسین سامانِ سفر
سلطنت کی اگر آرزو ہوتی تو کیا اس طرح بے سروساماں نکلتے؟ اللہ کی زمین پر ان جیسا اور کون تھا؟ اجلے ، پاکیزہ اور ایثار کیش۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے سائے اور خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ کی گود میں انہوں نے پرورش پائی تھی ۔ دنیا اور اس کی وجاہت و ثروت سے بے نیاز، سوز و گداز ان کا سرمایۂ حیات تھا۔ شبوں کی سیاہی میں جاگنے اور دنوں کے اجالے میں بندگانِ خدا کا درد بانٹنے والے۔ کوئی سوالی نہ تھا ، جو ان کے در سے خالی لوٹتا ہو اور کوئی ہاتھ نہ تھا جو ثروت مند نہ کر دیا گیا۔ 
پھر حسنؓ یاد آتے ہیں ۔ وہ صاحبِ علم و ادراک اور اسرارِ حیات کے غوّاص۔ تاریخ کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی کہ اس قدر ایک محبوب حکمران نے اس رسان اور سہولت سے وسیع و عریض سرزمینوں پہ پھیلے اقتدار کو آنِ واحد میں خیرباد کہہ دیا ہو ۔ حسنؓ اگر ڈٹ کر کھڑے رہتے ، تو دلوں میں یوں ہی دائم آباد رہتے ، جیسے کہ وہ تھے۔ امیر معاویہؓ کی سلطنت میں کتنے بے شمار ہوں گے، امامؓ سے محبت کرنے والے۔ حسنؓ کی دنیا میں امیر کا دم ساز کون تھا۔ مگر وہ اس سے زیادہ جانتے تھے ۔ آنے والے زمانوں پہ ان کی نگاہ تھی۔ اپنے ناناؐ کی طرح، عہدِ آئندہ کی نسلوں کے لیے فکرمند۔ تاج و تخت کو انہوں نے الوداع کہا۔ جب تک وہ جیے، پل بھر کو بھی ملال کا سایہ ان پہ کبھی نہ اترا۔ مال و دولتِ دنیا سے فاطمۃ الزہرہؓ کے فرزند کو کیا شغف ہوتا؟ 
مریمؑ از یک نسبتِ عیسیٰؑ عزیز 
از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز 
نور چشم رحمۃ اللعالمینؐ
روزگار تازہ آئین آفرید
بانوئیِ آں تاجدار ''ھل اتیٰ‘‘
مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا
مادر آں مرکز پرکارِ عشق
مادر آں کاروانِ سالارِ عشق
سیدہ مریم ؑ فقط ایک نسبت کے طفیل ہمیں اس قدر عزیز ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تھیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہرہ کو ایسی تین حیثیتیں حاصل ہیں۔ رحمۃ اللعالمینؐ کی نورِ نظر، عالی مرتبت علی ابن ابی طالب ؓ کی شریک حیات اور ان کی مادرِ مہربان، جو مرکز پرکارِ رعشق ہیں۔
حسنؓ، اس خوش رو، خوش کلام اور دانائے راز کی تمام شرائط امیر معاویہؓ نے مان لی تھیں ۔ شرط تھی ہی کیا کہ حجاز کی آمدن کا محصول ان کے سپرد رہے گا۔ نہ کوئی عہدہ و منصب، نہ کوئی لشکر و سپاہ۔ حجاز کے افتادگانِ خاک کا پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کا سہارا۔ حجاز محدود آمدن کے صوبوں میں سے محدود ترین تھا۔ دور دور تک پھیلے ریگ زار، ہزاروں برس پہلے کے آتش فشانوں سے ٹوٹے پتھروں کی سرخ رو کنکریاں جن کی ویرانی کو اجاگر کرتی ہیں۔ خال خال کھجوروں کے باغات اور چھوٹے چھوٹے نخلستان ۔ شاذ و نادر کہیں آبِ حیات کے چشمے۔ دور پرے کہیں ہرنوں کی ڈار، کہیں کہیں کوئی شتر مرغ یا نیل گائے۔ قدیم عرب شاعروں کے کلام میں، برستی بارشوں میں وہ کھنڈر اجاگر ہوتے ہیں ، جو کبھی آباد رہے ہوں گے ۔ پھر ہزاروں برس تک دل گرفتہ عشّاق کی شاعری میں ڈوبتے ابھرتے رہے۔ 
اپنے نانا ؐ کی طرح کہ ان سے پہلے، نہ ان کے بعد ایسا کوئی ابرِ کرم اس پیاسی زمین نے دیکھا ۔ خوش کلام بھی ایسے تھے کہ دور دور کی سرزمینوں میں ان کا ذکر اکرام اور حیرت سے کیا جاتا۔ 
مروان مدینہ کا گورنر تھا ۔ معلوم نہیں ، کیا سوجھی کہ ایک حاضر باش سے کہا: ہر پیکرِ خوش نوا کو ہاشمی خاندان والے بیاہ لے گئے۔ ہم بادشاہوں اور شہزادوں کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ امام حسینؓ اس پر ہنسے۔ پھر جو کچھ ارشاد کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: وجاہت ہمیں اللہ نے بخشی ، لباس پاکیزہ پہنتے ہیں ، خوشبو بہترین لگاتے ہیں۔ رہا خاندان تو کب کسی کو نصیب ہوا ہو گا۔ ہماری چار دیواری اگر کسی کو خوش نہ آئے گی تو کس کی آئے گی؟ 
کوفہ میں جھاڑیوں کی طرح اگتے واعظوں پہ پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ اولین فتنوں میں سے ایک فتنہ تھا، اب تک امّت جسے بھگت رہی ہے۔ جنابِ علیؓ بعض کو طلب کرتے ۔ خواجہ حسن بصریؒ بھی بلائے گئے ۔ وہ کہ بعد کے زمانوں میں جن کے رعب نے حجاج بن یوسف کو گہنا دیا تھا۔ جن کے زہد اور دلاوری کا چہار عالم میں چرچا رہا۔ پوچھا: حسن، تم نے کہاں سے سیکھا؟ عرض کیا، آپ کی مجلسوں میں امیرالمومنین اور پھر جناب حسن بن علیؓ کی خدمت میں۔ فوراً ہی اجازت دے دی گئی ۔ حسنؒ کی مہر مکمل اور بے عیب تھی ۔ اس زمانے کے خم و پیچ سے نا آشنا ، اس کی ثقافت کے تیوروں سے بے خبر، افسوس کہ کچھ بعد والوں نے فسانے گھڑے۔ کچھ کہانیوں کے جویا انہیں لے اڑے۔ امت پہ امام حسنؓ کا احسان تا بہ ابد باقی رہے گا۔ وہ نہ ہوتے تو اندیشہ یہ تھا کہ مسلمان آپس میں کٹ مرتے۔ مصر اور ایران ضرور پسپا ہو گئے تھے۔ نیل کی وادیوں اور دمشق کے مرغزاروں میں اسلام کا علم سرفراز تھا۔ ہزاروں برس کی خاک نشیں آدمیت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھی ۔ آدمی ، آدمی بن گیا تھا، خواب دیکھنے اور اسے متشکل کرنے لگا تھا۔ اہلِ روم مگر انتظار میں تھے کہ انتشار پھیلے تو وہ یلغار کریں۔
تاریکی پھر پلٹ کر آئی اور ایک ایک قریہ تسخیر کرنے لگی۔ آدمی کا مقدر یہی ہے ، نور و ظلمات کی کشمکش! وہ بات جو امام حسینؓؓ نے کربلا میں کہی تھی ، اس پورے عہد ، اس کے تمام الم اور ستم گاری کو کمال فصاحت اور پوری جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہے '' روشنی بجھ گئی، بس تلچھٹ باقی ہے۔‘‘ اس لیے وہ تڑپ کر اٹھے تھے کہ میر و سلطان غلبہ کرتے چلے آئے تھے۔ حسینؓ دیکھ رہے تھے کہ اگر وہ کھڑے نہ ہوئے تو آدمی ہمیشہ کے لیے گہرے تاریک گڑھے میں جا گرے گا۔ 
بار بار ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے ۔ حسنؓ اگر اس شان کے ساتھ اقتدار کو اٹھا نہ پھینکتے ۔ حسینؓ اگر اس شوکت کے ساتھ کربلا میں کھڑے نہ ہوتے تو عالمِ اسلام کی تقدیر کیا یہی ہوتی ؟ ایک ہزار برس تک تاریخ کے جھٹ پٹے میں کیا وہ ایک روشن استعارے کی طرح لہک سکتا ۔ چٹا اور کھرا جواب یہ ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عالمِ اسلام کے در و بام پہ آج بھی کچھ اجالا اگر باقی ہے۔ اگر کوئی امید قائم ہے ۔ ایک نئی سویر کی اگر آرزو کی جا سکتی ہے تو خاندانِ رسولؐ کا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ کوئی امکان باقی بچ رہا تو ان کے طفیل ، کوئی دروازہ کھلا رہا اور کہیں سے ٹھنڈی ہوا آتی رہی تو انہی کے کرم سے ۔ مسلم دنیا ہی نہیں ، سارے عالم نے ان سے فیض پایا کہ عدل، عظمتِ آدم، حقوقِ انسان اور انس و الفت کے چراغ جل جل کر بجھتے مگر بجھ بجھ کے جلتے بھی رہے ۔ اس زمین پر کوئی شخص سانس نہیں لیتا ، جس کی گردن پر ان کا احسان قائم نہ ہو۔ 
بے حسوں ، بے دردوں ، فرقہ پرستوں اور پتھر دلوں کی بات دوسری ہے ورنہ ابنِ رسولؓ کا احسان بھلایا کیسے جا سکتا ہے؟ جس کی آنکھ حسینؓ کے لیے کبھی نم نہ ہوئی، آدمی نہیں ، وہ پتھر ہے۔ پھر اقبالؔ یاد آتے ہیں ۔ 
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با حسین سامانِ سفر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved