کوئی غلط کام نہیں کیا‘ ووٹ کے تقدس کی جنگ لڑوں گا : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا‘ ووٹ کے تقدس کی جنگ لڑوں گا‘‘ کیونکہ نہ میں کرپشن کو مانتا ہوں نہ منی لانڈرنگ کو جبکہ کوئی حکومت کرپشن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی‘ اگر چل سکتی ہے تو کوئی مجھے چلا کر دکھائے اور یہ مری حق حلال کی کمائی تھی جو میں نے باہر بھیجی‘ جس طرح بھی بھیجی‘ اس سے کسی کا کیا تعلق ہے‘ نیز یہ کہ اتنے بڑے بڑے منصوبے جن میں موٹروے اور میٹرو بسیں وغیرہ شامل ہیں‘ کبھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتے اگر کمیشن وغیرہ ان میں شامل نہ ہوتے‘ اگر یہ سارے کام غلط ہیں تو مجھے بتایا جائے کہ صحیح کام کیا ہوتا ہے اور جہاں تک ووٹ کے تقدس کا سوال ہے تو اس سے اس کا تعلق نہیں کہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کے تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے‘ اور کیا ووٹ دینے والے نہیں جانتے کہ ان کے ووٹ کے ساتھ ہمیشہ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''اہل اور نااہل کا فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے‘‘ اور قانون کی کتابوں میں سے وہ تمام شقیں نکال دی جائیں جن کے تحت اہلیت اور نااہلی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر یہ صورت حال جاری رہی تو پاکستان کسی سانحے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘ اور منتخب وزیراعظم کو جیل بھیجنے سے بڑا سانحہ اور کیا ہو سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ''جانتا ہوں کہ میرے خلاف فیصلہ کیوں کیا گیا‘‘ کیونکہ سب کو اپنے اعمال کا پتا ہوتا ہے اور ان کے نتائج کا بھی انہوں نے کہا کہ ''18ء کا الیکشن ایسے تمام فیصلوں کو بہا لے جائے گا‘‘ کیونکہ جیل جانے سے میری مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا‘ اگرچہ اس وقت تک بہت سے زعما میرے ساتھ اندر ہوں گے اور ساری جماعت تتر بتر ہو چکی ہو گی لیکن میری مقبولیت میں فرق نہیں آ سکتا‘ بلکہ جو جو حضرات میرے ساتھ ہوں گے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''کیا انصاف یہ ہوتا ہے؟‘‘ بلکہ میں تو اس سے بھی آگے جا کر دھمکیاں دے چکا ہوں کہ عدالت توہین میں ہی اندر کر دے تاکہ اصل فیصلوں کے آنے تک میں اندر کے ماحول سے واقف اور عادی ہو جائوں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدالت مجھے تھکا تھکا کر مارنا چاہتی ہے نیز یہ کہ مقابلے کی بجائے میرے پاس اور آپشن بھی کون سا رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز نیب عدالت سے پیشی کے بعد ایک لکھا ہوا بیان پڑھ کر سُنا رہے تھے۔
ووٹ کے تقدس کے ساتھ پاکستان کا تحفظ جُڑا ہے : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ووٹ کے تقدس کے ساتھ ملک کا تحفظ جُڑا ہے‘‘ اور حکومت کے بڑے بڑے گھپلوں سے ہی صاف پتا چلتا ہے کہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس کا تقدس کس طرح برقرار رکھا جاتا ہے جبکہ ووٹ کے تقدس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی مالی حالت جس قدر بھی مضبوط ہو سکتی ہے کرتے جائو تاکہ ووٹ دینے والے کچھ سبق حاصل کر سکیں جبکہ کم تعلیم یافتہ عوام کو سبق حاصل کرنے اور پڑھنے کی بیحد ضرورت ہے اور تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور یہ حکومت ہی کا کمال ہے کہ عوام کی جہالت کے باوجود تیزرفتار ترقی کر کے دکھا دی جو عوام کو اس لیے نظر نہیں آ رہی کہ اُن کی بینائی بھی کمزور ہے جن کے لیے حکومت عینکوں کا خاطر خواہ انتظام کر رہی ہے‘ اگرچہ ووٹ دیتے وقت وہ بالکل نہیں دیکھتے کہ کسے دے رہے ہیں اور اس کا کیا حشر کیا جائے گا‘ ہور چُوپو! آپ اگلے روز اسلام آباد سے معمول کا بیان جاری کر رہی تھیں۔
مستعفی نہیں ہو رہا‘ معمول کے امور نمٹا رہا ہوں : اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''میں مستعفی نہیں ہو رہا‘ معمول کے امور نمٹا رہا ہوں‘‘ کیونکہ ہمارے قائد نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور عدالت سے سرخرو ہو کر نکلے تھے اور میں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عدالت سے سرخرو ہونے کی تیاری کر رہا ہوں کیونکہ میرا ایک ایک دن قیمتی ہے اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے اگرچہ آج تک کسی گیڈر کو سو سال کی عمر پاتے نہیں دیکھا گیا۔ لیکن محاورہ بنانے والوں کا کیا علاج کیا جائے اور جب سے میرے خلاف کیس شروع ہوا ہے محاورے تو مجھے ویسے ہی زہر لگنے لگے ہیں‘ خاص طور پر یہ کہ ''جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ‘‘ حالانکہ گاجریں انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں‘ اس کے علاوہ پیاز بھی اچھی چیز ہے لیکن یہ سو سے کم نہیں کھائے جاتے اور ساتھ سو جُوتے بھی کھانا پڑتے ہیں‘ یعنی ایک اور انتہائی واہیات محاورہ! آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
معاملات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے : چوہدری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ''معاملات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے‘‘ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ بقول خواجہ سعد رفیق‘ میں اور میاں نوازشریف آپس میں عاشق اور معشوق کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کا ناز نخرہ بھی برداشت کر لیتے ہیں چنانچہ کل میں جب نوازشریف کی تقریر کے دوران ان کے ساتھ بیٹھا تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں ان کی مار دھاڑ اور چیخ و پکار سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا‘ چنانچہ اس کے ساتھ ساتھ دوسری کوششیں بھی جاری ہیں کہ مسئلے کا کوئی بہتر حل نکل آئے اور لے دے کر معاملے کو خیروعافیت سے انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ مسئلہ کشمیر سمیت ہر معاملہ افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور میاں صاحب بڑی مشکل سے اس پر راضی ہوئے ہیں‘ اب صرف قریق ثانی کے راضی ہونے کی دیر ہے جو کہ اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سرفراز زاہد کا یہ خوبصورت شعر :
محبت عام سا اک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے
آج کا مطلع
بظاہر جو بڑے آرام سے سوئے ہوئے ہیں
جگادے کوئی ہم کو‘ دیر کے سوئے ہوئے ہیں