سابق وزیراعظم‘ میاں نوازشریف ہر وقت‘ہر جگہ یہ گلہ کرتے پھر رہے ہیں کہ'' مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ان کا مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے لیکن انہیں وزرات عظمیٰ سے نکال دیا گیا۔اس زیادتی پر وہ سخت افسردہ ہیں۔ا پنی ہی چھوڑی ہوئی حکومت کے ذرائع نے‘ انہیں وزرات عظمیٰ سے نکال دیا‘حالانکہ ابھی وہ اس کے مستحق نہیں تھے۔اس کے برعکس‘میاں نوازشریف کی کابینہ کے ایک لافانی وزیر‘ ابھی تک وزارت خزانہ کو ‘سات تالے لگا کر ڈٹے ہوئے ہیں۔سابق وزیراعظم پر وہ کون سا الزام ہے‘ جو وزیر خزانہ پر نہیں لگا؟ لیکن وہ ابھی تک اپنی وزارت پر قائم ہیں۔ ان کے بہی کھاتوں کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان کے مالیاتی اثاثوں میں اندھا دھند اضافے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے دور وزارت میں تو جاپانی پہلوان انوکی سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں ۔ ان کے مالیاتی طاقت کے خزانے‘ اس بے ہودگی سے بڑھے کہ جو بھی سنتا ہے‘ چکرانے لگتا ہے‘لیکن ڈار صاحب کی صحت پر خاص اثر نہیں پڑا۔ایک طرف سابق وزیراعظم تھے کہ سارے محکموں کی دولت ان کے زیر دست تھی۔ ابھی تک اس بات کا علم نہیں کہ سابق وزیراعظم کے ذاتی خزانے میں ‘کتنا اضافہ ہوا لیکن ڈار صاحب کی ایک ہی واردات میں‘ ان کی اضافہ شدہ رقم‘91فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ دنیا میں بڑے سے بڑے'' خوردیے بردیے‘‘ شہرت کے میدان میں اترے لیکن ہمارے موجودہ وزیرخزانہ کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔انہوں نے اپنی دولت کو صرف سواچار سال میں‘91ویں گنا کر دکھایا۔اس کے باوجود ‘وہ اپنے نمبر پر‘ نیب عدالت میں پیشی کے لئے‘ قطار میں کھڑے نہیں ہوئے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف ‘جو خود پاکستان کی ساری دولت کے مالک تھے‘ اپنے ذاتی خزانے میں شاید ہی اتنااضافہ کر پائے ہوں۔ہو سکتا ہے حساب کتاب کی غلطی سے اتنا بھی نہ ہو سکا ہو۔
ڈار صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی دولت میں91فیصد اضافہ کر گئے اور انہیں کسی نے نہیں نکالا؟ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف‘ جو اپنی دولت کو دوگنا بھی نہیں کر پائے‘ ان سے وزارت عظمیٰ کی کرسی واپس لے لی گئی اور وہ جگہ جگہ مجمع لگا کر پوچھتے پھر رہے ہیں کہ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ان کا مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔ پتہ نہیں ان کا انجام کیا ہو گا؟ دوسری طرف ڈار صاحب کی پھرتیاں دیکھیں کہ ان کی دولت میں جتنا اضافہ ہوا‘ وہ91فیصد ہے۔وہ اپنے حساب میں کسی خرابی کی لپیٹ میں نہیں آئے تھے۔ جب سابق وزیراعظم‘ میاں نوازشریف پر الزام تراشیاں ہو رہی تھیں‘ اس وقت بھی ان کی پیشیاں چلتی رہیں اور نیب کے مہمان خانے میں بھی ‘وہ اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے‘ سب سے پہلے نیب میں پیش ہوئے۔حیثیت اور مرتبے کی مناسبت سے‘ ان کا نمبر سب سے پہلے آیا‘ جس کے وہ مستحق تھے۔اگر وہ سب سے پہلے الزام کے مستحق تھے‘ تو اس معاملے میں ان کے ساتھ انصاف ہوا۔
دوسری طرف ڈار صاحب اپنی رقم کو91فیصد زیادہ کرکے‘ وکٹری سٹینڈ پر سب سے بلند جگہ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔اگر ذہانت اور مہارت کے معاملے میں‘ ان کی پھرتیوں اور چابک دستیوں کا شمار کیا جائے تو کوئی ان کا ہم پلہ نظر نہیں
آتا۔ لیکن اتنا کچھ بنانے کے بعد بھی'' نودولتی‘‘ میں عدالتی حساب کتاب ہونے پر‘ شاید وہ کسی گنتی میں نہ آئیں۔ڈارصاحب کو اپنی کامیابی پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے اپنے ریکارڈ کے ''ڈبے‘‘ بغیر کسی شور شرابے‘نام و نمود اور بینڈ باجے کے احتساب عدالت کو بھجوا دئیے۔ ان ''ڈبوں‘‘ کا خاص چرچا نہیں ہوا۔پہلے قطار درقطار سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ''ڈبے ‘‘آتے چلے گئے اور کوئی ان کی تعداد کا اندازہ نہ کر سکا۔سابق وزیراعظم پہلی مرتبہ نیب کی عدالت میں آئے تو دیکھنے والے دنگ رہ گئے کہ انہوں نے اپنی دولت کے ''ڈبے‘‘ باون کاروں میں بھر رکھے ہیں ۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوئیں۔مخالفین نے تو اپنے بڑے بڑے ''پیٹوں‘‘ پر زور زور سے دوہتھڑ مارکے ڈھول بجائے اورآوازیں لگا لگا کر کہا کہ ہمارے سابق وزیراعظم کے پاس تو باون کاروں کی دولت ہے۔ باون کاروں سے مراد یہ نہیں تھا کہ وہ کاروں کی مجموعی قیمت بتا رہے ہیں۔ ''پیٹ ‘‘بجانے والوں کا مدعا یہ تھا کہ ان کاروں میں بے شمار دولت چھپی ہوئی ہے۔مگر منزل مقصود یعنی احتساب عدالت پہنچ کر یہ بھید کھلا‘ کہ تمام کاریں خالی ہیں اوران میں سے صرف'' شامے باجے‘‘ برآمد ہوئے یعنی کاریں خالی تھیں۔سابق وزیراعظم ‘میاں نوازشریف ہجوم کے اندر سے‘ جگہ بناتے ہوئے عدالت میں پہنچے اور چند منٹ کی پیشی بھگت کر چلتے بنے ۔ دوسری طرف ڈار صاحب ان کے پیچھے ‘چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ'' مجھے کیوں نہیں نکالا؟‘‘ان کی اپنے لیڈر‘ میاں نوازشریف سے اتنی قربت ہے کہ وزارت سے نکالے نہ جانے پر‘ غمگین اور افسردہ ہیں۔اب تو یہ عالم ہے کہ ہر وقت ہاتھ اٹھا اٹھا کر‘ صدا ئیںلگاتے پھر رہے ہیں کہ''مجھے کیوں نہیں نکالا؟‘‘درحقیقت وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر احتجاج کر رہے ہیں۔لیکن کیوں؟