بہت دنوں بعد نااہل وزیر اعظم کا ایسا بیان نظر آیا‘ جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ نااہل وزیر اعظم نے کہا: حلقہ این اے 120 میں دو مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے حق میں ووٹنگ خطرناک ہے۔ مگر لگتا ہے یہ بیان آدھا پریس میں چھپ گیا لیکن آدھا عالمی سازش کے نتیجے میں حذف ہوگیا۔ لفظ خطرناک دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ اس کا پہلا حصہ ''خطر‘‘ ہے‘ جسے انگریزی زبان میں Danger کہتے ہیں۔ ناک (Nose) ہم سب جانتے ہی ہیں۔ ناک اڑانا سے لے کر ناک کٹوانا تک ناک کی شان کے مختلف درجات ہیں۔ خطرناک کی اس 2 حرفی تفسیر یا تکسیرِ لفظی کے حوالے سے سوال صرف نااہل وزیر اعظم سے ہی پوچھا جا سکتا ہے‘ کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں دو مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے حق میں ووٹنگ ان کے لئے خطر ہے یا ناک۔ عام آدمی کا جواب سیدھا ہوگا۔ جب تک مذہبی جماعتوں کا ووٹ نااہل وزیر اعظم کو ملتا رہا‘ اس سوادِ اعظم کا سواد اور مزہ توا مچھلی، کشمیری تافتان اور پھجے کے پائے سے بھی بالاتر تھا۔ ان دنوں سپائلر کوئی اور تھا۔ نااہل وزیر اعظم کی سیاسی اُڑان کے دو ونگ سیاسی نعرہ بازی کی حد تک ایشیا سبز اور سرُخ سے شناخت ہوتے۔ NA-120 کے حالیہ ضمنی انتخابات میں اس دو پر سے خلیل خاں کی فاختہ اُڑ گئی ۔ لیکن جاتے جاتے، خلیل خاں کی فاختہ نے نااہل وزیر اعظم کے طوطے اُڑا دیئے۔
ادبِ لطیف کے علاوہ حلقہ NA-120 میں دو مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کی خطرناکی کے پہلو اور بھی ہیں۔
پہلا پہلو: کیا آئین مذہب سے تعلق کا اظہار کرنے والوں کو ووٹ کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا جواب آئین سے ہاں کی صورت میں ملتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2-A، آرٹیکل 4، آرٹیکل 8، آرٹیکل 9، آرٹیکل 25، آرٹیکل 33، آرٹیکل 37 اور آرٹیکل 227 کی ذیلی دفعہ 3 ناصرف مسلمانوں کے ہر طبقہء خیال کو ہر طرح کی آزادی دیتا ہے‘ بلکہ شہری کے سٹیٹس اور پرسنل لا کے حوالے سے غیر مسلموں کو بھی مساوی گردانتا ہے‘ لہٰذا نااہل وزیر اعظم قوم کو بتائیں کہ جن کے ووٹ کو آئین خطرہ نہیں سمجھتا ان سے نون کی ناک کو کیا خطرہ؟
دوسرا پہلو: جب پنجاب کے مختلف حلقوں میں یہ مذہبی جماعتیں نااہل وزیر اعظم کی سیاست کا ایندھن تھیں‘ تب ان کے ووٹ اینٹھنے والے مفت خور کو کبھی مروڑ نہیں اٹھا۔ اصل بات آپ جانتے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا اس وقت حکومت میں مستقل مذہبی سیاست کرنے اور مسلک کی بنیاد پر ووٹ لینے والی سیاسی جماعت نااہل وزیر اعظم کی اتحادی ہے۔ اسی جماعت نے حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں نااہل وزیر اعظم کی اہلیہ کو سپورٹ کیا ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سپورٹ حاصل کرنے کے لئے نااہل وزیر اعظم کی صاحبزادی نے مذہبی ووٹ برداروں سے مذاکرات کئے اور مذہبی اتحادی کی خواہش کے عین مطابق مذہبی ووٹ کی ڈیل کی۔ اگر نااہل وزیر اعظم کی دلیل مان لی جائے کہ NA-120میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ خطرناک ہے‘ تو پھروہ اس ووٹ بارے کیا فرماتے ہیں جو ان کی بیگم صاحبہ کے حصے میں آیا۔
تیسرا پہلو !نااہل وزیر اعظم نے کئی تقریریں پڑھتے فخریہ قوم کو بتایا کہ نیشنل ایکشن پلان ان کی اپنی نون لیگ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ جو عمل درآمد کے لئے سویلین حکومت کے ذمہ لگا، وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس حصے میں اُن اقدامات پر زور دیا گیا، جن کے ذریعے شدت پسندی کے خاتمے کا ذکر آیا۔ اس حصے کا مرکزی نکتہ کہتا ہے کہ ایسی شناخت رکھنے والے افراد اور گروہوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نا اہل وزیر اعظم نے جو کچھ لکھا وہ مانا جائے یا جو زبانی بیان میں بولا اسے تسلیم کیا جائے۔ خود سوچ لیجئے کھلا تضاد کس کو کہا جائے؟
شبِ گزشتہ نا اہل وزیر اعظم نے معرکۃالآرا فرمان جاری فرمایا ۔ ارشاد ہوا: موجودہ اپوزیشن لیڈر اصلی اپوزیشن کرتے ہیں‘ انہیں تبدیل کرنا جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا۔ نااہل وزیر اعظم کا تازہ فرمان پڑھ کر خطرناک کا مطلب مزید واضح ہوگیا۔ اس پر بھی تبصرے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ نااہل وزیر اعظم اور ان کا اہل خاندان جمہوریت کسے کہتے ہیں۔
چوتھا پہلو!یادش بخیر۔ ماضی قریب تک بھٹو ، اینٹی بھٹو فیکٹر سیاسی تقسیم کی بنیاد تھا۔ تب ترقی پسند ووٹوں کے سپائلر نااہل وزیر اعظم کی مستقل بیساکھی ہوا کرتے تھے۔ اس بیساکھی کی دوسری لاٹھی عرصے تک رائٹ وِنگ ووٹ رہا ۔ وہی ووٹ جو نون لیگی سرکارکی ناک کے لئے خطر بن گیا ہے۔ ووٹ سے یا د آیا‘ ہمارا انتخابی نظام اور اس کا ریگولیٹر ادارہ بھی کمال کرتا ہے۔ تازہ کمالات میں سے ایک نون لیگ کے نائب صدر کی ماتحت وزارت کے نام الیکشن کمیشن کا خط ہے۔ خط کے ذریعے نون لیگ کے نائب صدر وزیر سے پوچھا گیا کہ لاہور کے حلقہ این اے 120کے ضمنی الیکشن سے شہرت پانے والی میم لیگ کی رجسٹریشن پر آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں‘حالانکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تینوں متعلقہ باب نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن میں وزارت داخلہ یا حکومت پاکستان کے کسی بھی کردار کا ذکر نہیں کرتے۔ چلتے چلتے اسی معاملے کے دیگر پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں‘ جس کے دو حصے ہیں۔ اوّلین تازہ ترین بھی۔ اس تازہ ترین میں بھوربن مذاکرات شامل ہیں‘ جو نااہل وزیر اعظم کا پسندیدہ ہل سٹیشن ہے‘ جہاں امریکہ بہادر کے کہنے پر متحارب فریقوں کے مذاکرات ہوئے‘ جن کی سہولت کاری نااہل وزیر اعظم نے خود کی۔ ایسے ہی گروہ جو افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں پہاڑوں پر چڑھ دوڑتے ہیں‘ ان کو بھی سیاسی دھارے میں لانے کے لئے نون لیگ کے بڑے، بڑے دعوت نامے بھیجتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی عمل قومی دھارے سے باہر کی کوئی شے ہے۔ آئینی طور پر ایسا ہر گز نہیں۔پارلیمانی انتخابی سیاست کے قوانین سب شہریوں پر یکساں لاگو ہیں۔ اس لیے پاکستان اس کی سا لمیت کی مخالفت کے علاوہ جس نئے نام سے کوئی سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونا چاہے‘ آئین اسے آرٹیکل15، آرٹیکل16، آرٹیکل17 اور آرٹیکل19 کے تحت اس کی اجازت بنیادی حقوق کے طور پر باب نمبر2 کے ضمن نمبر1میں گارنٹی کرتا ہے۔
ہاں البتہ نااہل وزیر اعظم کی سیاسی ضرورت دوسری بات ہے۔ یہ اصول ان کا گھریلو (Home Made) ٹوٹکا ہیں۔ ایسا یوں سامنے آیا کہ اڑھائی گھنٹے پوچھا جاتا رہا کہ آپ فلاں صاحب کو جانتے ہیں؟ جواب تھا: جی نہیں۔ اڑھائی گھنٹے بعد نااہل وزیر اعظم کو یاد آیا‘ ارے یہ تو میرے خالو ہیں۔ لندن کے جن عالیشان اپارٹمنٹس میں موصوف کی رہائش عشروں سے ہے‘ ان کے بارے میں سوال آیا: یہ کس کی ملکیت ہیں۔ جواب ملا: مجھے تو کچھ پتا نہیں۔ ایسا ہی سوال نااہل وزیر اعظم کے سیاسی کزن جج پر اُٹھا‘ جب اس کے سرکاری گھر کے پتے پر بیٹے کی کاروباری کمپنیاں سامنے آئیں۔ دونوں کا سچ اندر سے ایک ہے۔ سادہ لوح، درویش صفت، طائر لاہوتی‘ انہیں یہ بھی نہیں پتا ان کے بچوں کے ذریعے ان کے گھر دولت کے ڈھیر کس نے لگا دیے۔ یقینا ایسی سازش جمہوریت دشمن ایجنسیوں نے کی ہوگی‘ جیسے سیمنٹ ایجنسی، گھی ایجنسی، موبل آئل ایجنسی وغیرہ۔
آج کل تجزیہ کاری کا ایک ماتمی دستہ نون لیگ کی ناک والے خطر پر بین کر رہا ہے‘ جس کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے ''میرے سپائلر اچھے سپائلر لیکن کسی اور کے سپائلر بُرے سپائلر‘‘۔
پاکستان میں پارلیمانی سیاست کے دروازے ہر شہری کے لئے کھلے ہیں۔ یہ ملک اور اُس کے وسائل کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ نہ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کوئی خاندانی لمیٹڈ کمپنی اس کی مالک ہے۔ آپ جو کوئی بھی ہیں۔ اگر آپ کے پاس اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں آسان بنانے کیلئے کوئی ایجنڈا ہے تو اسے قوم کے سامنے رکھنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق آپ کو 1973ء کا آئین دیتا ہے۔
پھر ہوائیں ہی کریں گی، روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی‘ وہ دیا رہ جائے گا