تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-09-2017

کچھ دیر کی جوانی

ماضی کے بارے میں بہت سوں نے بہت کچھ کہا ہے مگر انگریزی کا ایک مقولہ ایسا ہے کہ کوزے کو سمندر میں بند کردیا گیا ہے۔ اس مقولے میں کہا گیا ہے کہ ماضی دراصل ایک الگ ملک ہے! گویا جب ہم ماضی کے دریچے کھولتے ہیں تو کسی دور کی سیر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک نئے ملک کی سیر کر رہے ہوتے ہیں۔ بات بہت حد تک درست ہے کیونکہ کبھی کبھی اپنے ہی گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرکے بہت عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ ارے، کیا واقعی وہ ہم ہی تھے۔ انسان بہت کچھ بہت آسانی سے جھیل جاتا ہے اور بعد میںیاد کرکے اُسے حیرت ہوتی ہے کہ ع 
ہم بھی کیا زندگی گزر گئے! 
اسکول یا کالج کے زمانے میں سب پر ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب دل خطابت، مضمون نویسی یا پھر معلوماتِ عامہ (کوئز) کے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ انسان اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔ اٹھتی جوانی میں خود کو منوانے کا شوق انسان کے پورے وجود پر محیط اور متصرّف ہوتا ہے۔ یہ زمانہ ہم پر بھی آیا تھا۔ ؎ 
ہم بھی گزرے تھے اُس گلی سے کبھی 
شہر کا شہر تھا تماشائی! 
کوئز اور مضمون نویسی کے مقابلوں میں شریک ہونے کا شوق اِس قدر تھا کہ تعلیم پر ہم بھرپور توجہ دینے سے قاصر رہے مگر اِس کا مطلب، خدا ناخواستہ، یہ نہیں کہ تعلیم پر توجہ نہ دے پانے کے نتیجے میں ہم صحافت کی طرف آئے اور مضمون نویسی و کالم نگاری کو گلے لگالیا (یا اِس کے گلے پڑگئے)! بخدا ہم تو ابتداء سے اب تک صحافت سے اِسی گمان کے تحت وابستہ ہیں کہ یہ پڑے لکھوں کا شعبہ ہے! یہ الگ بات ہے کہ یاروں نے زمانے بھر کی بے سر و پا باتوں اور حرکتوں سے صحافت جیسے شعبے کو عام آدمی کی نظر میں اُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے آگے صرف بے توقیری کا گڑھا ہے! 
ہم اپنی قابلیت کا رونا روکر اِس کالم کے ماحول اور آپ کے دل کو بوجھل نہیں کرنا چاہتے اِس لیے آئیے دوبارہ گزری ہوئی جوانی بلکہ عنفوانِ شباب کی طرف چلتے ہیں۔ اسکول کے زمانے میں تو خیر ہم بجھے بجھے سے رہے مگر کالج کے زمانے میں کچھ دیر چمکنے کی کوشش ضرور کی۔ کوئز اور مضمون نویسی کے سمندر میں غوطہ زن رہنے کا شوق غیر معمولی حد تک تھا۔ اب صرف خطابت کا شعبہ رہ گیا تھا۔ یاروں نے فرمائش کی کہ اِس میدان کو بھی اپنے اشہبِ شوق کے پیروں تلے روند ڈالو۔ ہم خوش ہوئے مگر کچھ ہچکچاہٹ نے گھیر لیا۔ اُدھر ہم جماعت و ہم مکتب مُصِر تھے۔ کچھ ڈھارس بندھی کہ لوگ ہمیں آسمانِ خطابت کے تابندہ ستارے کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مزاج بچپن ہی سے کچھ ایسا تھا کہ جب بھی دس بیس افراد کے سامنے کچھ کہنے کا لمحہ آتا تھا تو آواز حلق میں پھنس جاتی تھی اور صرف کھرج کے سُر ہی باہر آ پاتے تھے! مگرخیر جب سب نے حوصلہ بڑھایا تو ہم بھی آگے بڑھے اور ایک تقریری مقابلے میں نام لکھوالیا۔ 
نام کیا لکھوایا، بس یہ سمجھ لیجیے کہ اپنے نام کا پرچہ کٹوالیا! ہم جماعت ہمیں اپنے جِلو میں لے کر تقریری مقابلے کے لیے کچھ اِس انداز سے چلے جیسے کوئی قوّال اپنے ہم نواؤں کے ساتھ اسٹیج کی طرف جارہا ہو! ہم نے مجنوں کی سی وارفتگی کے عالم میں تقریری مقابلے کے لیے نام تو لکھوا لیا تھا مگر کچھ اندازہ نہ تھا کہ لیلٰی کی گلی میں کُتّے بھی پائے جاتے ہیں! جب ہم نے دوسروں کی دھواں دھار تقریریں سُنیں تو پیروں تلے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اور جب ہمارا نام پکارا گیا تب تو ایسا لگا کہ پیروں تلے زمین ہے ہی نہیں! کسی نہ کسی طور ہمت کرکے روسٹرم تک پہنچے اور مائکرو فون کا رخ اپنے طرف کرکے کچھ بولنے کی کوشش کی تو حلق سے کچھ ایسی آوازیں برآمد ہوئیں کہ ہم خود بھی سمجھ نہ پائے کہ اِن آوازوں کا تعلق کس سیّارے سے ہوسکتا ہے! تین چار سیکنڈ اِسی اُدھیڑ بُن میں گزر گئے کہ شروع کہاں سے اور کیسے کریں۔ حاضرین پر خاموشی، بلکہ سنّاٹے کا راج تھا۔ وہ شاید یہ سوچ رہے تھے کہ ہم کسی دھانسو قسم کی تقریر کی تیاری کرکے آئے ہیں اور اب سمجھ نہیں پارہے تھے کہ کمتر درجے کی آڈینس کے سامنے کیا بات کریں! اور پھر جب ہم نے ''خطابت‘‘ کی ابتداء کی تو ایک قیامت ہی ڈھادی۔ پلک جھپکتے میں ہم نے بہت سے متضاد نکات کو ایک لڑی میں یوں پرویا کہ سُننے والے دم بخود ہ گئے۔ چند لمحات تک تو وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ جو کچھ وہ سُن رہے ہیں وہ تقریر ہے یا اُس سے اوپر کی کوئی چیز۔ اِدھر ہم تھے کہ اپنی ہی رَو میں بہتے چلے جارہے تھے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ 
اپنی موج میں رہنا، اپنے آپ میں رہنا 
لہریں ساتھ نہ دیں گی! 
ہم اپنی موج میں تو خوب بہے مگر یہ یاد نہ رہا کہ اپنے آپ میں بھی رہنا ہے! اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہماری تقریر کی اصلیت حاضرین پر کُھل گئی اور وہ بھی یوں کُھلے کہ ہمارے لیے اپنے آپ کو سمیٹنا مشکل ہوگیا! ابتدائی مرحلے میں سیٹیاں بجائی گئیں اور پھر ناگفتہ بہ مجموعہ ہائِ الفاظ کی مدد سے ہوٹنگ کا شوق یوں پورا کیا جانے لگا کہ ہمارے لیے تقریر ختم کرکے روسٹرم کے سامنے سے ہٹنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا! 
اُس دن ہمیں اندازہ ہوا کہ یاروں نے جو ہمیں تقریری مقابلے کے لیے تیار کیا تھا تو وہ دراصل خیر خواہی کا ڈھونگ رچاکر ہمیں ''... ما در کوچہ ہا رُسوا شُدیم‘‘ کی منزل سے گزارنا چاہتے تھے یعنی تقریری مقابلے کے ماحول میں اچھی خاصی کامیڈی برپا کرنے کی سازش رچی گئی جو بہت حد تک (اور ہمارے لیے، ظاہر ہے، پریشان کن حد تک) کامیاب بھی رہی! 
ہم کالج کے زمانے میں تو تقریر کے مرحلے سے سلامت نہ گزر سکے مگر اب کسی تقریری مقابلے میں مہمان یا جج کی حیثیت سے مدعو کیا جائے تو ساری ہمت جمع کرکے تھوڑا بہت بول لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں روزنامہ دنیا کے کے زیر اہتمام منعقدہ تقریری مقابلے کے لیے روزنامہ دنیا کراچی کے مینیجر ایڈمن اینڈ آپریشن احمر انیس صاحب نے جج کی حیثیت سے مدعو کیا تو جی خوش ہوا کہ گزرے ہوئے خوابِ جوانی کو دُہرانے کا پھر موقع مل رہا ہے! مقابلے میں صرف 6 شرکاء تھے۔ اسماء شہاب، ایمن، کشمالہ، مصطفٰی بن عامر، روحین رضا اور محمد حماد نے رنگ جمانے کی اپنی سی کوشش کی۔ ہم جب بھی کسی تقریری مقابلے میں جج بنتے ہیں تو (عادت سے مجبور ہونے کے باعث) چاہتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ ''بھنڈ‘‘ ہوں اور ہم اظہارِ خیال کی آڑ میں متعلقہ طلباء و طالبات کی کِھنچائی کریں۔ اِس بار سٹی اسکول، آرمی پبلک اسکول اور دی پریکٹیکل اسکولنگ سسٹم کے اِن 6 طلباء نے مل کر چَھکّا مار دیا یعنی ہمیں اغلاط کی نشاندہی کا خاطر خواہ موقع فراہم نہیں کیا! ہاں، آرمی پبلک اسکول کے محمد حمّاد نے جوشِ خطابت میں کہہ دیا کہ ہم اِس وطن کے لیے اپنا لہو بھی نیلام کردیں گے تو ہم نے عرض کیا کہ بھائی، ہم تو لہو نچھاور کرنے والوں میں سے ہیں۔ ہمارا لہو نیلام کرنے والے یارانِ وطن کا الگ گروہ موجود ہے! 
اختتامی کلمات میں ہم ایک اہم مشورہ دینے سے نہیں چُوکے ... یہ کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں طالبات سے کہیں بڑھ کر طلباء کو تقریری مقابلوں میں لازمی حصہ لینا چاہیے کیونکہ یہ بولنے کے آخری آخری مواقع ہیں۔ اِس کے بعد تو شادی کا مرحلہ آنا ہے اور اِس مرحلے میں داخل ہونے کے بعد وہ کچھ بولنے کا موقع ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved