تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-09-2017

دل کے حجرے میں بدستور اذاں ہوتی ہے

اس ایک لمحے کی یاد قلب و دماغ میں ہمیشہ جاگتی رہے گی۔ شمع جلیل عالی کے سامنے رکھی گئی۔ آواز بھرّا گئی۔ جاں بکھرنے لگی۔ شاعر نے پھر خود کو سنبھالا اور رواں ہوا۔ یہ انہی کے کلام کا انتخاب ہے۔
یہ کہہ کے پھینک دئیے اہلِ کارواں نے چراغ
ہمیں تو شہر میں ہونا ہے شام سے پہلے
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
عالی شعر ہو یا افسانہ یا چاہت کا تانا بانا
لطف ادھورا رہ جاتا ہے پوری بات بتا دینے سے
یہاں خوشبو کی صورت روزوشب کی دھڑکنوں میں جی
یہ دنیا ریت کرنے کے لیے پتھر بناتی ہے
سپرد ہیں ہر کسی کو احوال اپنے اپنے 
اٹھائے پھرتے ہیں ہم مہ و سال اپنے اپنے
جو دوسروں کی نگاہ کے آئنے نہ ہوتے
تو دل کہاں ڈھونڈتے خدوخال اپنے اپنے
تیری میری آنکھ میں حیراں ایک ہی منظر
ایک ہی روشن خواب دریچہ تیرا میرا
شہر میں چاہے سو ترمیم ضروری ہو
شہر پناہ پہ ضرب لگانا ٹھیک نہیں
عالی اپنا عشق صداقت کا زمزم
اس میں انا کا زہر ملانا ٹھیک نہیں
اس دن ایسی سرخی تھی اخباروں پر
گونگے ہو گئے شہر کے سارے ہاکر بھی
دھن ہے کہ سجے گھر بھی دل میں ہے مگر ڈر بھی
دیوار نہ گر جائے تصویر بدلنے سے
کسی معصوم سے جھونکے کی اک ہلکی سی دستک پر
انہی بنجر پہاڑوں سے کوئی چشمہ ابلنا ہے
اب آنکھ میں بے ربطیِ منظر کی تھکن ہے
رفتارِ نظر ایسی بھی محتاط نہ ہوتی
اک لے پہ لہو رقص میں رہتا جو نہ عالی
حرفوں کے سْروں میں یہ کرامات نہ ہوتی
جدا شجر سے ہوئے کیا کہ اب سرِ صحرا
بھٹک رہے ہیں گرفتِ ہوا میں آئے ہوئے
کسی کی شہ پہ نکالے پروں کے پیچ عجب
ادھر اڑان بھری اور ادھر پرائے ہوئے
ہم کہ اک اسم کے سائے میں رواں ہیں ورنہ
اس گماں زار میں سو رنگ کے ڈر بنتے ہیں
یہ تو آشفتہ سروں ہی کے لہو کی لو ہے
ورنہ کب گنبدِ ظلمات میں در بنتے ہیں
در بند ہوا ختم ہوئی مہلتِ توبہ
تم نے جسے ہونے نہ دیا ہو کے رہے گا
جو کشتِ جاں سے سینہ چیر کر نکلیں نہ عالی
کہاں کے شعر خالی قافیے گنوا دئیے ہیں
ہوا جاتا ہے اپنے گھر میں بھی ہر شخص تنہا
یہ کیسا عالمی گائوں بسایا جا رہا ہے
آسماں جانے کہاں لے کے چلا ہے مجھ کو
اوپر اٹھتا ہے برابر مری پرواز کے ساتھ
ہم سے صحرائے انا پار کہاں ہوتا تھا
یہ تو اک موجِ محبت ہی یہاں لائی ہے
سعیِ صحرائے وفا سیرِ گلستان کب تھی
دھوپ ہی دھوپ تھی ہر سو کوئی سایا کب تھا
زور کرتا ہے بہت شور و شرِ دہر ولے
دل کے حجرے میں بدستور اذاں ہوتی ہے
نیم دل سے ہی کبھی پار بلا کر دیکھے
اس کی آواز پہ میں سارے کا سارا جائوں
شوق دہلیز پہ بے تاب کھڑا ہے کب سے
درد گوندھے ہْوئے ہیں ہار بنایا ہْوا ہے
شجر سے اک عمر کی رفاقت کے سلسلے ہیں
نگاہ اب دیکھتی ہے برگ و ثمر سے آگے
طلسمِ عکس و صدا سے نکلے تو دل نے جانا
یہ حرف کچھ کہہ رہے ہیں عرضِ ہْنر سے آگے
اْس کی یاد میں ہم کو ربط و ضبطِ گریہ سے
شب لہو لہو رکھنی دن دھواں دھواں رکھنا
عشق خود سکھاتا ہے ساری حکمتیں عالی
نقدِ دل کسے دینا بارِ سر کہاں رکھنا
اک آوارہ سا لمحہ کیا قفس میں آ گیا ہے
لگا جیسے زمانہ دسترس میں آ گیا ہے
ہم اْس کوچے سے نسبت کی خوشی کیسے
ہمارا نام اس کے خار و خس میں آ گیا ہے
ہماری شوق راہوں پر کبھی دیکھے گی دنیا
تمہارے پتھروں کا گوہر و الماس ہونا
کب، کون، کہاں، کس لیے زنجیر بپا ہے
یہ عقدِۂ اسرارِ ازل کس پہ کھلا ہے
کس بھیس کوئی موجِ ہوا ساتھ لگا لے
کس دیس نکل جائے یہ دل کس کو پتہ ہے
آہنگِ شب و روز کے نیرنگ سے آگے
دل ایک گلِ خواب کی خوشبو میں بسا ہے
یہ شہرِ طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ کہ بلا ہے
ہر سوچ ہے اک گنبدِ احساس میں گرداں
اور گنبدِ احساس میں دَر حرفِ دعا ہے
یہ دید تو رْودادِ حجابات ہے عالی
وہ ماہِ مکمل نہ گھٹا ہے نہ بڑھا ہے
زمانوں سے ہمارے کھیت محرومِ نمو ہیں
ہمیشہ چھین لیتا ہے کوئی باری ہماری
زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
ایک دن میں کہاں اندازِ نظر بنتا ہے
مدعی تخت کے آتے ہیں چلے جاتے ہیں
شہر کا تاج کوئی خاک بسر بنتا ہے
میرے دشمن کو ضرورت نہیں کچھ کرنے کی
اْس سے اچھا تو مرے یار کئے جاتے ہیں
وقت دنیا میں پھراتا ہے دنوں کو کیا کیا
دیکھ جو کوہ تھے وہ روئی کے گالے ہوئے ہیں
بوتے رہے لہو کے دِیئے ہم زمین میں
خورشید آسمان پہ بنتے چلے گئے
روز ڈھے جائے یہ ڈھارا تن و جاں کا لیکن
ڈھیر میں اک دلِ بے تاب سلامت رہ جائے
(باقی صفحہ 13 پر )
پیار وہ پیڑ ہے سو بار اْکھاڑو دل سے
پھر بھی سینے میں کوئی داب سلامت رہ جائے
اپنے دِیئے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں
کہا جو ساعتِ سر مست میں قلندر نے
شب اْس پہ دیر تلک دل دھمالتے رہے ہیں
علم انا کے گراتی رہی ہے تیغِ عدو
یہ سورما تو فقط سر سنبھالتے رہے ہیں
ہمارے سر سے بلائیں کہاں ٹلی ہوتیں
یہ اپنی ماں کہ جو صدقے اتارتی رہی ہے
اس ایک لمحے کی یاد قلب و دماغ میں ہمیشہ جاگتی رہے گی۔ شمع جلیل عالی کے سامنے رکھی گئی۔ آواز بھرّا گئی۔ جاں بکھرنے لگی۔ شاعر نے پھر خود کو سنبھالا اور رواں ہوا۔ یہ انہی کے کلام کا انتخاب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved