تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     30-09-2017

یہ معاملہ کیسے ختم ہو گا؟

ایک تو لُولی لنگڑی حکومت ہوتی ہے اور ایک ایسی حکومت جو اپنے لیے بھی بوجھ بن چکی ہو‘ اور بدقسمت ملک کے لئے بھی۔ ایسی ہی صورتحال آج کل اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت کو درپیش ہے... ایک اپاہج حکومت جو نہ اپنے کسی کام کی نہ کسی اور کے کام کی۔ سابق وزیر اعظم کو دیکھیں تو ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ پاناما پیپرز میں کچھ بات نہ بن سکی۔ پورا خاندان ڈھنگ کی کہانی نہ بنا سکا۔ ان چیزوں کا اعتراف تو ان کی ڈکشنری میں سرے سے نہیں۔ پوری سیاسی زندگی‘ جو تیس برس سے زیادہ پہ محیط ہے‘ کبھی کسی کوتاہی کا اعتراف نہیں کیا۔ ہر موقع پر اپنی معصومیت اور پارسائی کا جھنڈا لہرایا۔ پاناما کی پاداش میں کون سے بدلنے والے تھے۔ لہٰذا وہی پارسائی کا واویلا۔ ان کی شکلیں دیکھیں تو گمان ہو کہ معصومیت ان پہ ختم ہوتی ہے۔
وزیر خزانہ ہیں جو نہ صرف اپنے اور قوم پہ بوجھ بنے ہوئے ہیں‘ بلکہ اب تو مذاق کی حدوںکو پار کر چکے ہیں۔ پہلے ہی لگتا تھا کہ شدید ذہنی دباؤ میں ہیں اور فوری علاج نہ ہو تو نروس بریک ڈاؤن ہو جائے۔ اب کی بار نیب عدالت میں فرد جرم سننے کے لئے پیش ہوئے تو عجیب منظر تھا۔ لوگوں نے ایسے تھام رکھا جیسے بیمار ہوں اور سہارے کی ضرورت ہو‘ یا قانون کی گرفت میں ہیں اور بھاگنے کا اندیشہ ہے۔ اس حالت کے باوجود ان کی ہمت کو داد دیں کہ کُرسی چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے۔ عضوِ معطل ہو کے رہ گئے‘ لیکن قلمدان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے شرمندہ کیا ہوں گے قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بن گئے ہیں۔ منی لانڈرنگ سے لے کر پتہ نہیں کیا کیا آنجناب پہ الزامات ہیں‘ لیکن پھر وہی بات کہ ہمت کو داد دینی پڑتی ہے۔ سابق وزیر اعظم بھی کرسی سے گئے تو مجبور ہو کے اور سپریم کورٹ کے حکم کے تحت۔ ورنہ پاناما پیپرز کی تمام روداد میں خود سے کبھی کُرسی کو چھوڑنے کا نہ سُوچا۔ وزیر خزانہ اُن کے معتمد ہیں اور سمدھی بھی۔ وہ کیونکر کُرسی چھوڑنے کا سوچیں؟ 
اس حکومت کے زعما کا عجیب وتیرہ ہے۔ ہر ایک نے جیب میں اقامہ ٹھونسا ہوا ہے۔ اقامہ کا مطلب ہے ورک پرمٹ، مزدوری کرنے کا اجازت نامہ۔ گویا ہمارے آقا ٹھہرے اور متحدہ عرب امارات کے مزدور۔ امارات نے پاکستان کے 800 ملین ڈالر پی ٹی سی ایل کی فروخت کے ضمن میں دینے ہیں۔ یہ ادائیگی کب سے التوا میں ہے۔ اقاموں کے مارے خاک اس پوزیشن میں ہیں کہ زُور سے اِس رقم کا مطالبہ کر سکیں۔ نئے بین الاقوامی قوانین کے تحت کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کے چھپے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کسی اور ملک سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ یعنی پاکستانی حکومت سوئس حکام سے پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹ کے بارے پوچھ سکتی ہے‘ لیکن جب آپ کے پاس امارات کا اقامہ ہو تو سوئس بینکوں میں آپ کی حیثیت پاکستانی شہری کے طور پہ درج نہیں ہو گی بلکہ امارات کے پرمٹ ہولڈر کے طور پر ہو گی۔ یہ ہے اقاموں کا اصل مقصد کہ چھپی دولت کے بارے میں پوچھا نہ جا سکے۔
نئے وزیر خارجہ ہیں اور ماشاء اللہ اُن کے پاس بھی اقامہ ہے۔ وہ پہلے وزیر پانی و بجلی تھے اور اضافی چارج وزارت دفاع کا تھا‘ جہاں انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔ بطور وزیر خارجہ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ جہاں نہیں بولنے کی ضرورت‘ وہاں انہوں نے ضرور بولنا ہے۔ جن چیزوں کا تذکرہ باہر نہیں کرنا بنتا‘ انہوں نے ضرور کرنا ہے۔ ہر ملک میں حکومتی امور کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن جہاں تھوڑی سی دانش مندی کے تقاضے موجود ہوں‘ ان اختلافی امور کا ذکر اندرون خانہ ہوتا ہے۔ گھر کی باتیں گھر میں کی جاتی ہیں۔ وزیر خارجہ ہیں کہ گھر کی میلی چادریں دنیا میں لہرائے پھر رہے ہیں۔ جو الزام بدخواہ ہم پہ لگاتے تھے‘ اس کی ذمہ داری بخوشی اور باآواز بلند قبول کر رہے ہیں۔ کسے خوش کرنے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں؟ یہ وہی جانتے ہوں گے۔ اس عمل میں مملکت کی کیا رسوائی ہو رہی ہے‘ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔
وزیر اعظم ہیں تو بیچارگی کے مارے ہوئے۔ ان کی اتھارٹی وہ نہیں جو وزیر اعظم کی ہونی چاہیے کیونکہ اُن کی پروموشن کسی اور کے مرہون منت ہے۔ کابینہ کسی اور کی چنی ہوئی ہے اور تعداد اتنی کہ کابینہ کم اور ہجوم زیادہ لگتا ہے۔ کابینہ کے اجلاس بلائے جاتے ہیں اور یہ ایک بہتری ہے کیونکہ اکثر اوقات جنابِ نواز شریف اس تکلف میں نہ پڑتے تھے۔ کئی مہینے گزر جاتے تھے اور کابینہ کا اجلاس نہ ہوتا تھا۔ بہرحال دفتری امور پہلے سے بہتر انداز میں نمٹانا فعالیت کا تاثر ہی ہے۔ اصل میں حکومت کھوکھلی ہے کیونکہ دستیاب حالات میں اُس کی اتھارٹی سِرک سِرک کے محدود ہو چکی ہے۔
پنجاب میں خود سے اعلان کردہ خادم اعلیٰ کی فعالیت کے بہت چرچے تھے۔ کمال کی تشہیری مہم کے ذریعے تاثر عام کیا گیا کہ بڑے پایہ کے منتظم ہیں۔ اشتہار بازی اتنی زوروںکی تھی کہ یوں لگتا نواب کالا باغ پیچھے رہ گئے۔ لیکن پاناما کا گرداب اس انداز سے اٹھا‘ اور اس کے مضمرات ایسے ہوئے کہ وہ تمام تاثر دھرے کا دھرا رہ گیا۔ معمول کے امور بھی مشکل سے نمٹائے جا رہے ہیں کیونکہ خاندان کی تمام توجہ کرپشن کے مقدمات اور نیب کی پیشیوں پر ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں بھائیوں نے طویل مشاورت کی ہے۔ لیکن ایک مصیبت ہو تو پھر بھی بات ہے۔ یہاں تو مصیبتوں کے دریا ہیں۔ ایک عبور نہیں ہوا اور دوسرے سامنے آنے لگے۔ گڑھوں سے مردے بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ حدیبیہ کیس میں اپیل نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں آ چکی ہے۔ اس کیس کی لپیٹ میں تو پورا خاندان آتا ہے لیکن اُس کے مرکزی کردار جناب اسحاق ڈار ہی ہیں جنہوں نے اپنے مشہور زمانہ اعترافی بیان میں ہر دبے راز سے پردہ اٹھایا۔ اُن کی اب حالت غیر ہے۔ حدیبیہ کھل گیا تو پھر کیا سماں بندھے گا۔ 
ماڈل ٹاؤن کیس بھی پیچھے پیچھے ہے۔ چودہ لاشوں کا مسئلہ ہے، چھپائے نہ چھپے والا معاملہ۔ ایک حالیہ ٹی وی مذاکرے میں میرے دوست رانا ثناء اللہ اُلجھ پڑے۔ میں نے کہا: رانا صاحب! حوصلہ رکھیں، ابھی تو ماڈل ٹاؤن کیس نہیں کھلا۔ پھر آ پ کا حال کیا ہو گا؟ ظاہر ہے انہیں بات اچھی نہ لگی۔
یہ حکومت ہے کہ لاش جو قوم کے کندھوں پہ بوجھ بنے پڑی ہے؟ ایسی صورتحال دیر تک نہیں رہ سکتی۔ قوم کی ہمت جواب دے جائے گی۔ نااہلی کا ایک وقت ہوتا ہے لیکن یہاں تو مستقل کیفیت بنتی جا رہی ہے۔ ان وَقتوں کو بُرا کہیں یا بھلا جب صدر مملکت کے پاس حکومت کو گھر بھیجنے کا اختیار تھا۔ ایسا اب نہیں۔ حکومت ہے یا 111 بریگیڈ: درمیان کا راستہ رہا نہیں۔
نئے الیکشنوں کو ایک سال باقی ہے اور قوم کے بس میں نہیںکہ تب تک اس بوجھ کو اٹھائے رکھے۔ خود حکومت نے قبل از وقت الیکشن کروانے نہیں۔ انہیں یہ کرنے کی ہمت یا سُوجھ ہوتی تو پاناما کیس شاید یہاں تک نہ پہنچتا۔ کسی اور ملک میں یہ کیفیت ہوتی تو کب کا انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہوتا۔ ہمارے ہاں اس روایت نے ابھی جنم نہیں لیا۔ جو کُرسی پہ ہوتا ہے اس سے چمٹے رہتا ہے۔ ہمارے حکمران اندر سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اندیشوں اور وسوسوں کا شکار رہتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں تو غرور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گرنے لگیں تو اسحاق ڈار بن جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved