تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-10-2017

پاکستان کو کس سے خطرہ ہے؟

میرے پچھلے کالم بعنوان The Next three years پر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے‘ اگرچہ میں نے پوری کوشش کی تھی کہ خطرات کو خوبصورت پوشاکیں پہنا کر پیش کروں۔ پروفیسر غنی جاوید آج سے نہیں‘ پچھلے دو سال سے سینیٹر طارق چوہدری، طارق پیرزادہ اور مجھے ہر ملاقات میں یہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستان بڑی تیزی سے ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی اور ہمارا بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہو گا۔ 
اللہ کرے وہ غلط ہوں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کسی نجومی کی ضرورت ہے‘ جو ہمیں بتائے کہ ہمارا کیا انجام ہو سکتا ہے؟ کل رات عامر متین کے گھر پر محمد مالک، رانا جواد، ارشد شریف، ہما علی موجود تھے اور موضوع تھا: خواجہ آصف کا امریکہ میں دیا گیا بیان۔ بہت گرم گرما بحث ہوتی رہی۔ میں اس بات پر متعلقہ اداروں اور حلقوں کو داد دیتا رہا کہ انہوں نے آخرکار پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ بنا کر ہی دم لیا۔ ایک ایسا ملک جہاں دس کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، قرضہ ستر اسی ارب ڈالر ہو گیا ہے، دنیا کے مہنگے ترین قرضے لئے جا رہے ہیں، ایکسپورٹس گر رہی ہیں، امپورٹس بڑھ رہی ہیں، تنخواہوں کے لیے ہر سال آٹھ ارب ڈالرز کا قرضہ لیا جا رہا ہے، کرپشن کا جن بے قابو ہو چکا ہو، بیروزگاری بڑھ رہی ہے‘ لیکن خواجہ آصف پر تبرہ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ جن کے خلاف امریکہ سے لے کر برکس تک اعلامیے جاری ہو چکے ہیں۔ 
باقی چھوڑیں عمران خان‘ جو مستقبل کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں‘ بھی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے نان سٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں‘ لیکن وہی بات خواجہ آصف کرے تو وہ مذمتی بیان جاری کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ سیاسی مخالف ہیں۔ اگر عمران خان کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے وقت یہ سمجھتے تھے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز اور دہشت گردوں کے اڈوں کو ختم کرنا ضروری ہے‘ تو پھر اچانک ان کی رائے کیوں بدل گئی؟ صرف اس لیے کہ یہ بیان حکومت کے وزیر کا ہے؟ کیا اسے کہتے ہیں قومی مفادات یا پھر سیاسی مفادات قومی پر حاوی ہو جاتے ہیں؟ تو پھر ایسے لیڈروں پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے جو ایسے اہم ایشوز پر اپنے بیانات اس لیے بدل دیں کہ اس سے مخالف کو ذلیل کرنا مقصود ہے؟ چاہے پاکستان کے ساتھ کچھ بھی غلط ہو جائے۔ 
کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے اپنے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ ہمیں کس کام پر لگا دیا گیا ہے؟ کیا خطے میں موجود تمام ملکوں سے اختلاف کی سی کیفیت پیدا کرکے رکھنا ضروری ہے؟ بھارت کو چھوڑیں ایسی صورتحال کہ چین، امریکہ اور روس تک بھی ہمیں کہیں کہ ان لوگوں کو لگام دو۔ ہمارا ایک اور بیانیہ بھی ہے۔ یہ کہ جناب امریکہ نے اسی کی دہائی میں جہادیوں کو پالا پوسا اور پھر چھوڑ دیا۔ یہ بھی کہ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
کس کو علم نہیں کہ یہ کام بھٹو صاحب نے شروع کیا تھا‘ اس وقت جب کابل یونیورسٹی سے طالب علموں کو پاکستان بلا کر ان کے ذریعے پراکسی شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ وہ پہلے افغان جنگ میں کام آئے اور پھر طالبان کے لیڈر بن کر ابھرے۔ ہم آج تک بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جمی کارٹر نے مدد کی جو پیشکش کی‘ وہ اتنی کم تھی کہ جنرل ضیاء نے فرمایا: یہ تو مونگ پھلی کے برابر بھی نہیں۔ اور پھر امریکہ نے چار ارب ڈالر کی امداد دی۔ جوں جوں نوٹ بڑھتے گئے‘ رقص تیز ہوتا گیا۔ مال آتا گیا اور ہم دیوانے ہوتے چلے گئے۔ پھر امریکہ کو طعنے کس بات کے دیتے ہیں کہ اس کی جنگ لڑی؟ 
میرے علم کے مطابق افغانستان میں مداخلت کا منصوبہ تو بھٹو صاحب دور سے شروع ہو چکا تھا اور بعد میں جنرل ضیاء اس معاملے میں کودے۔ اس دور کے اخبارات اور کالم نگاروں کو پڑھیں تو قوم کے چودہ طبق روشن ہو جائیں کہ یہ سودا کیسے بیچا جا رہا تھا لیکن آج امریکیوں کو فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں استعمال کیا۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے امریکیوں کو اس جنگ میں استعمال کیا تھا یا دونوں نے ایک دوسرے کو استعمال کیا تھا‘ کیونکہ دونوں کے مفادات اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس وقت یہ سودا اس لئے بیچا گیا کہ روس پاکستان کو فتح کر کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اب اس جنگ کو ختم ہوئے تقریباً اٹھائیس برس ہو چکے ہیں۔ روس کا گزارہ ان گرم پانیوں کے بغیر کیسے ہو رہا ہے؟ ہم اسے روس کی ضرورت سمجھتے رہے جبکہ گرم پانیوں کی ضرورت چین کو تھی جس نے اب سی پیک شروع کیا ہے۔ ایک دن بھی روس نے نہیں کہا کہ ہمیں بھی گوادر تک راستہ دو۔ اس وقت کا کوئی ایک دانشور، کالم نگار اور دفاعی مبصر شرمندہ نہیں ہو گا۔یہ لوگ قوم سے دس سال تک جھوٹ بولتے رہے کہ روس گرم پانیوں تک جانے کا خواہش مند تھا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو ہم اس قوم کے ساتھ اب بھی بولتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ آج بھی نان سٹیٹ ایکٹرز کے معاملے پر بول رہے ہیں اور پھر داد پا رہے ہیں۔ ہمیں ایک ایسی خیالی دنیا میں لے جایا گیا‘ جہاں ہم یہ یقین کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہم دنیا کے ساتھ جو چاہیں کر گزریں‘ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی لیے ہماری طرف بڑھتے خوفناک طوفان بھی ہمیں نظر نہیں آ رہے۔ ہمیں ایسی جھوٹی تاریخ پڑھائی گئی ہے کہ ہم ایک کنوئیں میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز ہی جب معاشرے کو ایک آزاد اور خوشحال معاشرہ بنانے کی بجائے اس کو دوسرے ذریعے سے کنٹرول کرنے پر یقین رکھتے ہوں تو پھر کسی سے کیا گلہ؟ دنیا ہمیں کہہ رہی تھی کہ اپنے ہاں سے نان سٹیٹ ایکٹرز ختم کریں‘ اور ہم نے انہیں اٹھا کر سیاست میں لانچ کر دیا۔ پہلے کچھ گروہوں کو سیاست میں لایا گیا‘ اور پورے معاشرتی سکون کو درہم برہم کر دیا گیا۔ انیس سو اسّی تک ایک مسلک کے لوگ جلوس نکالتے تو دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے ان کے لئے دودھ کی سبیلیں لگاتے تھے۔ انہی گروہوں کا کمال ہے کہ آج وہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ سیاست میں ووٹ لینے کے لیے ایک دوسرے میں ایسے نقص نکالے گئے کہ پورا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسا کہ بیان مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تقسیم ہو چکے ہیں اور برابر تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 
ہم نے دنیا کے ساتھ پنگا لے رکھا ہے۔ ہمارے بعض مبصرین فرماتے ہیں کہ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز ہماری دفاعی لائن ہیں۔ ہر ملک کی دفاعی لائن فوج ہوتی ہے‘ جس کے لیے قوم پیسے دیتی ہے اور ہر طرح سے حمایت کرتی ہے جبکہ ہماری دفاعی لائن چند نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں‘ جو دنیا بھر میں کارروائیاں کرنے کے بعد ان کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں اور پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ دنیا ہمیں انتہا پسند کیوں سمجھتی ہے۔ 
بہرحال مبصرین جیت گئے ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ مارو یا مر جائو۔ اگر کسی نے ہمیں کچھ کہا تو ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ کسی دن ان مبصرین اور ان کے سربراہوں کے بچوں کا پتہ کریں گے تو انکشاف ہو گا کہ اکثریت کے بچے امریکہ اور لندن میں رہتے ہیں۔ بعض کی جائیدادیں دوبئی میں ہیں۔ جب ہم ان مبصرین سے پوچھتے ہیں کہ جناب اتنی محنت سے آپ جو اتنے خطرات پاکستان کے لیے پیدا کر رہے ہیں تو ان کا تدارک کیسے ہو گا؟ تو جواب ملتا ہے: ہمارے پاس طاقت ہے ناں۔ 
ایک کام کریں۔ یہ سب مبصرین اپنے بچوں کو امریکہ‘ لندن‘ یورپ سے واپس پاکستان لائیں تاکہ جب یہاں بم چل رہے ہوں تو سب کو برابر کا دکھ محسوس ہو۔ جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ پاکستان کو کس سے خطرہ ہے تو جناب دنیا سے زیادہ ہمیں خود سے خطرہ ہے‘ جو ہر جگہ بڑھک مارتے ہیں کہ ہمارے پاس بم ہے ناں اور بھول جاتے ہیں کہ یہی بم دوسروں کے پاس بھی ہیں۔ 
ٹھیک ہے پھر لگے رہو منا بھائی...!

 


 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved