اہل علم کہتے ہیں کہ ہر لفظ ایک دنیا ہے۔ لفظ کسی چیز، کیفیت یا حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ الفاظ ہی کے ذریعے ظاہر یا بیان ہوکر سامنے آتا ہے۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے
THOUGHTS ARE THINGS
یعنی خیالات ٹھوس اشیاء کے مانند ہوتے ہیں، اپنی ایک حقیقت یا وجود رکھتے ہیں اور اُنہیں عملی زندگی میں دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ انسانی ذہن میں جو کچھ بھی ابھرتا ہے وہ خیالات ہی کے ذریعے ترتیب پاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیالات کو بہترین اور موثر انداز سے پیش کرنا ہے تو الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ الفاظ کا غیر محتاط انتخاب خیالات کو ڈھنگ سے بیان نہیں کر پاتا اور معاملہ صرف یہیں تک اٹک کر نہیں رہ جاتا۔ جب خیالات کے اظہار کے لیے نامناسب الفاظ بروئے کار لائے جاتے ہیں تب مفہوم کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اور لوگ لاکھ کوشش کرنے پر بھی بات کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ الفاظ ہی کسی بھی خیال کو موزوں ترین مفہوم کا لباس عطا کرتے ہیں۔ لوگ ہمیں ہمارے الفاظ ہی کی مدد سے جانتے اور جانچتے ہیں۔ الفاظ ہی سے ہماری شائستگی ظاہر ہوتی ہے اور الفاظ ہی سے ہمارا بھونڈا پن بھی ثابت ہوتا ہے۔
اور الفاظ محض اس لیے تو نہیں ہوتے کہ اُنہیں خیالات کے بیان کے لیے استعمال کیا جائے۔ زندگی کا معیار اگر واقعی بلند کرنا ہے تو ہمیں الفاظ کو جینا پڑے گا۔ یہ جینے کا معاملہ بھی انگریزی کے مزاج کا حصہ ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں
LIVE YOUR WORDS
یعنی اپنے الفاظ پر اس طور عمل کرو کہ ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کا بھرپور تاثر ملے یعنی جوکہو اُس پر عمل کرو تاکہ لوگوں کو کسی بھی اعتبار سے قول و فعل کا تضاد دکھائی نہ دے اور وہ کسی بھی قسم کے مغالطے کا شکار نہ ہوں۔
یہ سب کچھ جیسا دکھائی دیتا ہے ویسا آسان ہے نہیں۔ الفاظ کی حرمت کو سمجھنے اور اُن کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے میں عمر لگ جاتی ہے۔ انسان پل بھر میں کسی کا نہیں ہوسکتا۔ ؎
پل میں کیسے کسی کے ہوجائیں؟
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے!
عمر بھر کی ریاضت کا معاملہ انسانوں تک محدود نہیں۔ خیالات، الفاظ اور اعمال کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم الفاظ کے نہیں ہو پاتے یعنی اُنہیں اِس طرح نہیں اپناتے کہ زندگی کا رخ ہی تبدیل ہوجائے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم بہت سے معاملات میں اپنی ذمہ داری سے کتراتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں کوئی ایک لفظ بھی ہماری ذمہ داریاں بڑھا سکتا ہے۔ کوئی بھی لفظ منہ سے ادا کردیئے جانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اُس کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ذمہ داری سر پر آن پڑتی ہے۔
الفاظ کی حرمت کا خیال ہمیں یوں آیا کہ ہماری سیاست بھی اب الفاظ کی توقیر سے یکسر نا آشنا ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ بولنے پر آتے ہیں تو بڑے بڑے الفاظ یوں ادا کر جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کوئی بھی لفظ زبان سے ادا ہو جانے کے بعد کس طرح کی پریشانی کا سامان کرنا پڑسکتا ہے۔ نواز شریف کے نا اہل قرار پانے کے بعد قومی سیاست میں تھوڑی بہت حرکت ضرور دکھائی دی ہے۔ کچھ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں ہی نے تھوڑا سا تحرّک پیداکرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ قومی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ یہ سنجیدگی کس حد تک ہے، اِس کا اندازہ تو وہی لگا سکتے ہیں جو سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ہر معاملے کو اُس کے حقیقی تناظر میں جاننے اور جانچنے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔ ہم تو اپنی ناقص عقل کی روشنی میں اتنا دیکھ پائے ہیں کہ کوچۂ سیاست میں بسنے والے یارانِ وطن دوسروں کی ذمہ داریوں کا رونا تو بہت روتے ہیں مگر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اُن سے کماحقہ سبک دوش ہونے کو تیار نہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا عمل تو بخوبی جاری ہے مگر کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔
بات الفاظ سے شروع ہوئی تھی اور سیاست پر ختم ہوگئی۔ آج کل ایم کیو ایم پر بُرا وقت آیا ہوا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ''وقت‘‘ کے بجائے ''وختا‘‘ کہنے سے حق زیادہ اچھی طرح ادا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنا اپوزیشن لیڈر لانے کے لیے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا تو ٹی وی چینلز کو ایک نیا موضوع مل گیا۔ تین چار دن سے یہی راگ الاپا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جارہا ہے۔ طرح طرح کے سوالات کی مدد سے ناظرین کو متوجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اُن سے رائے بھی طلب کی جارہی ہے۔ ایک دلچسپ، بلکہ خاصا مضحکہ خیز سوال یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان سے قربت اختیار کرنے کی صورت میں تحریک انصاف کی ساکھ تو داؤ پر نہیں لگ جائے گی!
یہ بھی خوب رہی۔ کیا سیاسی جماعتوں کو اپنی ساکھ کا احساس رہا ہے؟ اُن کے قول و فعل سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہیں ساکھ واکھ کی کوئی فکر لاحق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کیا بڑی اور کیا چھوٹی، ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنی ساکھ کو خود ہی کچھ اِتنے اہتمام سے داؤ پر لگایا ہے کہ اب بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ساکھ کہنے کو محض ایک لفظ ہے مگر یہ ایک لفظ اپنے اندر ایک الگ ہی طرح کی دنیا کو سموئے ہوئے ہے۔ جن افراد، اداروں یا جماعتوں کو ساکھ کا احساس ہوتا ہے اُن کا کردار بھی بلند رہتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے قلیل المیعاد مفادات کو ترجیح دیتے رہنے کی روش اِتنے جوش و خروش سے اپنائی ہے کہ طویل المیعاد مفادات کو اہمیت دینے سے یکسر گریز کی روش پر گامزن رہنا اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے۔ دیگر بہت سی جماعتوں کی طرح تحرک انصاف کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ساکھ ہے کہاں جو ایم کیو ایم پاکستان یا کسی اور سیاسی جماعت سے قربت بڑھانے کی صورت میں داؤ پر لگ جائے گی؟ 2013 کے عام انتخابات سے اب تک تحریک انصاف نے ایسی کون سی روش اپنائی ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ اُسے اپنی ساکھ کا احساس ہے یا ساکھ کو بہتر بنانا اُس کی ترجیحات میں شامل ہے؟ اِن چار برس میں تحریک انصاف نے، دوسری بہت سی جماعتوں کی طرح، ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی بصیرت سے ابھی تک بہت دور ہے۔ جب تک الفاظ کو محض الفاظ سمجھنے کی عادت حرزِ جاں رہے گی تب تک قول و فعل کا تضاد جان نہیں چھوڑے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اِس کے نتیجے میں بصارت کو بصیرت بننے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوگی۔